کچھ سید علی گیلانی جیسے ہیں، جن کے سر پر قضا کھیل چکی ہے اور کچھ یسین ملک کی طرح ہیں جو اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ قدم مگران میں سے کسی کے، کبھی بھی نہیں ڈگمگائے۔
فَمِنْہُم مَّنْ قَضٰی نَحْبَہ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِر وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیلاً۔
ہر آدمی افتاد طبع کا اسیر ہوتا ہے۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں حسن اور علم سے بہت جلد متاثر ہو جاتا ہوں۔ عزیمت تو مگر مجھے مبہوت ہی کر دیتی ہے۔ فراغت ہو تو میں پہروں ایسے کرداروں کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں جنہیں تاریخ نے صاحب عزیمت قرار دیا۔ وہ سکاٹ لینڈ کا ولیم ویلس ہو یا داغستان کا امام شامل، وہ بن غازی کا عمر مختار ہو، میسور کا ٹیپو سلطان ہو، ویزو کا نیلسن منڈیلا ہو یاگور گنج کا جلال الدین مجھے یہ ایک ہی مالا کے موتی لگتے ہیں، ایک ہی داستان کے کردار، پڑھتا ہوں تو لفظوں سے خوش بو آتی ہے۔
سید علی گیلانی بھی ایسا ہی ایک کردار تھے۔ سراپا عزیمت۔ سادات میں سے تھے اور اس نسبت کا حق ادا کرکے رخصت ہوئے۔ کربلا تو سادات کے راستے کی ابتداء تھی، عزیمت کا یہ سفر اب بھی جاری ہے۔ اس راہ پر کبھی امام حسینؓ کا سر رکھا ہوتا ہے، کبھی امام نفس ذکیہؒ کا، کبھی امام باقرؒ زنداں میں ڈالے جاتے ہیں، کبھی امام موسی کاظمؒ۔ سری نگر میں ایک مٹی کے ڈھیر میں دفن یہ لاشہ ہمارے عہد کے سید کا لاشہ ہے۔ یہ سید علی گیلانی کا لاشہ ہے۔
یہ جبر، یہ لاشے، یہ صعوبتیں یہ تعزیر، سادات کے گھرانے کے لیے کچھ بھی نیا نہیں۔ سید علی گیلانی اللہ کے حضور حاضر ہوئے تو اب ہمیشہ کی طرح اہل خانہ کا امتحان تھا۔ انہیں علی گیلانی کی و صیت پر عمل کرنا تھا۔ انہیں سید علی گیلانی کے جسد خاکی کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کرنا تھا۔ یہ آسان کام نہ تھا۔ باہر پہرے تھے، بھارتی فوج تھی، وحشت اور بربریت تھی۔ لیکن ہمیشہ کی طرح اہل خانہ بھی سرخرو ہوئے۔ میت کو غسل دے دیا گیا تو اہل خانہ نے سید کے سینے پر پاکستان کا قومی پرچم رکھ دیا۔ پہاڑ جیسا شخص جو مرض الموت میں اللہ، رسول اللہ ﷺ کے بعد پاک سر زمین کا ورد کرتا ہو، اس کے سینے پر سبز ہلالی پرچم ہی سجتا تھا۔ کیا عجب اس پرچم نے بھی بوسہ لے کر سرگوشی کی ہو: تم پاکستانی تھے، پاکستان تمہارا ہے۔
بھارتی فوج دندناتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی، پرچم چھین لیا، جسد خاکی کی بے حرمتی کی اور سنگینوں کے سائے میں لے جا کر دفنا دیا۔ سوگواران کو تو کیا، اہل خانہ تک کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دی۔ پچھلے سال سید علی گیلانی کی برسی پر جناب افتخار گیلانی نے یہ احوال سنایا تودل لہوگیا۔ یہ اذیت ناک تفصیل بیان کرنے کی ہمت نہیں پڑ رہی۔ ساتھ یہ خیال بھی دیوارددل سے آن لگا ہے کہ اس گھرانے میں صرف سر کٹانے ہی کی رسم تھوڑی ہے، یہاں تو لاشوں پر گھوڑے بھی دوڑائے جاتے ہیں۔ افتخار عارف نے کہا تھا:
وہی پیاس ہے، وہی دشت ہے، وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے
جب پیاس، دشت اور گھرانا وہی ہے تو مقتل کو جانے والے کی دھج میں کیسے کوئی فرق آ سکتا تھا۔
ایک دور تھا سید علی گیلانی نے اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا تھا۔ لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے اور اپنا مطالبہ ایوانوں تک لے جانے کے لیے وہ اسمبلی کا حصہ بنے۔ افتخار گیلانی کی روایت ہے کہ ان کے خیال میں عسکریت تحریک کا ایک حصہ ضرور تھی لیکن حتمی حل سیاست ہی کے ذریعے نکلنا تھا۔ ایک روز ایوا ن میں کسی نے طعنہ دیا آپ تو بھارت سے الحاق کو مانتے نہیں تو ایوان میں کیوں بیٹھے ہیں؟ عبداللہ گیلانی بتاتے ہیں کہ سید صاحب نے مسکرا کر کہا: ہم چار لوگ ہیں، بھارت کی جمہوریت کے جنازے کو اٹھانے کے لیے چار لوگوں کی ہی ضرورت تھی۔
یہ فقرہ بہت مشہور ہوا۔ بہت بعد میں سید صاحب کی ایک ویڈیو آئی جس میں انہیں کہیں بند کرکے باہر سے تالا لگا دیا گیا اور وہ اندر سے بھارتی اہلکاروں سے کہہ رہے ہیں : ـ
"دروازہ تو کھولو، بھارت کی جمہوریت کا جنازہ جا رہا ہے"۔
جس طرح زیر لب مسکرا کر سید علی گیلانی یہ فقرہ ادا کرتے ہیں، اس کا لطف وہی لے سکتے ہیں جنہیں اس فقرے کا سیاق و سباق معلوم ہو۔
بھارت نے سید علی گیلانی کا جنازہ اٹھنے دیا نہ نماز جنازہ ہونے دی۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت قابض قوت پر جو پابندیاں عائد ہوتی ہیں بھارت نے سب کو پامال کر دیا۔ اہل خانہ کو بھی شریک نہ ہونے دیا۔ دعوی کیا گیا کہ ہم نے جنازے کے بعد تدفین کی ہے لیکن اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کوئی تصویر نماز جنازہ کی بھارت نے جاری نہیں کی۔ بھارت کی جمہوریت کا جنازہ اٹھتے سب نے دیکھا۔ یہ حیدر پورہ کا سید ہو یا سرنگا پٹم کا، فسطائیت ان کے لاشوں سے بھی ڈرتی ہے۔
اس قافلے کے راہی مگر قبروں اور جنازوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ قبر تو جلال الدین خوارزم خواہ کی بھی کسی کو معلوم نہیں، وہ مگر آج بھی مینگو باردی ہے۔ مورخ جب جب اس کا نام لکھتا ہے ساتھ لکھتا ہے: مینگو باردی۔ جسے کبھی موت نہ آئے۔
علی گیلانی کی قبر پر آج پہرا ہے، کوئی جا نہیں سکتا، لیکن ان کی قبر تو ہر سوگوار کے دل میں ہے۔ یہ قبر تو دعائوں کے حصار میں ہے۔ اس حصار کے سامنے جبر کے اس پہرے کی حیثیت ہی کیا ہے کہ وقت کو تو دوام نہیں۔ وقت نے تو بدلنا ہے۔ آج، نہیں تو کل۔ جب وقت کا موسم بدلے گا تو علی گیلانی کی قبر پر صبح دم پھول کھلیں گے، دن میں تتلیاں اڑیں گی، شام جگنو اتریں گے۔ تاریخ سر جھکائے حاضر ہوگی کہ یہ اس شخص کی قبر ہے جس کے وجود میں عزیمت مجسم تھی۔
وقت نے بڑی بڑی رعونتیں مٹا ڈالیں۔ یہ تو دن ہیں جنہیں اللہ لوگوں کے درمیان پھیرتا رہتا ہے۔ یہ دن پھریں گے اور علی گیلانی کی قبر پر سبز ہلالی پرچم لہرائے گا۔ آج لہرائے گا، نہیں تو کل لہرائے گا۔ یہ تاریخ کا قرض ہے۔ تاریخ زیادہ عرصہ مقروض نہیں رہتی۔ ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا جو سید کی قبر پر جا کر انہیں بتائے گا کہ آپ کی قوم آزاد ہو چکی ہے۔
علی گیلانی عزیمت کے مسافر تھے اور عزیمت کے راہی تاجر نہیں ہوتے کہ ہر دم حساب سودو زیاں رکھیں۔ وہ اس سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ ان کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ لمحہ موجود میں نہیں ہوتا۔ یہ فیصلہ تاریخ کرتی ہے۔ حق خود ارادیت کشمیر کا حق تھا، ہے اور رہے گا۔ علی گیلانی اسی حق کی تذکیر کا نام ہے۔ وہ عمر فاروقؓ کے اس پیغام کا استعارہ تھے کہ لوگو تمہیں تمہاری مائوں نے آزاد پیدا کیا ہے۔