مذہبی انتہا پسندی کے بعد اب سیاسی انتہا پسندی کاآزار معاشرے کو لپیٹ میں لے رہاہے۔ نفرت اور جنون کے اس عالم میں بس ایک بندوق کی کمی ہے ورنہ اہل سیاست افغان وار لارڈز کی طرح علاقے تقسیم کر کے اپنی اپنی عملداری کا اعلان کر دیں۔ سوال اب یہ ہے کہ ان سیاسی انتہا پسندوں کو قومی دھارے میں کیسے لایا جائے؟
احترام باہمی اور حفظ مراتب اب بھولی بسری کہانی ہو گئے۔ ملک کے ایک وزیر اعظم کو یہودی ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور دوسرے کو مودی کا یار اور غدار قرار دیا جاتا ہے۔ منتخب وزیر اعظم سیاسی مخالفین کو بھرے جلسوں میں ڈیزل اور جانے کن کن ناموں سے یاد کرتا اور تمسخر اڑاتا ہے۔ ڈھائی سال گزر گئے لیکن وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ملاقات نہیں ہو سکی۔ مودی کے ساتھ مل بیٹھنا گوارا ہے، وہ فون بھی نہ سنے تو ہم بد مزہ نہیں ہوتے لیکن حزب اختلاف سے ملنا گوارا نہیں کیونکہ حزب اختلاف کی تو شکلیں ہی غداروں جیسی ہیں۔
مکالمہ ہماری سماجی روایت تھی لیکن اہل سیاست نے اس روایت کو تباہ کر دیا۔ اب پریس ٹاک ہو یا ٹاک شو، میدان اسی کے نام رہتا ہے جو زیادہ بد تمیزی کا مظاہرہ کر سکے۔ دلیل اور شائستگی کا اب یہاں کوئی گزر نہیں۔ ہر صف میں معتبر ہونے کا ایک ہی راستہ ہے کہ دوسروں کی تذلیل کے فن میں مہارت ہونی چاہیے۔ ایک سیاسی انتہا پسند دوسرے کو ٹریکٹر ٹرالی کہہ کر اس کی تحقیر کرتا ہے تو دوسرا جلسوں میں کھڑے ہو کر باقاعدہ چادر اوڑھنے اور رونے کی اداکاری کر کے دوسروں کی تحقیر کر رہا ہوتا ہے۔
پارلیمان کے باہر قومی قیادت پرحملہ ہوا، جوتے اور تھپڑ مارے گئے لیکن صف اقتدار سے کسی نے اس حرکت کی مذمت نہیں کی بلکہ مطالبے کیے گئے کہ اس شخص کو خصوصی ایوارڈ دیا جائے جس نے جوتا مارا۔ سیاسی قیادت پر تشدد اور بد تمیزی کی ایسی ایسی تاویلات اور عذر پیش کیے جا رہے ہیں کہ ابلیس بھی سوچتا ہوگا: باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک۔
نفرت کا ایک سونامی ہے جس نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہے۔ ہر طرف آتش فشاں ہیں۔ جو پورے ملک کا وزیر اعظم ہے وہ حزب اختلاف کو کرپٹ قرار دے کر مخالف سیاسی جماعتوں کے سماجی بائیکاٹ کی بات کر رہے۔ سابق وزیر اعظم للکار رہا ہے آئو میرے سامنے سٹریچر پر واپس نہ بھیجوں تو کہنا۔ پارلیمانی لاجز کے سامنے رکن اسمبلی مخالفیں کو گندی گالیاں دے رہا ہوتاہے۔
سیاسی انتہا پسندی نے پورے معاشرے کو گھٹن کا شکار کر دیا ہے۔ ہر سیاسی فرقے کے انتہا پسند سوشل میڈیا پر جتھوں کی صورت منظم ہیں۔ دلیل، اخلاقیات، شائستگی، صداقت سے بالعموم ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کی غالب اکثریت عصبیت اور نفرت کی پرچم بردار ہے۔ سارا دن زہر اگلا جاتا ہے اور دوسرے کو گالیاں دی جاتی ہیں اور اس کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ سرشام ٹویٹر پر غلیظ ٹریندز اہتمام سے چلائے جاتے ہیں۔ یہ ٹرینڈز سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں چلتے ہیں۔ ان کی زبان درازی کے خوف سے معاشرہ سہما پڑا ہے اور سیانے لوگ ایک دوسرے کو مشورہ دیتے ہیں ایسی کوئی بات نہ کی جائے کہ کوئی سیاسی فرقہ ناراض ہو جائے اور سوشل میڈیا کے یہ جنگجو آپ کے شجرہ نسب تک جا پہنچیں۔
