سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کا معاملہ ہو تو یہ ہمارے قومی سیاسی بیانیے کامحور بن جاتا ہے اور ہر طرف اس پر بحث ہونے لگتی ہے لیکن یہ معاملہ پارلیمان سے لے کر صحافت تک کہیں زیر بحث نہیں آ سکا کہ فیڈرل شریعت کورٹ اس وقت 8 کی بجائے صرف 2 ججز سے کام کر رہی ہے اور ایک عرصے سے ججز کی آسامیاں خالی پڑی ہیں۔
سپریم کورٹ میں مقدمات کی سماعت کے لیے جب بنچ تشکیل دیے جاتے ہیں، تو ان کی خبریں ذرائع ابلاغ پر اہتمام سے شیئر کی جاتی ہیں اور قومی سیاسی بیانیے میں ان پر طویل مباحث ہوتے ہیں لیکن اس نکتے پر کبھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی، سپریم کورٹ کا شریعت ایپلیٹ بنچ 23 ماہ سے معطل پڑا ہے اور اس کے سامنے پچھلی صدی کے مقدمات زیر التواپڑے ہیں کہ بنچ بنے تو ان کی سماعت ہو۔
یہ ریاست جس کا مملکتی مذہب آئین کے آرٹیکل 2 کے تحت اسلام ہے، اور جس کے آئین میں اللہ کی حاکمیت اعلی کو تسلیم کیا گیا ہے اور جس کے آرٹیکل 31 کے تحت ریاست پابند ہے کہ ایسے اقدامات کرے، جن کے نتیجے میں لوگ قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں، اس کے ذمہ داران واقعتا اپنا نظم اجتماعی قرآن وسنت کے مطابق مرتب کرنا چاہتے ہیں یا اسلام کی بات یہاں محض برائے وزن بیت کی جاتی ہے اور عملا اس بات پر وسیع تر اتفاق رائے ہے کہ معاملات زندگی نو آبادیاتی دور غلامی کے قانونی ڈھانچے کے مطابق ہی چلائے جائیں گے۔
یہاں سپریم کورٹ کا شریعت ایپلٹ بنچ بنایا گیا اور طے کیا گیا کہ اس میں دو جید علماء ججز بھی شامل ہو ں گے۔ یہ دو ججز وفاقی شرعی عدالت سے بھی لیے جا سکتے ہیں اور صدر مملکت چاہیں تو جناب چیف جسٹس کی مشاورت سے براہ راست علمائے کرام میں سے ان کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان علماء ججز کے ساتھ جو حسن سلوک، کیا جا رہا ہے آئیے اس پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں تا کہ آپ کو اس باب میں کوئی شک نہ رہے کہ ہم اسلامائزیشن، کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں۔
سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کی مجموعی تنخواہ ایک ملین سے زیادہ ہے۔ قریب تیرہ یا چودہ لاکھ روپے ماہانہ۔ لیکن اسی سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے علماء جج صاحبان کی تنخواہ مبلغ 2 لاکھ66 ہزار روپے ہے جو ضلعی عدالت کے جج کی تنخواہ سے بھی شاید کچھ کم ہی ہو۔ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے علماء جج صاحبان کو مراعات یعنی گاڑی، ڈرائیور، دفتر، سٹاف وغیرہ کی سہولیات صرف اس دوران ملتی ہیں جب وہ بنچ میں کسی مقدمے کی سماعت کر رہے ہوں۔ مقدمے کی سماعت کے دس دن (اور زیادہ سے زیادہ پندرہ دن) بعد ان سے یہ تمام مراعات لے لی جاتی ہیں۔ فیصلہ سازوں نے طے کر رکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے علماء جج صاحبان کو میڈیکل الائونس بھی نہیں دینا۔ بیمار ہوں تو ہوتے رہیں۔ اس ملک میں ایک چوکیدار کو بھی میڈیکل الائونس دیا جاتا ہے لیکن سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے علماء جج صاحبان کو نہیں دینا۔ (میرا خیال ہے کہ علماء ججوں کے ساتھ اس سے بہتر سلوک ایسٹ انڈیا کمپنی کے ابتدائی طور میں کیا گیا تھا)۔
اب آئیے ملک کے نظام عدل کے اس اہم ترین اسلامی اور شرعی ستون کی فعالیت کا عالم دیکھ لیجیے۔ یاد رہے کہ شریعت ایپلٹ بنچ ہی نے وہ مقدمات سننے ہوتے ہیں جن کا تعلق اسلامی قانون کی تعبیر سے ہو۔ حتی کہ اگر کسی کے خیال میں کوئی قانون اسلام سے متصادم ہے تو یہ مقدمہ بھی فیڈرل شریعت کورٹ سے پھر سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ میں آتا ہے۔
رشیدہ پٹیل کیس کا فیصلہ 1989 میں وفاقی شرعی عدالت نے کیا۔ اس فیصلے میں لکھا گیا کہ زنا بالجبر کا جرم اصل میں حرابہ ہے۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل ہوئی اور شریعت ایپلٹ بنچ نے ابھی تک اس پر فیصلہ نہیں کیا۔ 32 سال گزر گئے، فیصلہ معطل ہوا پڑا ہے۔ بنچ بنے گا اور بنچ کو کیس بھیجا جائے گا تب بنچ فیصلہ سنائے گا۔
اس اپیل پر فیصلہ آ جاتا تو شاید پر ویز مشرف کو ویمن پروٹیکشن بل لانا ہی نہ پڑتا۔ یاد رہے کہ مشرف دور کی اس قانون سازی کے خلاف بھی وفاقی شرعی عدالت فیصلہ دے چکی ہے اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے پاس اپیل زیر التوا ہے۔ آخری مرتبہ اس بنچ نے 2010 میں اس اپیل پر سماعت کی تھی۔ 12 سال گزر گئے اپیل وہیں کی وہیں پڑی ہے۔ اب بنچ بنے گا اور بنچ کو کیس بھیجا جائے گا تب بنچ فیصلہ سنائے گا۔
یہی معاملہ کورٹ فیس ایکٹ کے ساتھ ہوا۔ مغلوں کے زمانے میں یہ نہیں ہوتا تھا۔ برطانوی نو آبادیاتی دور غلامی میں رعایا سے کہا گیا انصاف لینے آتے ہو تو فیس بھی ادا کیا کرو۔ چنانچہ کورٹ فیس عائد کر دی گئی۔ فیڈرل شریعت کورٹ نے 1994 میں اس کورٹ فیس کے خلاف فیصلہ دیا کہ یہ غیر اسلامی ہے اور انصاف کے لیے عدالت آنے والوں سے یہ فیس نہیں لی جا سکتی۔ لیکن اس فیصلے کے خلاف اپیل ہوئی اور اس اپیل پر آج تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ بنچ بنے گا اور بنچ کو کیس بھیجا جائے گا تب بنچ فیصلہ سنائے گا۔
سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ نے آخری سماعت 5 دسمبر 2020 کو کی تھی۔ پانچ دن سماعت ہوئی اور پھر بنچ ٹوٹ گیا۔ یہیں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ پچھلے بیس تیس سال میں شریعت ایپلٹ بنچ کے سامنے ایسے کتنے مقدمات سماعت کے لیے رکھے گئے جن کا تعلق قوانین کو اسلام کی رو سے جانچنے سے تھا کیونکہ اس بنچ کا اصل مقصد تو یہی تھا۔
پارلیمان اگر آئین سے مخلص ہے، اگر وہ واقعی آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے، قوانین کو اسلام کی روح سے ہم آہنگ کرنا اگر سیاسی حربہ نہیں بلکہ ریاستی پالیسی ہے، اس ریاست کا مملکتی مذہب اگر واقعی اسلام ہے اور آئین میں اللہ کی حاکمیت اعلی کی بات اگر محض برائے و زن بیت نہیں کی گئی تو اسے اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کی عدم فعالیت کی وجوہات کیا ہیں اور اس سلسلے میں وہ ضروری قانون سازی کیوں نہیں کر پا رہی؟ کیسز کب تک التوا میں رہیں گے، بنچ کب تک نہیں بنیں گے، سماعت کب تک نہیں ہوگی؟ یہ سوالات اب سماج کے اجتماعی ضمیر کے آگے سلگ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر قانو ن سازی کی ضرورت ہے تو کیوں نہیں کی جاتی۔
کم از کم اتنا قانون ضابطہ تو بنا دیا جائے کہ یہ بنچ زیادہ سے زیادہ کتنے دن یا ہفتے یا مہینے یا سال غیر فعال رہ سکتا ہے اور اسے زیر التوا مقدمات کا فیصلہ کتنے عرصے میں کر دینا چاہیے۔ ابھی تو کسی کو کچھ معلوم نہیں کب بنچ بنے گا، کب سماعت ہوگی۔ کیا اسلامائزیشن اس طرح ہوتی ہے؟