کل شام اسلام آباد کے سید پور ماڈل ولیج میں تیندوے گھس آئے۔ باقی کا کام افواہ سازوں نے پورا کر دیا۔ رات گئے تک افواہوں کے مطابق تیندوے پانچ انسانوں کو کھا چکے تھے اور مارگلہ کی پہاڑیوں میں لوگوں کو ان کی لاشیں مل چکی تھیں۔ ایمر جنسی نافذ ہو چکی تھی، مساجد سے اعلانات ہو رہے تھے کہ گھروں میں رہیں ورنہ تیندوے آپ کو بھی ہڑپ کر جائیں گے۔ جو لوگ مارگلہ اور اس کے تیندووں سے واقف ہیں وہ ان افواہوں سے لطف اندوزہوتے رہے اور باقی پریشان ہوتے رہے۔
اتفاق سے میں اس شام مارگلہ کے جنگل میں ہی گھوم پھر رہا تھا۔ سردیوں کی تاریک راتوں میں یہاں ایک جھنڈ میں لومڑیاں آتی ہیں، میں ان کی تصاویر بنانے کے چکر میں تھا۔ رات نو نجے کا وقت تھا، میں نے ایک لومڑی جھنڈ کی جانب جاتے دیکھی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کی چال لومڑی کی بجائے کتے جیسی ہے، یہ لومڑی نہیں ہے تو پھر کیا ہے۔ لیکن یہ وقت دانشوری، کا نہیں تھا، لومڑی چند لمحے ہی تو دیتی ہے تصویر بنانے کے لیے۔ میں جب اس کے ساتھ فوٹو شوٹ کر چکا اور ویڈیو بھی بنا لی تو مجھے لگا یہ لومڑی نہیں، بھیڑیا ہے۔ تصویر گوگل لینز میں ڈالی تو وہ مارگلائی بھیڑیا ہی تھا۔ خیریت گزری کہ اس نے شرافت سے فوٹو شوٹ کروایا اور جنگل میں غائب ہوگیا۔ تب تک میں بھی مارگلہ سے نکل کر گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔
جیسے ہی یہ تصویر فیس بک پر ڈالی، ادھر ادھر سے دوستوں اور خیر خواہوں کے پیغامات آنے لگے کہ آپ اس وقت جنگل میں کیا کر رہے ہیں ساتھ سید پور گائوں میں تیندوے گھس آئے ہیں۔ میں اس خیر خواہی اور اس کے ساتھ لپٹی افواہوں میں گھر پہنچا۔ کھانا کھاکر واٹس ایپ پیغامات دیکھے تو احساس ہوا کہ مختاریا، گل ودھ گئی اے،۔ گل، جب اتنی ودھ، چکی ہو تو چند بنیادی باتیں سب کو جان لینی چاہیں۔
سید پور گائوں، اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون کے سامنے پہاڑ میں واقع ہے۔ یہ ایک قدیم گائوں ہے۔ مغل بادشاہ جہانگیر کی بیوی کو یہ گائوں جہیز میں دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے قدیم ہندو استانوں کے مطابق وشنو کے ساتویں اوتار راجہ راما چندرا نے جلا وطنی کے ایام یہیں گزارے تھے۔ اسلام آباد بنا تو اس گائوں کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر اسے ختم کرنے کی بجائے قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے ماڈل ولیج کا درجہ دے دیا گیا۔
اس گائوں کی جتنی پرانی تاریخ ہے، اتنی ہی قدیم یہاں کے تیند ووں کی تاریخ بھی ہے۔ راولپنڈی کے انگریز ڈپٹی کمشنر ایچ بی بیکٹ کے ایک مراسلے کے مطابق 1830ء تک یہاں شیر بھی پائے جاتے تھے اور ان کے ہاتھوں لوگوں کے مویشی مارے جاتے تھے۔ فریڈ رابرٹسن نے 1884ء میں لکھا کہ یہاں کے لوگ اپنی حفاظت کے لیے کڑکا لگاتے ہیں۔ بعد میں شیر معدوم ہو گئے اور صرف تیندوے بچ گئے۔ 1890ء کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ اس زمانے میں شیروں کے حملوں کی جب تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا یہ شیر نہیں تیندوے تھے۔ اینڈریو سمن کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں تیندووں کے حملے معمول کی بات تھی جو جاڑے میں زیادہ ہو جاتے تھے۔
طویل عرصے بعد اب ایک بار پھر یہاں تیندووں کی تعداد بڑھ چکی ہے۔ درہ کوانی انہی تیندووں کی وجہ سے مستقل طور پر بند ہو چکا ہے اور ڈھوک جیون(موجودہ ای سیون) کے قدیمی درے پر بھی یہ منڈلاتے رہتے ہیں۔ درہ جنگلاں سے درہ کوانی تک یہ سارے درے ایک ساتھ واقع ہیں۔ ان کے درمیان فاصلہ بھی زیادہ نہیں۔ محض پانچ یا چھ کلو میٹر۔ وادی کے اندر تیندووں کو ادھر ادھر جانے سے کون روک سکتا ہے۔
