تحریک انصاف کا مقابلہ اپنے سیاسی حریفوں سے ہے یا ریاست سے؟ تحریک انصاف میں کوئی ہے جو اس سوال پر غور کرے؟
تحریک انصاف نے آئی ایم ایف کو خط لکھنے کی بات کی تو بچپن میں پڑھی ایک ضرب المثل یاد آ گئی: اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ ساتھ ہی اس کی وہ شرح بھی یاد آ گئی جو پرائمری سکول دھریمہ میں اردو کے استاد محترم نے بیان کی تھی۔
استاد گرامی سے کسی نے پوچھا، اونٹ کو ایسا کیوں کہتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ اونٹ بظاہر بڑا شریف، اصول پسند اور سیدھا سادا نظر آتا ہے لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ یہ اکڑوہے، یہ اڑیل ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں، یہ ضدی ہے، یہ کینہ پرور ہے، بظاہر مزے سے جگالی کرتا رہے گا لیکن اس کے اندر انتقام کی آگ بھڑک رہی ہوگی جو کسی بھی وقت سامنے آ جائے گی، یہ خود کو بڑا حسین سمجھتا ہے، اٹھلا اٹھلا کر چلتا ہے مگر ذرا بھی حسین نہیں ہے۔ کسی کا وفادار نہیں ہے۔ جس مٹی پر پلا بڑا ہوتا ہے، اس مٹی کا بھی وفادار نہیں ہے۔ پیدائش کے بعد یہ اچانک بڑا ہونے لگتا ہے اور اپنی عمر کے سارے جانوروں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے اس لیے گھمنڈ کا شکار ہو جاتا ہے کہ وہ سب سے مختلف، منفرد اور اہم ہے۔ اس کا قد اچانک بڑھتا ہے تو یہ مغرور ہو جاتا ہے، باقی زمین سے کھاتے ہیں لیکن اس کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ اکڑی گردن سے درختوں کی شاخوں کو کھائے۔ اس سب کے باجود یہ خود کو بڑا نیک، شریف اور با اصول قرار دیتا ہے۔ چنانچہ جب حقیقت سامنے آتی ہے تو لوگ حیران ہو کر پوچھتے ہیں: اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔
کہاوت کی یہ شرح کہاں تک درست ہے، معلوم نہیں۔ البتہ تحریک انصاف نے پاکستان کے داخلی معاملے میں آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا عندیہ دیا تو یہ کہاوت بہت یاد آئی۔ اونٹ کی طرح یہاں بھی دعوے بڑے بڑے ہیں لیکن کام اس کے الٹ ہوتا ہے۔
دعوی یہ ہے کہ ہم کوئی امریکہ کے غلام ہیں اور حال یہ ہے کہ اسی امریکہ سے ملکی سیاست میں مداخلت کی درخواستیں فرمائی جا رہی ہیں۔ دعوے یہ ہیں کہ ہم کوئی امریکہ کے غلام ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اسی امریکہ میں لابنگ فرمائی جا رہی ہے اور اس کے سینیٹرز کے ذریعے ہنر کاری کی جا رہی ہے۔ رجز یہ ہیں کہ ہم تو بطل حریت ہیں اور ہمیں امریکہ نے اقتدار سے نکالا اور برخورداری یہ ہے کہ اسی امریکہ سے التجائیں کی جا رہی ہیں کہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرے۔
ابھی چند روز پہلے دنیا بھر کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ عمران خان صاحب نے ایک خصوصی پیغام میں امریکہ سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرے کیونکہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے۔ بھارتی اخبارات نے اسے خوب نمایاں کرکے شائع کیا۔ تحریک انصاف اس کی تردید آج تک نہیں کر سکی۔ سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کے خلاف سازش ہوئی تھی اور وہ سازش امریکہ نے کی تھی اور اس سازش کے نتیجے میں عمران خان اقتدار سے الگ کیے گئے تھے تو عمران خان اسی امریکہ سے کیوں یہ التجا کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرے اور خان صاحب کی پریشانیاں دور کرے؟ سازش کا بیانیہ درست تھا تو یہ التجائیں کیوں؟ التجائیں کی جا رہی ہیں تو سازش کا بیانیہ کیا ہوا؟ وہی ملا نصیر الدین والی بات کہ یہ اگر بلی ہے توگوشت کہاں ہے اور یہ اگر گوشت ہے تو بلی کہاں ہے؟