انتہا پسندی وضع قطع کا نام نہیں، یہ رویوں کا نام ہے۔ بظاہر جدت اوڑھ کر جینے والا شخص بھی انتہا پسند ہو سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ مولوی ہی انتہا پسند ہو۔ مغرب کے اعلی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل آدمی روانی کے ساتھ انگریزی بول کر بھی انتہا پسندی پھیلا سکتا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سیاسی انتہا پسندی کے ساتھ جڑا خطرہ زیادہ سنگین اور زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی جب بندوق اٹھاتی ہے تو اس کا نتیجہ ہم حال ہی میں بھگت چکے لیکن یہ بھی ہماری تاریخ ہے کہ سیاسی انتہا پسندی جب بندوق اٹھاتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ پھر عوامی لیگ سے مکتی باہنی نکلتی ہے، پھر حادثے ہوتے ہیں اور حادثے جغرافیے تک بدل دیتے ہیں۔
انتہا پسندی آگے چل کر لاقانونیت کی کوئی سی بھی شکل اختیار کر کے ریاست کے لیے ایک چیلنج بن جاتی ہے۔ اگر ایک وفاقی وزیر سر عام یہ کہہ رہا ہو کہ چیئر مین سینیٹ کا الیکشن جیتنے کے لیے ہم حربہ استعمال کریں گے اور یہ نہیں ہو سکتا کہ اپوزیشن کے ہاتھ کھلے ہوں اور ہم اپنے ہاتھ قانون سے باند ھ لیں تو یہ گویا ریاست اور اس کے قانون کو دیا جانے والا ایک چیلنج ہے۔ انتہا پسند ی کو کسی ادارے کا کوئی ایسا فیصلہ قبول نہیں ہوتا جو اس کی مرضی کے خلاف ہو۔ وہ اپنی ہی تعبیر پر اصرار کرتی ہے اور اس تعبیر کے راستے میں آنے والی ہر چیز کو روند دیتی ہے چاہے وہ قانون ہی کیوں نہ ہو۔
نفرت اور جنون کے اس کھیل کو روکنا ہو گا۔ جیسے مذہبی انتہا پسندوں سے کہا جاتا ہے کہ دین کی مبادیات کی طرف لوٹیں ایسے ہی کشمکش اقتدار کے تمام حریفوں سے کہا جانا چاہیے کہ آئین کی طرف لوٹیں۔ اقتدار پر قبضے کے لیے آئین کی بالادستی کسی بھی پیرائے میں کسی بھی عنوان سے پامال کی جائے یہ بھی ایک انتہا پسندی ہے۔ جس طرح مذہبی انتہا پسندی نے نبٹنے کے لیے "پیغام پاکستان " متعارف کرایا گیا اور ڈیڑھ ہزار کے قریب علماء سے ایک ضابطہ اخلاق پر دستخط لیے گئے ایسے ہی اہل سیاست کے لیے بھی ایک میثاق اخلاقیات مرتب کیا جانا چاہیے اور تمام اراکین پارلیمان اور سیاسی عہدیداروں سے اس پر دستخط لیے جائیں اور انہیں اس پر عمل کرنے پر پابند کیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 63 میں ترمیم کی جائے اور جو آدمی میثاق اخلاقیات کو پامال کرے اسے نا اہل قرار دے دیا جائے۔
جس طرح مذہبی انتہا پسندی کے شکار مقررین پر کچھ پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور وہ کچھ ایام میں کچھ علاقوں سے شہر بدر کر دیے جاتے ہیں ایسے ہی سیاسی انتہا پسندوں کی ایک فہرست بنائی جاسکتی ہے اور ان کے ٹاک شوز وغیرہ میں جا کر آلودگی پھیلانے کے حوالے سے کوئی ضابطہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ مذہبی مناظر کا حلقہ اثر اور ابلاغ نسبتا محدود ہے لیکن ٹاک شوز اور پریس ٹاک کے ذریعے اہل سیاست تو گھر گھر نفرت اور انتہا پسندی پھیلارہے ہیں۔
لازم ہو چکا ہے کہ سیاسی فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے کوئی شعوری کوشش کی جائے۔ سیاسی انتہا پسندوں کو قومی دھارے میں لانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس کے لیے کوئی سیاسی یکجہتی کونسل بنائی جائے یا پارلیمان کے اندر ان کی تربیتی ورکشاپس کروائی جائیں۔ سیشن کے دوران ان کے لیے کچھ تربیتی سیشن منعقد کیے جائیں جہاں انہیں بنیادی اخلاقی آداب کے بارے میں بتایا جائے۔
سماج کو فیصلہ کرنا ہو گا۔ مذہبی انتہا پسندی کے بعد کیا اب اس نے سیاسی انتہا پسندی کے ہاتھوں یر غمال ہونا ہے یا پہلے تجربے سے کوئی سبق حاصل کرتے ہوئے اس سیاسی فرقہ واریت کی نفی کرنی ہے۔ وقت بہت کم ہے۔