اب تو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ شادرا کے تیندوے بھی اسی علاقے کو محفوظ پناہ گاہ سمجھ کر یہاں منتقل ہو چکے ہیں۔ درہ کوانی میں کبھی وائلڈ لائف کے دوستوں کے ساتھ جائیں تو وہ دکھاتے ہیں کہ یہ دیکھیے تیندووں نے اپنا علاقہ مارک، کر رکھا ہے۔ یہ باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں کہ چند گھاٹیوں اور وادیوں میں اتنے تیندوے کیسے آ سکتے ہیں جب کہ ہر تیندوے کو اپنے لیے اتنا علاقہ چاہیے ہوتا ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ جیسے انسان ایکڑوں کی حویلیوں سے کنالوں اور پھر مرلوں اور پھر ڈربوں تک آ چکا ہے، ایسے ہی جنگلی حیات بھی مجبور ہو چکی ہے۔
انسانوں اور تیندووں نے اب مارگلہ میں مل جل کر ہی رہنا ہے۔ اس میل جول کے آداب میں تیندوے تو بہت واضح ہیں، اب یہ فیصلہ انسان نے کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ سید پور گائوں میں بکروں کی خریدو فروخت کا کام وسیع پیمانے پر ہوتا ہے۔ یہاں بہت سے گھروں میں بکریوں کے باڑے ہیں۔ تیندووں کاجی للچانا ایک فطری سی بات ہے کہ ڈاکٹر مشتاق صاحب اکیلے اکیلے آئے روز شنواری کی تصاویر فیس بک پر ڈالتے ہیں تو چلیں آج ہم بھی بار بی کیو کر آتے ہیں۔ نسبتا الگ سے واقع ایک گھر پر انہوں نے حملہ کیا، ایک بکری کوو مارا اور شور مچنے پر جنگل میں بھاگ گئے۔ شادرا سے آگے جنگل میں بھی ایسے ہی ایک اکیلا گھر تھا جہاں انہوں نے تین چار جاڑے پہلے مویشی کھائے تھے۔
تیندوے اب اسلام آباد کے شہری ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے فیصل مسجد کے ساتھ اسلامی یونیورسٹی کے ریاسٹ ہائوس میں ایک بکری کھا لی تھی۔ یہ جنگل سے اتر کر اتنا نیچے آ جاتے ہیں کہ اگر ان کی تصاویر مقامات کا نام لے کر شیئر کی جائیں تو لوگ مارگلہ ٹریلز تو کیا، فیصل مسجد جانا بھی چھوڑ دیں۔ اب مسئلے کا حل یہ نہیں کہ تیندووں کے ڈر سے جنگل نہ جایا جائے یا انہیں مار ہی دیا جائے۔ مسئلہ ان کے ساتھ مل کر رہنے کے آدب سیکھنے کا ہے۔ اس ضمن میں چند انتظامی پہلو توجہ طلب ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری انتظامی صلاحیت اس چیلنج سے نبٹنے کو تیار ہے یا نہیں؟
وائلڈ لائف بورڈ کے لوگ رینجرز ان دروں میں جہاں تیندوے پائے جاتے ہیں اندر تک ریکی کرتے ہیں۔ یہ ملازمت نہیں، یہ عشق ہے۔ لیکن تکلیف دہ بات یہ کہ ان کے پاس کوئی سازو سامان یا سہولیات نہیں۔ ٹرنکولائزر گن تک موجود نہیں ہے کہ ہنگامی صورت حال میں کام آئے۔ ایک تو یہ بہت ضروری ہے کہ اس عملے کو جدید سہوولیات دی جائیں تا کہ تیندووں کو کالر کیا جا سکے اور لیپ ٹاپ پر پتا چلتا رہے کون سا تیندوا کہاں ہے۔ جیسے ہی وہ آبادی کا رخ کرے معلوم ہو جائے اور لوگوں کے جان و مال محفوظ رہیں۔
دوسرا ان آبادیوں کے پاس سہولیات سے آراستہ وائلڈلائف پوسٹس کا ہونا ضروری ہے۔ لوگوں کو شکایات ہیں کہ سرکاری اہلکار اور ادارے بسا اوقات انسان سے زیادہ تیندوے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس رویے کا خاتمہ ہونا چاہیے اور جس غریب کے مویشی مارے جائیں اس کا موقع پر ازالہ ضروری ہے۔
عوام کے ساتھ رابطہ ضروری ہے۔ دیہاتیوں سے بات کرنا ہوگی اور ان کے مسائل سمجھنا ہوں گے۔ ایک لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا تاکہ انسان اور تیندوے مل جل کر رہ سکیں۔