اب تو شرم اور ندامت کے کسی بوجھ سے بے نیاز ہو کر تحریک انصاف کی قیادت نے کہہ دیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو خط لکھے گی؟ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے انتخابی معاملات سے آئی ایم ایف کا کیا تعلق ہے؟ علی ظفر صاحب سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا آئین میں یا انٹر نیشنل لاء میں کہیں لکھا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کی جانچ پڑتال آئی ایم ایف کیا کرے گی؟
جناب علی ظفر فرماتے ہیں کہ بین الاقوامی اداروں کا اپنا ایک چارٹر ہے۔ یہ اس وقت قرض دیتے ہیں جب ملک میں گڈ گورننس ہو۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہوا کہ جب تحریک انصاف کی حکومت نہیں ہوگی تو یہ تحریک انصاف بمقابلہ ن لیگ یا پی پی نہیں رہے گا بلکہ یہ تحریک انصاف بمقابلہ ریاست بن جائے گا۔ پھر تحریک انصاف کبھی کہے گی کہ ہم عالمی عدالت انصاف جا رہے ہیں اور کبھی کہے گی کہ ہم آئی ایف کو خط لکھ رہے ہیں۔ یعنی اگر اقتدار سے محرومی ہے تو پھر ریاست ہی کو سینگوں پر لے لیاجائے گا۔ یہ رویہ ایک تسلسل سے سامنے آ رہا ہے اور مختلف شکلوں میں آ رہا ہے۔ مئی 2022ء میں عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ چوروں کو حکومت دینے سے بہتر ہے ملک پر ایٹم بم گرا دیں۔ یعنی اگر خان صاحب اقتدار میں نہیں تو پھر ملک اس قابل ہے کہ اس پر ایٹم بم گرا دیا جائے۔ ک
ے پی کے ایک وزیر نے بیان دیا تھا کہ اگر اقتدار پی ڈی ایم کو ملتا ہے تو ملک میں رہنے سے بہتر ہے ہم افغانستان چلے جائیں۔ یعنی پاکستان صرف اس وقت تک گوارا ہے جب تک یہ اقتدار کے دستر خوان تشریف اور شکم فرما ہوں۔ اگر یہ نہیں تو پھر کیسا پاکستان۔
ان کے جلسوں اور جلوسوں میں بھی اہتمام سے اسی بیانیے کو فروغ دیا گیا اور ایسی کئی ویڈیوز یو ٹیوب پر موجود ہیں جن میں کہا گیا کہ عمران ہماری ریڈ لائن ہیں اگر ان کو کچھ ہوا تو ہم سارا ملک جلا دیں گے۔ یہ محض شدت جذبات کی حماقت نہیں تھی، یہ کلٹ پر مبنی دانستہ بیانیہ تھا۔ مرشد تو آخری ہے، تیرے بعد قیامت ہے۔
اقتدار سے الگ ہونے پر باقاعدہ منظم مہم چلائی گئی کہ اوورسیز پاکستانی پاکستان میں رقوم کی ترسیلات روک دیں۔ سیلاب آیا تو ایک بار پھر یہی بیانیہ دیا گیا کہ اوورسیز اس حکومت کو عطیات نہ دیں انہیں روک لیں۔ جب تحریک انصاف کو حکومت ملے تب بھیجیں۔ شروع شروع میں آدمی اس سب کو اتفاق سمجھتا ہے لیکن پھر ایک وقت آتا ہے گزرے واقعات کی کڑیاں ملتی چلی جاتی ہیں اور منظر نامہ واضح ہونے لگتا ہے۔ چین کے صدر کا دورہ ان کے دھرنے کی وجہ سے منسوخ ہوتا ہے۔ سعودی ولی عہد کا دورہ بھی ان کے احتجاج کی وجہ سے منسوخ ہو جاتا ہے۔ ان کی آڈیو ٹیپپس سامنے آ جاتی ہیں جن میں یہ اپنے وزیر خزانہ کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ وفاق اور آئی ایم کا معاملہ خراب کرنا ہے اور اس کام کے لیے اسے یہ یہ کہنا ہوگا۔ یہ بڑا ہی خوفف ناک بیانیہ ہے کہ اگر ہم اقتدار میں نہیں ہیں تو ہم ریاست کے مفادات پر وار کریں گے۔
سوال وہی ہے: تحریک انصاف کا مقابلہ اپنے سیاسی حریفوں سے ہے یا ریاست سے؟