سید علی گیلانی کے انتقال کی خبر ملی تو میں جھیل کے کنارے بیٹھا تھا اور پو پھٹ رہی تھی۔ یوں لگا جیسے جھیل سمٹ کر آنکھوں میں آ گئی ہو۔ ٹیلوں پر کھڑے ہو کر رونے والاامرو القیس یاد آگیا جسے ایک شتر بان نے صبر کا مشورہ دیا تو اس نے کہا آج کے دن میری شفاء آنسوئوں میں رکھی ہے اور تو صبر کا کہتا ہے۔
یک فرد کی موت نہیں ہے، یہ ایک عہد تھا جو تمام ہوا۔ سابق وزیر خارجہ عبد الستار کہا کرتے تھے کہ یہ تو ہو سکتا ہے کبھی میں اپنی پاکستانیت پر بھی شک کرنے لگوں لیکن یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ میں ایک لمحے کو بھی علی گیلانی کی پاکستانیت پر شک کرنے کا خیال بھی دل میں لائوں۔ عبد الستار وہ سفارت کار تھے جو دو مرتبہ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہے۔ سیکرٹری خارجہ بھی رہے اور وزیر خارجہ بھی۔ وہ اگر یہ گواہی دیتے تھے تو یہ محض حسن ظن میں لپٹامبالغہ نہیں تھا یہ ایک جہاندیدہ سفارت کار کا مشاہدہ تھا۔
ایک شام مجھے ایک ویڈیو کلپ موصول ہوا۔ علی گیلانی صاحب شدید علیل تھے، بار بار ان کا سانس اکھڑ رہا تھا۔ ایسے میں ان کی طبیعت ذرا سنبھلی تو ٹیک لگا کر انہیں بٹھایا گیا۔ تکلیف کے اس عالم میں ا ن کی زبان پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بعد پاک سر زمین کا نام تھا۔ اللہ، رب کعبہ، لا الہ الا اللہ، پاک سرزمین۔ میں نے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کر دی اور وہاں سے یہ وائرل ہو گئی۔
چند ماہ ایک اور ویڈیو موصول ہوئی اور کہا گیا کہ اسے بالکل شیئر نہیں کرنا یہ صرف آپ کے لیے ہے۔ میں نے پاکستان میں سید علی گیلانی کے نمائندہ خصوصی برادرم عبد اللہ گیلانی کو فون کر کے پوچھا کہ اس ویڈیو میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اسے شیئر نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا ویڈیو میں تو ایسا کچھ نہیں لیکن آپ اسے اپنے تک رکھیے گا کیوں کہ آپ نے چند ماہ پہلے جو ویڈیو شیئر کر دی تھی اس کی وجہ سے سری نگر میں ہمارے دو نوجوان گرفتار کر لیے گئے تھے۔ کیونکہ سید علی گیلانی صاحب نظر بند ہیں اور ان سے ملاقات کی پابندیاں ہیں۔ جو چند لوگ اندر جا سکتے ہیں ان پر بھی سختی ہے۔ موبائل فون لے جانا منع ہے۔ گیلانی صاحب کا بیرونی دنیا سے ہرقسم کا رابطہ کاٹ دیا گیا ہے۔ ویڈیو شیئر ہوئی تو انہوں نے ہمارے دو نوجوان گرفتار کر لیے کہ آپ اندر فون لے جاتے ہیں اور گیلانی صاحب کی ویڈیوز اور پیغامات پاکستان بھیجتے ہیں۔ ان سے تفتیش ہوتی رہی اور وہ چند ماہ قید کاٹ کر اب رہا ہوئے ہیں۔
یہ سن کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں نے کہا آپ نے بتایا ہی نہیں کہ میری بے احتیاطی سے ایسا ہوا۔ کہنے لگے نہیں وہ تو پھر آپ سے شکوہ ہو جاتا۔ ہم آپ سے شکوہ تو نہیں کر سکتے تھے۔ اب کی بار بروقت بتا رہے ہیں کہ ویڈیوز شیئر نہ کیجیے گا۔
یہ بے ضرر سی خوبصورت سی ویڈیوز ہوتی تھیں۔ ایک ویڈیو میں ان کا ننھا پڑپوتا آکر ان کا ہاہتھ چومتا ہے جیسے ارطغرل ڈرامے میں قائی الپ اپنے سردار کا ہاتھ چومتے ہیں۔ ایک ویڈیو میں بچہ قائی سپاہیوں کی طرح سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کرتا ہے۔ گیلانی صاحب نے شاید ارطغرل نہیں دیکھا ہوا تھا اس لیے وہ اس ننھے الپ کے سلام کا جواب قائی انداز سے نہیں دیتے۔ بچہ جا کر اپنے پڑدادا کو سمجھاتا ہے کہ وہ بھی جواب میں ایسا ہی کریں۔ معصومیت میں بھیگی کیا ہی شاندار ویڈیوزہوتی تھیں۔ میں ایسی ویڈیوز دیکھتا اور اسی وقت ڈیلیٹ کر دیتا کہ کہیں کوئی بے احتیاطی نہ ہو جائے۔ بعد میں البتہ سید صاحب کی چند ویڈیوز باقاعدہ ان کے ٹویٹر سے شیئر کی گئیں۔
" کشمیر: انٹر نیشنل لاء کیا کہتا ہے" کے عنوان سے، روزنامہ 92 نیوز میں کشمیر پر لکھے گئے کالموں کا مجموعہ شائع کرنے لگا تو بالکل آخری مرحلے میں خیال آیا کہ اس پر اگر علی گیلانی صاحب دیباچہ لکھ دیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ سید صاحب سے رابطہ بھی آسان نہ تھا اور وہ علیل بھی بہت تھے۔ ان کی عمر 91 سال ہو چکی تھی۔ بالکل امید نہیں تھی کہ وہ کچھ لکھ پائیں گے لیکن حیران کن طور انہوں نے شفقت فرمائی اور دیباچہ لکھ کر بھجوا دیا۔ یہ دیباچہ سید صاحب کا آخری محبت نامہ تھا جس کی خوشبو میرے ساتھ رہے گی۔
علی گیلانی صاحب کی وصیت تھی انہیں سری نگر شہداء کے قبرستان میں دفن کیا جائے لیکن بھارتی فوج رات ہی گھر میں گھس گئی، وادی میں کرفیو لگا دیا گیا، اور سنگینوں کے پہرے میں حیدر پورہ کے قبرستان میں تد فین کرا دی گئی۔ خلق خدا کو جنازے میں بھی شریک نہیں ہونے دیا گیا۔ لیکن اس سے کیا ہوتا ہے۔ جلال الدین خوارزم شاہ کی تو قبر کا بھی کسی کو علم نہیں، کہاں ہے لیکن دنیا اسے مینگو باردی کے نام سے جانتی ہے۔ مینگو باردی یعنی ہمیشہ زندہ رہنے والا۔ علی گیلانی بھی ایک مینگو باردی تھا۔ مینگو باردیوں کو قبر ملے یا نہ ملے اور ان کے جنازوں میں کسی کو آنے دیا جائے یا نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ تاریخ کے ٹیلوں پر زندہ رہتے ہیں۔
سبز ہلالی پرچم میں لپٹا سید علی گیلانی کا جسد خاکی دیکھا تو ان کا والہانہ پن یاد آ گیا: ہم سب پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے"۔ روایت یہ ہے کہ پرچم انہوں نے اسی دن کے لیے سنبھال رکھا تھا اور اہل خانہ کو بتا رکھا تھا مجھے سبز ہلالی پر چم میں لپیٹ کر دفن کرنا۔ سارا پاکستان اس شخص کی محبتوں کا مقروض ہے۔ یہ سب سے بڑے پاکستانی کا لاشہ ہے۔
سید کا جنازہ ان کے گھر میں رکھا تھا، بھارتی فوج اسے چھین کر لے گئی اور اہل خانہ روتے رہ گئے۔ سوچ رہا ہوں، کربلا سے حیدر پورہ تک کہانی تو ایک جیسی ہے۔ وہی ظلم، وہی استقامت، اور خیموں میں اترا وہی درد اور دکھ۔ افتخار عارف نے کہا تھا:
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے