پاکستان میں ٹی ٹوئنٹی جاری ہے، کھیل کے میدان میں بھی اور سیاست کے میدان میں بھی۔ ادھر بھارت مقبوضہ کشمیر میں جی ٹوئنٹی میں مصروف ہے۔ اب یہ افتاد طبع کی بات ہے ہم اپنے ملک کے ٹی ٹوئنٹی سے ہی لطف اندوز ہوتے ہیں یا مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی جی ٹوئنٹی بھی ہماری توجہ کی مستحق ٹھہرتی ہے۔
ٹی ٹوئنٹی ہر طرف زیر بحث ہے مگر جی ٹوئنٹی کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ ٹی ٹوئنٹی نے سماج اور اہل رائے سب کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے مگر جی ٹوئنٹی کی ہلاکت خیزی سے عمومی بے نیازی پائی جاتی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کے میدانوں میں ہر طرف شور مچا ہے اور اپنے اپنے کھلاڑیوں کے لیے تالیاں پیٹی جا رہی ہیں۔ اپنا کھلاڑی بلا گھما دے تو مداح پکار اٹھتے ہیں، ارے واہ صاحب کیا چھکا ماراہے اور دوسرا وکٹ اڑا دے تو دہائی دی جاتی ہے، ارے یہ تو نو بال ہے۔ لیکن جی ٹوئنٹی سے جڑے خطرات کی کسی کو پرواہ نہیں۔ سوچتا ہوں اب کیا ہمیں کوئی آئن سٹائن یا ابن خلدون چاہے جو آ کر سمجھائے کہ ہم ایک اندھی کھائی کی طرف لڑھکتے جا رہے ہیں؟
جی ٹوئنٹی کا یہ اجلاس مقبوضہ کشمیر میں منعقد کرنے کے مقاصد بہت واضح ہیں۔
پہلا مقصد یہ ہے کہ 2019 میں کیے گئے غیر قانونی اقدامات کی ایک طرح سے توثیق کرا لی جائے اور کشمیر کو بھارت کا حصہ تصور کرتے ہوئے وہاں بین الاقوامی کانفرنس منعقد کروا تے ہوئے اس تاثر کو مستحکم کیا جائے کہ دنیا کو بھارت کے اس غیر آئینی اقدام سے کوئی مسئلہ نہیں۔ اور دنیا اسے تسلیم کر چکی ہے۔
دوسرا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو بتایا جائے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں اور دیگر ریاستوں پر اس نے کشمیر کو ترجیح دی ہے۔
تیسرا مقصد یہ ہے کہ کشمیریوں کو دکھایا جائے کہ دنیا میں اب ان کے حق میں آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ سمجھتے ہوئے یہاں کانفرنس میں آ رہی ہے۔ یعنی دنیا بھارتی قبضے کو بالفعل تسلیم کر چکی ہے۔
اس کانفرنس کے بعد بھارت کے رویے میں مزید جارحیت یقینی ہے۔ تب تک اگر ہم اپنے سیاسی ٹی ٹوئنٹی سے فارغ ہو چکے ہوئے تو اس کا ہم مشاہدہ کر لیں گے۔ سوال اب یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا موقف کیا ہے؟ اس کانفرنس کا انعقاد راتوں رات تو نہیں ہوگیا۔ سال بھر پہلے ایسی کانفرنسوں کے لیے تیاریاں ہوتی ہیں۔ سال پہلے ہی طے ہو چکا تھا کہ اگلے سال اس کی میزبانی بھارت نے کرنی ہے۔ پھر پچھلے سال اکتوبر میں جب بھارت نے اپنی ریاستوں سے تجاویز مانگی تھیں کہ یہ کانفرنس کہاں منعقد کرائی جائے تو مقبوضہ کشمیر کو بھی اس میں شامل کیا۔ یعنی اسی وقت یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ بھارت یہ کانفرنس کشمیر میں کرانا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سارے دورانیے میں ہم نے کیا کیا؟
ہمیں داخلی سیاست کے جھگڑوں سے فرصت ملے تو ہم قومی امور پر توجہ دیں۔ ہمارے گروہی تعصبات نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہم لابنگ بھی کرتے ہیں تو قومی امور کے لیے نہیں اپنے سیاسی مفادات کے لیے۔ اور ان ہی سیاسی مفادات کی خاطر ہم اپنے ہی ملک کے خلاف حقوق انسانی کی پامالی کا مقدمہ کھڑا کر دیتے ہیں اور غیر ملکی شخصیات سے اپنے ہی ملک کے خلاف بیانات دلوا کر اسے دلاوری سمجھتے ہیں۔ کشمیر اب نہ ہمارا موضوع ہے نہ ترجیح۔ ہم ایک دوسرے کو نوچ کھانے میں مصروف ہیں۔
