خبر ہے کہ مریم نواز صاحبہ نے پنجاب کے 4 حلقوں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے عمران خان صاحب نصف درجن حلقوں سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ یقینا بلاول صاحب بھی متعدد حلقوں سے الیکشن لڑیں گے۔ یہ سب مقبول رہنما ہیں۔ ہمارے اور آپ کے ووٹ کے جائز حقدار، نہ بکنے والے، نہ جھکنے والے، بے لوث قیادت، بے داغ ماضی، کردار کے غازی یقینا سب نشستووں پر کامیاب ہو جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟
قانونی پوزیشن یہ ہے کہ ایک آدمی ایک وقت میں ایک ہی نشست رک سکتا ہے۔ اسے باقی نشستیں خالی کرنا ہو ں گی۔ ان نشستوں پر پھر ضمنی انتخاب ہوگا۔ کیا اس ملک میں کوئی ہے جو ان سے پوچھ سکے کہ اس ضمنی انتخابات کے خرچے قوم کیوں برداشت کرے؟ اگر کوئی شخص یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ بہت مقبول ہے تو اس کی قیمت عوام کیوں ادا کرے؟ کسی کو یہ خوف ہے کہ وہ ہار نہ جائے تو اس کے اس حفاظتی بندوبست کے پیسے عوام کی رگوں سے کیوں نکالے جائیں۔
انتخابی قوانین کے مطابق ایک آدمی ایک وقت میں ایک حلقے میں بطور ووٹر اپنا اندراج کرا سکتا ہے لیکن انتخابی قوانین سیاسی اشرافیہ کو آزادی دیتے ہیں کہ جتنے حلقوں سے مرضی الیکشن میں بطور امیدوار حصہ لے لے۔ یہ اشرافیہ کے دست ہنر کا وہ کمال ہے جس کا اخلاق اور دیانت کی دنیا میں کوئی اعتبار نہیں۔ یہ محض ایک واردات ہے جسے قانون سازی کے ذریعے تحفظ دیا گیا ہے۔
یعنی صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ہرحلقے کے لیے ہر آدمی کا ووٹ صرف ایک ہوگا اور وہ صرف ایک انتخابی حلقے میں درج ہوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک آدمی کے ووٹ دو یا تین یا اس سے زیادہ حلقوں میں موجود ہوں اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ کسی آدمی کے ایک حلقے میں ووٹوں کی تعداد ایک سے زیادہ ہو۔ سادہ سا اصول ہے: ووٹ بھی ایک اور حلقہ بھی ایک۔
جب اصول یہ ہے کہ ایک آدمی ایک وقت میں ایک ہی ایوان کی ایک ہی نشست رکھ سکتا ہے تو منطقی طور پر اسے ایک وقت میں ایک ہی ایوان کی ایک ہی نشست پر امیدوار ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے۔ آئین اجازت دیتا ہے کہ کوئی بھی آدمی آدمی بیک وقت دو یا اس سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑسکتا ہے۔ چاہے تو قومی اسمبلی کے تمام حلقوں سے کھڑا ہو جائے۔
آئین کا احترام سر آنکھوں پر کہ یہ شہریت کے بنیادی آداب میں سے ایک ہے لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ جب ایک شخص ایک وقت میں ایک ایوان میں صرف ایک نشست رکھ سکتا ہے تو پھر اسے ایک وقت میں ایک سے زیادہ ایوانوں اور ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں بطور امیدوار حصہ لینے کی اجازت کیوں ہے؟ کیا یہ وقت اور وسائل کا زیاں نہیں ہے؟
اس سارے عمل کا معاشی پہلو بھی غور طلب ہے۔ قانون کے مطابق ایک آدمی ایک ہی نشست اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اگر وہ ایک سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوتا ہے تو اسے ایک کے علاوہ باقی سیٹیں چھوڑنا ہوتی ہیں اور ان نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوتا ہے۔ پاکستان میں آج تک کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ اس صورت میں ضمنی انتخاب کے اخراجات غریب قوم کیوں برداشت کرے؟
ضمنی انتخابات مذاق نہیں ہوتے۔ ایک حلقے کے انتخاب پر کروڑوں روپے کا خرچ آتا ہے۔ بیلٹ پیپر چھپتے ہیں، انتخابی سازو سامان تیار کیا جاتا ہے، پولیس اور انتظامیہ کی ڈیوٹی لگتی ہے، مختلف محکموں سے عملہ لیاجاتا ہے۔ غرض اخراجات کا ایک پہاڑ کھڑا ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ معاشی بحران سے دوچار قوم کسی انوکھے لاڈلے کے لیے یہ اخراجات کیوں برداشت کرے؟
ضمنی انتخاب اگر کسی ناگزیر صورت میں ہو تو وہ ایک الگ معاملہ ہے، جیسے کوئی حادثہ ہو جائے، کسی رکن اسمبلی کا انتقال ہو جائے تو منطقی سی بات ہے کہ وہاں ضمنی الیکشن ہوگا۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی سیاسی ضرورت کی تکمیل کے لیے یا اپنی مقبولیت کا پرچم گاڑنے کے لیے ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑتا ہے تو اس صورت میں ضمنی انتخابات کے اخراجات قومی خزانے سے کیوں لیے جائیں؟ اسی شخص سے کیوں نہ کہا جائے کہ جناب والا! اس شوق کی ایک قیمت ہے، ضمنی انتخابات کا خرچ اب آپ نے اٹھانا ہے۔
ضمنی انتخاب کی ایک اور صورت بھی ہمارے سامنے ہے۔ یہاں کسی کی ڈگری جعلی ثابت ہوتی ہے یا اس کا بیان حلفی جھوٹا نکلتا ہے تو الیکشن کمیشن اسے ڈی سیٹ کر کے وہاں ضمنی الیکشن کروا دیتا ہے، لیکن اس سوال پر کوئی غور نہیں کرتا کہ جس شخص کی جعلی ڈگری یا جھوٹے حلف نامے کی وجہ سے پورے حلقے کو ایک بار پھر الیکشن کی مشق سے گزرنا پڑ رہا ہے، اس الیکشن کے اخراجات یا ان کا ایک حصہ تو کم از کم قومی خزانے سے لینے کی بجائے اس شخص سے یا اس کی جماعت سے وصول کیا جائے۔
بھارت میں اس نکتے پر قانون سازی ہو چکی ہے اور یہ عمل جاری ہے۔ نوے کی دہائی تک وہاں بھی لنگر خانہ کھلا تھا اور ہر ایک کو آزادی تھی کہ چاہے تو تین حلقوں سے کھڑا ہو جائے۔ یہ وہاں کا الیکشن کمیشن تھا جو اس معاملے کو سپریم کورٹ لے گیا اور یہ طے کروا لیا کہ ایک امیدوار زیادہ سے زیادہ دو حلقوں سے کھڑا ہو سکتا ہے۔
بھارتی الیکشن کمیشن نے اب وزارت قانون سے کہہ رکھ ہے کہ قانون میں مزید ترمیم کی جائے اور ایک آدمی کو صرف ایک حلقے تک محدود کر دیا جائے۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے یہ تجویز بھی دے رکھی ہے کہ اگر ایک امیدوار کو ایک سے زیادہ حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینی ہے تو پھر ان حلقوں کے انتخابی اخراجات اس امیدوار یا اس کی جماعت سے وصول کیے جائیں۔
ایسا ہی کوئی مطالبہ پاکستان کا الیکشن کمیشن کیوں نہیں کرتا؟ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ قائدین کرام کبھی پانچ حلقوں سے الیکشن لڑیں اور کبھی نو حلقوں سے اور پھر ان کی خالی کردہ نشستوں پر ضمنی انتخابات کا ایک سلسلہ ہی شروع ہو جائے اور اس کے اخراجات غریب قوم کی جیب کاٹ کر پورے کیے جائیں؟
تمام سیاسی جماعتوں کو دانش اجتماعی بروئے کار لاتے ہوئے اس نکتے پر غور کرنا چاہیے اور ضمنی انتخابات کے حوالے سے، جنم لیتے زمینی حقائق کی روشنی میں قانون سازی کرنی چاہیے۔ اگر انہیں اس میں تامل ہے تو پھر سماج کو یہ کام خود کرنا ہوگا۔
یہ بات بھی اب طے ہو جانی چاہیے کہ ایک آدمی کتنے حلقوں سے الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ سیاسی قیادت کو شاید ایک حلقے تک محدود کرنا بہت سے تکنیکی مسائل کا باعث بنے اس لیے قیادت کو دو یا تین حلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت دے کر باقی تمام امیدواران کو ایک حلقے تک محدود کر دینا چاہیے۔