ہم دیکتے ہی رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکابازی لے گیا۔ اقبالؒ سے منسوب یہ فقرہ جب پہلی بار پڑھا تو سوچا کہ یہ بازی لے جانے کے لیے قدرت ترکھانوں کے لڑکوں ہی کا انتخاب کیوں کرتی ہے۔ اشرافیہ اور اس کے لڑکے بازی لے جانے کے لیے میدان عمل میں کیوں نہیں آتے؟ مسیحی مسلم یگانگت کے باب میں آج برادر مکرم سبوخ سید کچھ یوں بروئے کار آئے ہیں کہ دیوار دل پر ایک بار پھر اقبالؒ نے دستک دی ہے ا ور ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو کہ لو دیکھ لو، اس دفعہ سیدوں کا لڑکا بازی لے گیا۔
فیس بک ہی سے خبر ملی کہ ایبٹ آباد میں ایک مدرسے کے بچوں نے کرسمس یعنی یوم ولادت سیدنا مسیحؑ کے موقع پر مسیحی برادری کے بچوں کو اپنے ہاں مدرسے میں مدعو کیا اور ان کی ضیافت کا اہتمام کیا۔ خبر پڑھی تو من شانت ہوگیا اور ننھے میزبانوں اور مہمانوں کی تصاویر دیکھیں تو روح تک سرشار ہوگئی۔ یہ تصاویر نہیں یہ وہ قرض تھا جو عشروں بعد ادا ہوا۔ اس کا شکریہ لازم ہے۔
یہ قریب بیس سال پہلے کی بات ہے، تب میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ غالبا عراق پر حملہ ہوا تھا، اب کچھ ٹھیک سے یاد نہیں۔ اس حملے کے خلاف احتجاج کے طور پر مسیحی رہنما جناب جے سالک نے خود کو ایک پنجرے میں قید کر لیا اور پنجرے کو باہر سے تالا لگا کر تالے کو سیل کر دیا۔ یہ سیل کرنے کا اضافی اہتمام شاید اس لیے تھا کہ کوئی یہ بد گمانی نہ پال لے کہ رات کو جے سالک اس پنجرے سے نکل آتے ہیں اور رات بستر میں گزار کر صبح پھر سے اس پنجرے میں خود کو قید کر لیتے ہیں۔
یہ رمضان المبارک کے دن تھے۔ جے سالک نے اسلام آباد کے کچھ صحافیوں اور اہل دانش کو اپنے ہاں افطار پر مدعو کیا۔ اہل علم و دانش کی اس محفل میں ایک طالب علم کے طور پر مجھے بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ مہمان مسلمان تھے اور عزت واحترام سے انہیں بٹھایا گیا۔ میزبان اپنے پنجرے میں قید تھا۔ اس کی ہدایات کے مطابق ننھے ننھے مسیحی بچے آداب میزبانی ادا کر رہے تھے۔ یہ بچے افطار کا سامان لے آتے اور مہمانوں کے سامنے رکھتے جاتے۔
یہ سارا منظر نامہ میرے لیے کسی حیرت کدے سے کم نہیں تھا۔ لیکن اس وقت تو میں ششدر رہ گیا جب میں نے دیکھاکہ یہ مسیحی ننھے میزبان مسلمان مہمانوں کے سامنے جب کھانے کی اشیاء رکھتے ہیں تو ساتھ کہتے ہیں: بسم اللہ۔ یہ لیجیے، بسم اللہ۔ یہ بھی پکڑیے بسم اللہ۔ جے سالک تو پنجرے میں قید تھے، انہی ننھے میزبانوں نے مہمانوں کو خوش آمدید بھی کہا اور السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کرتے ہوئے خوش آمدید کہا تھا۔ محفل میں جناب خورشید ندیم اور نذیر ناجی صاحب بھی موجود تھے، میں نے عرض کی کیا کبھی یہ منظر ہم دیکھ پائیں گے کہ جیسے جے سالک اور ان مسیحی بچوں نے ہمیں افطار کرایا ایسے ہی ہم مسلمان کسی کرسمس پر ان مسیحی بچوں کو اپنا مہمان بنائیں؟ گرم جوش تائید ہوئی اورپھر بات پیچھے رہ گئی، ہم سب آگے نکل گئے۔
یہ واقعہ اور یہ افطار میرے ذہن سے کبھی محو نہ ہو سکا۔ میں نے کتنی ہی جید مذہبی شخصیات کو یہ واقعہ سنایا کہ کاش کبھی ہمارے نمائندہ اہل مذہب آگے بڑھیں اور ہمارے ہاں بھی یہ روایت قائم کریں کہ مسیحی بھائیوں کی خوشیوں میں ان کی میزبانی کی جائے۔ اب تو سچ بات ہے کہ میں بھی آگے بڑھ گیا تھا اور یہ واقعہ پیچھے رہ گیا تھا۔ قریبا بھول ہی گیا تھا کہ کبھی ایسا کچھ ہوا تھا۔
سبوخ سید صاحب کو خدا اجر عطا فرمائے انہوں نے نہ صرف یہ واقعہ یاد دلادیا بلکہ وہ قرض بھی اتار دیا جو دو عشروں سے واجب تھا۔ معلوم ہوا جناب خورشید ندیم اور جناب سبوخ سیداس ہم آہنگی پر کام کر رہے تھے اور ادارہ برائے علم و تحقیق ایسے کئی پراجیکٹس پر کام کر رہا ہے۔ میں ہر دو صاحبان کا مشکور ہوں کہ انہوں نے وہ کام کیا، جسے صحیح معنوں میں دلاوری کہا جاتا ہے۔
کاش یہ رسم اب آگے بڑھے اور یہ معاشرہ جاگتی آنکھوں سے دیکھ لے کہ جب ہم دین کو خیر کہتے ہیں تو اس کامعنی کیا ہوتا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ دین سلامتی اور خیر ہے، یہ ہمارا نقص فہم ہوتا ہے جو ہمیں بسا اوقات کہیں اور لے جاتا ہے۔ ورنہ اسلام نے تو جنگ جیسی چیز کو بھی چند اصولوں کے تابع بنا کر اس کو بھی خیر کا عنوان بنا دیا ہے۔ اسلام اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ جنگ میں کچھ اصول اور ضابطے ہوں گے۔ جنگوں کے جدید قوانین بہت بعد کی بات ہے، یہ خدا کے جلیل القدر پیغمبر تھے جنہوں نے سب سے پہلے لوگوں کو یہ سمجھایا کہ جنگ بھی ہوگی تو اصولوں کی پاسداری کے تحت ہوگی اور ایسا ہر گز نہیں ہوگا کہ جنگ میں سب جائز ہو جائے۔
میں اس تقریب میں شامل نہیں تھا۔ یہ احساس میرے ساتھ رہے گا کہ کاش میں وہاں ہوتا۔ میں دیکھتا کہ جب ننھے مسیحی مہمانوں کو ننھے مسلمان میزبان خوش آمدید کہہ رہے ہیں تو مہمانوں کی آنکھوں میں کیسی حیرت اور کیسی سرشاری تھی۔ میں یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ میزبانوں کی وارفتی کا عالم کیا تھا۔
لیکن میں چشم تصور سے یہ سب دیکھ سکتا ہوں اور نہ صرف دیکھ سکتا ہوں بلکہ محسوس بھی کر سکتا ہوں۔ یہ غالبا پہلی دفعہ ہوا ہے کہ مسلمان بچوں نے کرسمس کے موقع پر مسیحی بچوں کو مدعو کیا اور گلے لگا کر ان کی خوشیوں کو دوبالا کر دیا۔
عامر ہزاروی صاحب کا نام بھی اس تقریب کے منتظمین کے طور پر سامنے آیا تو خوشی اور مسرت کو نئے معنی مل گئے۔ ان سے میری کوئی ملاقات نہیں لیکن سوشل میڈیا پر میں نے ایسے موضوعات پر کام کرتے پایا کہ حیرت اور خوشی کے جذبات نے آن لیا۔ خواجہ سرائوں کے لیے عید قربان پر گوشت جمع کرنا، ان تک پہنچانا، ان کے مسائل پر اہل علم و فکر کو متحرک کرنا، یہ معمولی کام نہیں۔ سیاست و ستائش کی دنیا سے دور رہ کر ان حقیقی مسائل پر بات کرنا بہت کٹھن ہے۔ یہ کسی مجاہدے سے کم نہیں۔ مگر اس میں کیا کلام ہے کہ کرنے کا کام یہی ہے۔
اس تقریب کے حوالے سے جن صاحبان کو میں جانتا تھا ان کا شکریہ میں نے نام لے کر ادا کر دیا۔ جنہیں میں نہیں جانتا، وہ اس تحریر کو میری جانب سے ایک ادنی سا شکریہ سمجھیں۔ مسلمان میزبانوں کے ساتھ ساتھ مسیحی مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا بھی لازم ہے کہ وہ تشریف لائے اور میزبانوں کو عزت بخشی۔
یہ محض ایک تقریب نہیں تھی۔ یہ امن و یگانگت کے ایک نئے عہد کا آغاز تھا۔ یہ معاشرہ کبھی حقیقی معنوں میں محبت و یگانگت کااستعارہ بن گیا تو اس تقریب کا شمار اس کے اولین نقوش میں ہوگا۔