Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Taliban Ke Pakistani Muashray Par Kya Asrat Muratab Ho Sakte Hain?

Taliban Ke Pakistani Muashray Par Kya Asrat Muratab Ho Sakte Hain?

طالبان کی فتوحات سے خطے کی بدلتی صورت حال پر تو ہر کوئی تبصرہ کر رہا ہے لیکن کیا کسی کو احساس ہے کہ طالبان کے پاکستانی معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ آئیے ایک امکانی منظر نامہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ مینار پاکستان لاہور پرایک خاتون کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ مجھے واٹس ایپ پر تین پیغامات موصول ہوئے ہیں، آپ بھی پڑ لیجیے۔

پہلا پیغام یہ تھا کہ کیا آپ دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں اس واقعے کے ملزمان کو قرار واقعی سزاملے گی اور اسلام آباد کیس کے ملزمان کی طرح یہاں بھی ضمانتیں نہیں ہو جائیں گی یا خدیجہ صدیقی پر حملہ آور کی طرح مجرم کو نیک چلنی کی وجہ سے جلد رہا نہیں کر دیا جائے گا یا سالوں مقدمہ طول نہیں پکڑے گا یہاں تک کہ یہ جرم ہی سماج کے حافظے سے محو ہو جائے؟۔۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

دوسرا پیغام یہ ملا کہ اگر ایسا ہی جرم کابل میں ہوا ہوتا جہاں طالبان کو حکومت سنبھالے صرف دو دن ہوئے ہیں تو وہاں بھی طالبان حکام اس کی مذمت میں ٹویٹ فرما کر سرخرو ہو جاتے، وہاں بھی ہماری طرح سالوں مقدمہ چلتا، وہاں بھی ایسے مجرمان ضمانتوں پر رہا ہوتے اورکیا وہاں بھی وزیر جیل خانہ جات قوم کی رہنمائی فرماتے کہ مجرم کو نیک چلنی کی وجہ سے جلد رہا کر دیا گیا ہے؟۔۔ میرے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں تھا۔

تیسرا سوال عمومی سا تھا۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ اگر کابل میں سڑک کنارے کسی گاڑی میں معصوم بچوں کے سامنے ان کی ماں اور باپ کو گولیوں سے بھون دیا جاتا اور ایسا کرنے والے طالبان اہلکار ہوتے اور ملک بھر میں شور مچ جاتا تو طالبان قیادت کا رد عمل کیا ہوتا۔ کیا ان کے امیر المومنین کابل ائیر پورٹ پر کھڑے ہو کر قوم سے یہ کہتے کہ میں ذرا قطر اپنے رابطہ آفس سے ہو آوں واپسی پر پولیس کے نظام میں اصلاح کروں گا یا ان کے قطر روانہ ہونے سے پہلے ہی مجرمان کے ساتھ حساب باک کر دیا گیا ہوتا؟۔۔ افسوس میرے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں تھا۔

یہ تین سوالات بتا رہے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ کابل طالبان کے نظام انصاف کا اپنے نظام کے ساتھ تقابل کر رہا ہے۔ یہ تقابل ایک فطری بات ہے۔ کبھی ہم یورپ سے تقابل کرتے ہیں، اب کابل سے تقابل ہونے لگا ہے۔ یہ کام پہلے بھی ہوتا تھا اور لوگ آج تک مثالیں دیتے تھے کہ طالبان کے نظام انصاف میں نہ مقدمہ سالوں چلتا ہے نہ فیصلہ محفوظ ہوتا ہے۔ چند دنوں یا ہفتوں میں مقدمہ فیصل ہو جاتا ہے تو ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا۔

یہ سوال صرف ان پڑھ اور غریب لوگوں کی زبان پر نہیں، مجھے یاد ہے یونیورسٹی میں ضابطہ فوجداری پڑھانے والے ہمارے استاد محترم بھی طالبان کے نظام انصاف کی مثالیں دیتے تھے۔ استاد محترم آج کل نظام انصاف میں انتہائی اہم منصب پر فائز ہیں۔ گویا یہ تقابل ایک فطری امر ہے اور اس کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے اس کے سماجی پس منظر سے نہیں۔