جی ٹوئنٹی میں شامل باقی ممالک پر تو ہم شاید اس وقت اثر انداز نہ ہو سکیں لیکن کیا ہم چین، تر کی اور سعودی عرب سے بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت نہ کریں؟ ہم نے امریکہ کی جمہوری کانفرنس میں پچھلے سال بھی شرکت نہیں کی تھی اور اس سال بھی نہیں گئے۔ کیوں نہیں گئے؟
پاکستان کے امریکی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ٹویٹ کیا تھا کہ Pakistan is Iron brother۔۔ اب کیا آئرن برادر بھی ایسی ہی کوئی درخواست اپنے دیگر دوستوں سے کر سکتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت نہ کریں؟ یا پھر ہماری حالت اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ اب ہم اپنے دیرینہ دوستوں سے بھی بات منوانے کے قابل نہیں رہے۔ ہماری معاشی حالت ہمارے سامنے ہے۔ اس معیشت کے ساتھ امور خارجہ میں آپ رستم نہیں بن سکتے۔ اور معاشی استحکام اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک سیاسی استحکام نہ ہو۔ عالم یہ ہے کہ دور دور تک کہیں کوئی ایسی امید نظر نہیں آ رہی کہ ملک میں سیاسی استحکام آجائے۔
معاشی کمزوری اور سیاسی عدم استحکام کے ساتھ معاملات کو سٹریٹجائز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہماری بے نیازی مگر معاملات کو مزید تکلیف دہ بنا دیتی ہے۔ ہم نے ابلاغ کی دنیا میں بھی بھارت کو واک اوور دے رکھا ہے۔ ویسے تو ہمارے اوپر غیر ضروری انگریزی مسلط کر دی گئی ہے اور اسسٹنٹ کمشنر نان بائیوں کو روٹی کے ریٹ کا حکم نامہ بھی انگریزی زبان میں بھیجتے ہیں لیکن جہاں انگریزی میں ابلاغ کی ضرورت ہے وہاں ہمیں احساس ہی نہیں۔
ہمارے پاس انگریزی زبان کا صرف ایک چینل ہے جب کہ بھارت میں انگریزی کے درجن بھر چینلز کام کر رہے ہیں۔ ڈی ڈی انڈیا ہے، ٹائمز نائو ہے، انڈیا ٹوڈے ہے، مرر انڈیا ہے، انڈیا اہیڈ ہے، نیوز ایکس ہے، ری پبلک ٹی وی ہے۔ ہمارے پاس کیا ہے۔ ایک عدد پی ٹی وی ورلڈ جس کی کمر ہم نے سفارشی اور سیاسی بھرتیوں سے دہری کر رکھی ہے۔ ابلاغ کی بین الاقوامی دنیا میں ہمارا موقف کہاں ہے؟ بھارت کا موقف سر شام دنیا بھر کے سفارت خانوں میں سنا جاتا ہوگا، اس کے درجن بھر چینلز دنیا میں ابلاغی مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہم ایک پی ٹی وی ورلڈ لے کر بیٹھے ہیں۔ ہمیں خبر ہی نہیں کہ امور خارجہ اب صرف سفارت خانوں کا کام نہیں رہا، ابلاغ کی دنیا بھی فیصلہ کن اہمیت اختیار کر چکی ہے۔
اگر کسی کا خیال ہے کہ یہ معالہ صرف کشمیر تک محدود رہے گا تو اس خام خیالی کو دل سے نکال لیجیے۔ بھارت کی پیش قدمی جاری ہے۔ آج مقبوضہ کشمیر ہے کل آزاد کشمیر ہوگا۔ اس ضمن میں اس کے بیانات اور اس کی پالیسی بہت واضح ہے۔ اس پالیسی کا مقابلہ آنکھیں بند کرکے نہیں ہوگا۔
دنیا میں اگر کوئی دوست ہے تو اس سے بات کرنے کا یہی وقت ہے۔ بھارت کی اس جارحیت کے سامنے خاموش رہنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ اپنا گھر درست کیا جائے۔ سیاسی عدم استحکام کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اس نکتے پر بھی غور کرنا ہوگا کہ یہ سیاسی عدم استحکام ایک اتفاق ہے یا حسن اتفاق۔ یہ گردش دوراں ہے یا حکمت عملی ہے جو انتشار کی شکل میں ظہور کر رہی ہے۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ ہم جی ٹوئنٹی کے آتش فشاں پر بیٹھ کر ٹی ٹوئنٹی کے مزے لے رہے ہیں۔