سوشل میڈیا (اور اس کا الگوردم) پاکستان کو انتشار اور خانہ جنگی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ ہم اگر اس حقیقت کو سمجھ کر اپنے سوشل میڈیا کی جانب قدم نہیں بڑھاتے تو جان لیجیے کہ بہت جلد عرب سپرنگ جیسا خوش نما فتنہ آپ سے لپٹ چکا ہوگا۔
سوشل میڈیا اب محض آزادی رائے کا ایک پلیٹ فارم نہیں رہا۔ یہ ایک ہتھیار بن چکا ہے۔ اس ہتھیار کا نام بھلے آزادی رائے اور ابلاغ ہو لیکن ان خوب صورت اصطلاحات سے اس ہتھیار کی ہلاکت خیزی نہیں چھپائی جا سکتی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اب یہ ایک ہتھیار ہے اور انتہائی تباہ کن ہتھیار۔
اس کا کنٹرول جن کے پاس ہے وہ چاہیں تو کسی بھی معاشرے کی بنیادی قدروں کو روند دیں اور چاہیں تو ابلاغی جارحیت کے ایک سپانسرڈ پروگرام کے تحت ریاستوں کی سلامتی دائو پر لگا دیں۔ الگوردم کا یہ کھیل ابلاغ کی دنیا کا ہپناٹزم ہے جس کے ذریعے لوگوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو غیر محسوس طریقے سے سلب کرکے انہیں ایک ابلاغی کارندے کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے اور استعمال ہونے والے یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دور کے چی گویرے ہیں اور عمر مختار بھی۔ بساط کسی اور کی ہوتی ہے، کھیل کسی اور کا ہوتا ہے، کارندے اور کھلاڑی جھوم رہے ہوتے ہیں کہ وہی رستم ہیں۔
بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر آدمی اپنی بات کہہ رہا ہے، اب ابلاغ پر کسی کی اجارہ داری نہیں رہی۔ لیکن حقیقت اس خوش فہمی سے مختلف ہے۔ اجارہ داری اب بھی موجود ہے۔ طریق واردات بدل گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر کس بات کا گلا گھونٹنا ہے اور کس کو ٹرینڈ بنانا ہے، ہو سکتا ہے کہ جزوی طور پر اس کا فیصلہ سوشل میڈیا صارفین بھی کرتے ہوں گے لیکن بنیادی طور پر یہ فیصلہ سوشل میڈیا کا الگوردم کرتا ہے۔ جن کے ہاتھ میں الگوردم کی لگام ہے وہی فیصلہ کر رہے ہیں کہ دنیا کو کیا سوچنا ہے اور کیا نہیں سوچنا۔ چنانچہ یہ بات ہمارے سب کے تجربے کی ہے کہ کچھ چیزوں کا، کچھ افراد کا اور حتی کہ کچھ مظلوم ممالک کا صرف نام لکھنے سے بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ریچ کم کر دی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کی کل اوقات یہ ہے کہ جس فلسطین میں تیس ہزار انسان چیتھڑوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں اور جن کا مقدمہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے عین مطابق ہے اس فلسطین کا لوگوں نے نام تک لینا چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ اب فلسطین کو ف ل س ت ی ن لکھا جاتا ہے کہ کہیں کمیونٹی سٹینڈرڈز کی پامالی کے نام پر اکائونٹ کی ریچ کم نہ ہو جائے۔ سوشل میڈیاکی آزادی رائے کی کل حیثیت بس اتنی سی ہے۔ ہمارے شعور اور حساسیت کی کہانی بھی بس اتنی سی ہے۔
یعنی جن لوگوں کے ہاتھ میں سوشل میڈیا ہے وہی طے کر رہے ہیں کہ دوسروں کو کیا لکھنے کی اجازت ہے۔ وہی یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ دوسروں کو کیا سوچنا چاہیے۔ سوشل میڈیا صارفین نے خوشی سے اپنی فکری اور شعوری آزادی رائے ریٹنگ کی اس دوڑ میں قربان کر دی ہے۔ وہ تیس ہزار انسانوں کا قتل عام تو برداشت کر سکتے ہیں، لیکن وہ اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ کی ریچ کم ہونا گوارا نہیں کر سکتے۔ تھوڑے سی واہ واہ، تھوڑے سے لائکس، بس اس قیمت پر اہل فکرنے اپنی فکر کو سوشل میڈیا الگوردم کے حضور قربان کر دیا۔ معصوم بچوں پرگزری قیامت کی اب پرواہ نہیں، آزادی رائے کو اب صرف اپنا اکائونٹ بچانا ہے۔ یہی مطلوب ہے اور یہی مقصود۔ اب صرف وہی لکھا جائے گا جس کی سوشل میڈیا کے پس پردہ بیٹھے کردار اجازت دیں گے۔
سوشل میڈیا کے اس بندوبست میں، اگر صارفین کی حیثیت یہ ہے تو آپ کا کیا خیال ہے یہ جو ٹرینڈزبنتے ہیں، یہ ایسے ہی بن جاتے ہوں گے۔ سوشل میڈیا پر یہ جو بعض موضوعات پر مبنی پوسٹس سپانسرڈ ہو کر بار بار آپ کے سامنے جلوہ افروز ہو جاتی ہیں، کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یہ توریاست دشمن بیانیہ سامنے آتا ہے اور اس کو لاکھوں لوگ چند منٹوں میں لائک کر لیتے ہیں، کیا یہ بھی صرف حسن اتفاق ہے؟ پاکستان سے جڑی ہر نسبت کے خلاف جو طوفان بد تمیزی کھڑا ہو جاتا ہے کیا یہ محض اتفاق ہے؟
کوئی تو ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ کس ملک میں کون سا بیانیہ رائج کرنا ہے۔ یہ کون ہے؟ گوگل، فیس بک، ٹوئٹر اس سب کے فیصلہ سازوں میں کون کون بیٹھا ہے؟ ان میں کتنے بھارتی ہیں؟ یہ کمیونٹی سٹینڈرڈز کس نے طے کیے؟ یہ کن کے سٹینڈرڈز ہیں جنہیں دنیا بھر پر مسلط کیا جا رہا ہے؟ آزادی رائے کے نام پر دنیا بھر میں ممالک کو ٹارگٹ کرکے ان میں تخریب، انتشار اور فساد اور فتنہ پھیلانے کی تو عام اجازت ہے بلکہ اس کی سرپرستی بھی کی جاتی ہے لیکن جب ان فتنہ سازوں کے اپنے ممدوح ممالک کے ہاتھوں بین الاقوامی قوانین پامال ہوتے ہیں اور انسانوں پر قیامت بیت جاتی ہے تو اس پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ سوال وہی ہے کہ یہ آزادی رائے ہے یا ایک ہتھیار ہے اور جس ملک میں انتشار پھیلانا مقصود ہو وہاں ایک خاص قسم کے بیانیے کو پھیلاناشروع کر دیا جاتا ہے۔
ہم جیسے ممالک میں عشروں کی گھٹن رہی ہے۔ یعنی ہمارے جیسے معاشرے اس ابلاغی جارحیت کے لیے سازگار ہوتے ہیں۔ یہاں آزادی رائے کو ویسے ہی پسند نہیں کیا جاتا اور خوشامدیوں کے خلعت اور مناصب دیے جاتے ہیں۔ گھٹن زدہ معاشرے میں جب بظاہر بات کہنے کی آزادی ملتی ہے تو اس فتنہ گری میں بھی ایک چاشنی محسوس ہوتی ہے کہ اس ذریعے سے جنم جنم کے گونگوں کو زبان تو ملی لیکن یہ معاملہ اتنا آسان نہیں۔
البتہ سوشل میڈیا کو بند کر دینا بھی مسئلے کا حل نہیں۔ اس سے حکومتیں جائز تنقید کا بھی گلہ گھونٹ دیں گی۔ کیونکہ حکومتوں کا ٹریک ریکارڈ بھی ہمارے سامنے ہے ا ور خوش فہمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہمیں توازن کی ضرورت ہے۔ معاشرہ خوف سے گونگا ہو جائے، یہ بھی ایک عذاب ہوتا ہے اور معاشرے میں آزادی رائے ہر چیز پامال کرنا شروع کر دے تو یہ بھی ایک عذاب ہوتاہے۔ ان دو انتہائوں کے بیچ میں اعتدال کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے سوشل میڈیا کی ضرورت ہے جو حکومت وقت کا پی ٹی وی بھی نہ ہو اور وہ کسی الگوردم کے ذریعے پاکستان میں فساد اور انتشار بھی نہ پھیلائے۔ سوشل میڈیا کی افادیت اور اس کے نقصان کے درمیان ایک معتدل تقابل کے بعد کوئی راستہ نکالنا ضروری ہو چکاہے۔
یہ کام کیسے ہوگا، میرے پاس سر دست اس کا کوئی جواب نہیں۔ یہ اس شعبے کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سوشل میڈیا اور اس کا الگوردم پاکستان کو انتشار اور خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ یہ مرض کی تشخیص ہے۔ علاج کا مرحلہ تشخیص کے بعد آتا ہے۔