یہ تقابل آنے والے دنوں میں بڑھے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ ہم نے اپنے نظام انصاف میں کوئی معنوی تبدیلی کرنی ہے یا ہم نے اس ملک کو آج بھی ڈیڑھ سو سال پرانے غلامی کے وقتوں کے قانون سے چلانا ہے جس قانون کا بنیادی مقصد انصاف کی فراہمی کبھی تھا ہی نہیں اور جو صرف اس لیے لایا گیا تھا کہ رعایا میں 1857 جیسی بغاوت کی جرات نہ ہو سکے۔

حکومتی ڈھانچے پر ہی نہیں، اہل مذہب پر بھی سوال اٹھیں گے۔ طالبان کی فکر میں ارتقاء بہت واضح ہے۔ خواتین کے بارے میں ان کی رائے پہلے سے مختلف ہے۔ مخالفین سے ان کا سلوک پہلے سے مختلف ہے۔

عام آدمی سوچنے پر مجبور ہے کہ میدان جنگ میں کھڑے طالبان کی فکر میں ارتقاء آ سکتا ہے تو ہمارے اہل مذہب یہ بھاری پتھر کیوں نہیں اٹھا پا رہے جب کہ انہیں آسودہ ماحول میں علمی مشق کی سہولت بھی میسر ہے؟ طالبان کا فکری ارتقاء جیسے جیسے مزید شعبوں میں ظہور کرے گا، پاکستانی معاشرے میں اپنے اہل مذہب سے پوچھے گئے سوالات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ کیا وہ اس کے لیے تیار ہیں؟ مذہب کے بارے میں ایک عمومی معذرت خواہانہ رویہ بطور اصول اختیار کر لیا گیا تھا۔ یہ اصول اب پامال ہو چکا۔ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ پڑوس میں قرآن کی بات کر کے بھی حکومت کی جا سکتی ہے اور مولوی میں بھی یہ صلاحیت موجود ہے کہ اپنے طرز حکمرانی سے سب کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دے۔

طالبان نے مذہب کے بارے میں موجودTaboo توڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے پاکستانی معاشرے پر اثرات مرتب ہونا فطری امر ہے۔ یہ اثرات تعمیر کی طرف بھی لے جا سکتے ہیں اور تخریب کی طرف بھی۔ اس باب میں بھی اہل فکر و حلم کو توجہ فرمانا ہو گی۔ طالبان کی فتح کا ایک نفسیاتی اثر یہ بھی ہو گا کہ مغرب کی تہذیبی با لادستی کی فصیل میں دراڑ پڑے گی۔ ساری دنیا جس پریس کانفرنس کو سن رہی تھی، طالبان نے وہ کانفرنس انگریزی میں نہیں، پشتو میں کی۔ اب جسے سمجھنا ہے وہ مترجم تلاش کر لے۔ محض انگریزی بولنا معیار فضیلت نہیں ہے۔ پینٹ کوٹ پہننا بھی لازم نہیں کہ ہمارے اینکرز کی طرح جون جولائی میں بھی پینٹ کوٹ ٹائی لگا کر دانشوری فرمائی جائے۔ بلکہ اپنے تہذیبی پیرہن کے ساتھ بھی ٹاک شو ہو سکتا ہے اور خبرنامہ بھی۔

طالبان نے یہ نہیں کیا کہ احساس کمتری کا شکار ہو کر کسی انگریزی بولنے والے کو تلاش کرتے۔ انہیں اعتماد تھا ان کی پشتو گونگی نہیں۔ سوال یہ ہے کیا اعتماد کبھی پاکستانی قیادت کو بھی آ سکے گا؟ طالبان کا تجربہ اگر کامیاب ہوتا ہے (اور وہ کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے) تو پاکستان کے سماج پر اس کے نفسیاتی اور فکری اثرات مرتب ہوں گے۔ لوگ لمحہ لمحہ تقابل کریں گے۔ نظام تعزیر سے لے کر پولیس تک اور عدالت سے لے کر حکومت تک، ہر چیز کا تقابل ہو گا کہ یہ انسان کی جبلت میں ہے۔ کیا پاکستانی فیصلہ سازوں کو اس کا احساس ہے؟

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran