ٹیکنو کریٹس کی حکومت پر بحث شروع ہو چکی ہے۔ اس بحث سے مگرمیرا کوئی لینا دینا نہیں۔ اصل سوال کچھ اور ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سیاست نے اور اس پارلیمان نے آج تک عوام کے لیے کچھ کیا ہے تو بتا دیجیے؟ اہل سیاست کے پاس اگر اس سوال کا کوئی جواب ہے تو وہ تسلی رکھیں عوام ان سے بہت محبت کرتے ہیں وہ کسی بھی ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کو قبول نہیں کریں گے۔ لیکن اگر اہل سیاست کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے تو پھر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اصل خرابی ان کے نامہ اعمال میں ہے۔ جب تک وہ اپنا نامہ اعمال درست نہیں کرتے نئے نئے فارمولوں کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی۔
سال 2022 ختم ہونے والا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے اس سال پارلیمان اور اہل سیاست کا کردار کیا رہا؟ کیا یہ اپنی ذمہ داریوں کے باب میں سرخرو رہے؟ کیا آپ کو ان کی غیر سنجیدگی سے خوف نہیں آتا؟ جس رویے کا انہوں نے مظاہرہ کیا کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟ کیا ایک پارلیمان کو ایسا ہی ہونا چاہیے جیسی ہماری پارلیمان ہے؟
ملک کو درپیش مسائل کی سنگینی دیکھیے اور اپنی پارلیمان کی کارکردگی دیکھیے۔ کیا کوئی ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جو پارلیمان میں سنجیدگی سے زیر بحث لایا گیا ہو؟ پارلیمانی سیاست میں تلخی اور ہیجان بھی ہوتاہے لیکن کیا دنیا کی کوئی ایک پارلیمان بھی ایسی ہے جہاں صرف تلخی اور ہیجان ہی ہو اور ڈھنگ کا کوئی کام نہ ہوتا ہو۔
پارلیمانی سال کی کارکردگی یہاں کبھی زیر بحث ہی نہیں آئی۔ نہ کوئی سیاست دان بتائے گا نہ سپیکر قومی اسمبلی ایسے کوئی دستاویز میڈیا کو جاری کریں گے اور نہ ہی میڈیا اپنے طور پر معلوم کر کے آپ سے شیئر کرے گا کہ اس پارلیمانی سال میں اخراجات کتنے ہوئے اور کام کتنا ہوا؟
چاہیے تو یہ کہ ہر سال کے اختتام پر پارلیمان خود ایک دستاویز جاری کرے جس میں لکھا گیا ہو کہ اس سال کتنے دن اجلاس جاری رہا، کتنی بار کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہو۔ کل جتنی بار اجلاس ملتوی ہوا اور اس کے اخراجات کتنے تھے۔ سال بھر کے مجموعی اخراجات کا حجم کیا تھا۔ کتنے قوانین بنائے گئے۔ کتنے معاملات پر کتنے گھنٹے غوروفکر ہوا۔ سنجیدہ گفتگو کا دورانیہ کتنا تھا اور غیر سنجیدہ گفتگو اور الزام تراشی اور لڑائی جھگڑے میں کتنا وقت برباد ہوا۔ کتنے اراکین نے سارا سال کچھ نہیں کیا؟ پارلیمان کی کارکردگی کا تعین کرنے کے لیے آخر کچھ تو ہو؟
مراعات کا ایک پہاڑ کھڑا ہے۔ قومی اسمبلی کا ایک دن کا اجلاس اس قوم کو چھ کروڑ میں پڑتا ہے۔ یعنی کسی روز چند اراکین تشریف لائیں اور سپیکر صاحب یہ کہہ کر اجلاس ملتوی کر دیں کہ کورم پورا نہیں ہے تو یہ آنیاں جانیاں اس قوم کو چھ کروڑ روپے میں پڑتی ہیں۔ مہینوں گزر جاتے ہیں، اراکین ایوان کا رخ نہیں کرتے۔ استعفی کیسے دینا ہے اس کا تعین نہیں ہو پاتا۔ نہ اراکین آتے ہیں نہ ان کا استعفی قبول ہوتا ہے نہ ان کی غیر حاضری پر ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے۔ کوئی یر سنجیدگی سی غیر سنجیدگی ہے۔ دیکھ کر خوف آتا ہے۔
غیر معمولی مراعات کے ساتھ کورم کی کہانی یہ ہے کہ صرف ایک چوتھائی اراکین بھی موجود ہوں تو سمجھا جاتا ہے اسمبلی کا کورم پورا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ستر فیصد اجلاس اگر اس لیے ملتوی ہو جائیں کہ کورم پورا نہیں ہوا تو کیا اس ایوان کے اراکین کی سنجیدگی پر سوال نہیں اٹھتا؟
عمران خاں وزیر اعظم نہ رہیں تو ویسے ہی اسمبلی میں نہیں آتے اور وزیر اعظم تھے تو یہ عالم تھا کہ اسمبلی کے پہلے چونتیس اجلاس میں سے وہ صرف چھ اجلاس میں موجود تھے۔ حاضری کا تناسب آپ خود دیکھ لیجیے اور حساب کر لیجیے کہ اگر ایک وزیر اعظم کی اس ایوان میں دلچسپی کا عالم یہ ہوگا تو باقی کس کھیت کی مولی اور شلجم ہیں۔
اس اسمبلی کے پہلے چار سالوں میں 74 آرڈی ننس جاری کیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر قوانین صدارتی فرمان کے ذریعے ہی بنانے ہیں تو پھر اس پارلیمان کی افادیت کیا ہے۔ غیر معمولی حالات میں دو چار آرڈی ننس جاری کر دیے جائیں تو یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن پارلیمان کے ہوتے ہوئے 74 آرڈی ننس جاری کرنے کا کیا جواز تھا؟
اس سے پہلے جب ن لیگ کا اقتدار تھا تو 2013ء سے 2017ء تک 33 صدارتی آرڈی ننس جاری کیے گئے۔ یعنی ان دونوں حکومتوں نے مل کر صدارتی آرڈی ننسز کی سنچری مکمل کر لی۔ یہ اب ان کی میانہ روی ہے کہ اس شاندار کارکردگی پر پارلیمان کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ابھی تک نہیں دیا ورنہ اس نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اسمبلی نے اپنے پہلے تین سالوں میں صرف 230 گھنٹے کام کیا۔ یہ تین سو پینسٹھ گھنٹے اس قوم کو کتنے میں پڑے کیا کوئی بتا سکتا ہے؟ نیز یہ کہ ان دو سو تیس گھنٹوں میں ڈھنگ کی بات کتنے منٹ ہوئی اور الزام تراشی اور فقرے بازی میں کتنے گھنٹے برباد ہوئے۔ اراکین اسمبلیوں کی حاضریوں کی اوسط شرح کبھی پچاس فیصد ہوتی ہے کبھی ساٹھ فیصد۔ یہ وہ شرح ہے جس سے نہ کوئی اپنی ملازمت جاری رکھ سکتا ہے نہ طالب علم کو کوئی امتحان میں بیٹھنے دیتا ہے۔ لیکن یہاں مزے ہیں کہ یہ خود قانون ساز ہیں۔ کچھ کریں یا نہ کریں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
قومی مسائل پر ڈھنگ کی سنجیدہ گفتگو کبھی کسی سیاست دان کے منہ سے نہیں سنی۔ ہاں ایک دوسرے کی کردار کشی کی مہارت قابل داد ہے۔ پگڑیاں اچھالنی ہوں، ایک دوسرے کی تذلیل کرنی ہو، ردیف قافیے ملا کر جگتیں لگانی ہوں تو ان میں سے بعض کی مہارت قابل رشک ہے۔
آئین پاکستان کا احترام بھی سر آنکھوں پر اور پارلیمان کی بالادستی بھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس پارلیمان نے عام آدمی کو کیا دیا ہے؟ کیا یہ اپنی ذمہ داریوں کے باب میں سرخرو ہے یا یہ ایک اضافی بوجھ بنتی جا رہی ہے؟
پارلیمان کو اپنا محاسبہ خود کرنا ہوگا۔ اسے سوچنا ہوگا کیا اس نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں۔ اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو پارلیمان کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر عوام اس کی کارکردگی سے مطمئن ہیں تو وہ یقینا کسی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کو قبول نہیں کریں گے۔ لیکن اگر پارلیمان اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکی، اگر عوام میں اس کا اعتبار کم ہوا ہے، اگر اس کی عزت و احترام میں کمی آئی ہے اور اگر لوگ اس سے مطمئن نہیں ہیں تو پھر اسے اپنی ادائوں پر غور کرنا چاہیے۔
اتنی غیر معمولی مراعات کے بعد اتنی واجبی سی کارکردگی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پارلیمان اگر اس سوال کا جواب دے سکتی ہے تو پارلیمانی سیاست کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ بصورت دیگر یہ ایک بوجھ ہے۔ آئینی موشگافیاں اس بوجھ کو عوام کی کمر پر لاد تو سکتی ہیں، اس بوجھ کو نعمت نہیں بنا سکتیں۔