کورونا کی وبا پاکستانی معیشت کے لیے اتنی تباہ کن نہیں تھی، ایکسپورٹس ہماری تھیں ہی کتنی کہ متاثر ہوتیں؟ امپورٹ بل کم ہوا تو فائدہ ہی ہوا۔ بہت بڑا سہارا ہماری زراعت تھی اور ہمیں تسلی تھی کارپوریٹ اکانومی کا جو بھی حشر ہو جائے ہم ایک زرعی ملک ہونے کی وجہ سے غذائی بحران سے دوچار نہیں ہوں گے۔ لیکن ٹڈی دل کی وجہ سے اب منظر بدل رہا ہے اور ایک خوفناک غذائی بحران ہماری دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ کیا کسی کو احساس ہے کہ یہ کتنا بڑا خطرہ ہے؟
یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا غذائی بحران ہے جو بڑی تیزی سے ہماری جانب بڑھ رہا ہے۔ سوال یہ ہے حکومت کہاں ہے؟ کیا سندھ، پنجاب اور وفاق کی حکومتوں کو کچھ خبر ہے یہ وقت ٹوئٹر، فیس بک اور میڈیا پر ایک دوسرے کی ہجو کہنے کا نہیں، یہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک قومی پالیسی کے تعین کا وقت ہے؟ بھینسوں، کٹوں، بکریوں اوردیسی انڈوں کے ذکر پر جو ڈیجیٹل میوے بد مزہ ہو کر تمسخر اڑاتے تھے، ان کی بات الگ ہے لیکن جو دیہی اکانومی کا شعور رکھتے ہیں، انہیں معلوم ہے اگر زراعت کا شعبہ ٹڈی دل سے متاثر ہو گیا تو انجام کیا ہو گا۔ لیپ ٹاپ اور آئی فون پر دانشوری تو کی جا سکتی ہے، پیٹ نہیں بھرا جا سکتا۔ پیٹ بھرنے کے لیے تھری جی، فور جی یا فائیو جی کی نہیں گندم کی ضرورت ہوتی ہے اور گندم آن لائن نہیں اگائی جا سکتی۔ یہ صرف زمین کے سینے سے اگتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے " فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن" کی رپورٹ کے مندرجات آدمی کو خوفزدہ کر دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا 38 فیصد علاقہ ٹڈی دل کا " بریڈنگ گرائونڈ" بن چکا ہے یعنی یہاں اس کا افزائش نسل ہو رہی ہے۔ اس میں بلوچستان کا 60 فیصد، سندھ کا 25 فیصد اور پنجاب کا 15 فیصد علاقہ شامل ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ پنجاب اس سے متاثر نہیں ہو گا تو وہ یہ غلط فہمی دور کر لے ْ رپورٹ کہہ رہی ہے کہ حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے پورا ملک بشمول کے پی کے اس بلا کے خطرے سے دوچار ہونے جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ٹڈی دل کو پاکستان کے لیے Unprecedented Threat کہا گیا ہے۔ یعنی ایسا خطرہ جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہ ملتی ہے۔ اتنا بڑا خطرہ اور اہل اقتدار سے اہل دانش تک سب کی اتنے خوفناک بے نیازی؟ ہے کوئی ہم سا؟ رپورٹ کہتی ہے کہ اگرمعاملہ سنبھال لیا گیا اور نقصان کو 25 فیصد تک روک لیا گیا تو پاکستان کو ربیع کی فصل میں 353 بلین کا نقصان ہو گا اور خریف کی فصل میں 446 بلین کا نقصان ہو گا۔ یہ ملا کر 800 ارب کا نقصان بنتا ہے۔ وہ بھی اس شکل میں کہ نقصان پچیس فیصد سے بڑھنے نہ پائے۔ اور اگر خدانخواستہ وہ بڑھ گیا تو پھر نقصان کے اعدادوشمار کہاں تک جائیں گے، کیا کسی کو احساس ہے؟
رپورٹ یہ بھی کہہ رہی ہے مون سون میں یہ مصیبت مزید بڑھے گی اوور ٹڈی دل کی ایک نئی اور خوفناک لہر پاکستان کو لپیٹ میں لے گی۔ سوال یہ ہے کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ کیا کسی سطح پر اس بلا سے نبٹنے کی کوئی منصوبہ بندی ہے؟ کورونا نے پہلے معیشت کی کمر توڑ دی ہے اب اگر غذائی بحران بھی پیدا ہو جاتا ہے تو کیا ہو گا؟ کیا آپ کے وسائل آپ کو اجازت دیں گے کہ گندم خرید کر ملک میں لائیں؟ کیا ملک قحط سے دوچار ہونے جا رہا ہے؟ کوئی حفاظتی اقدامات؟ کوئی قومی پالیسی؟ حفاظتی اقدامات کا سوال تو بہت بعد کی بات ہے، اس سے پہلے اس سوال پر غور فرما لیجیے کہ کیا اہل اقتدار کو کچھ احساس بھی ہے کتنا بڑا خطرہ ہماری جانب بڑھ رہا ہے۔ عوام کے پیسوں پر اسمبلی کے اجلاس تو اب ہوٹلوں میں بلائے جا رہے ہیں لیکن ان اجلاسوں میں اہم قومی امور پر جو غوروخوض ہونا ہے کیا اس کی حقیقت سے ہم آگاہ نہیں ہیں؟ غیر سنجیدگی کی ایک وبا ہے جس نے اس معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہر شعبہ زندگی کے نزدیک اب دنیا کا سب سے اہم معاملہ سیاست ہے چنانچہ پوری قوم اس پر لمبی لمبی گفتگو فرمائے جا رہی ہے۔ باقی مسائل اس قابل نہیں کہ سینئرتجزیہ کاروں اور سیاسی رہنمائوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر سکیں۔
یہ بے نیازی اس ملک کی ہے جو ایک زرعی ملک ہے اور جس کی قریب قریب 70 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔ زراعت آج بھی ہماری جی ڈی پی کا 25 فیصد ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے جی ڈی پی کا پچیس فیصد ہونے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا سادہ ترین مطلب یہ ہے کہ زراعت آپ کی کل ایکسپورٹ ویلیو کا 70 فیصد ہے۔ 17 ملین لوگ براہ راست اس سے وابستہ ہیں۔ آپ کی لیبر فورس کا 44 فیصد زراعت سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن ہمارا احساس کمتری دیکھیے اس زرعی ملک میں آج بھی " پینڈو" کا لفظ تضحیک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کٹے بکری کا نام لے لے تو ڈیجیٹل جنریشن بد مزہ ہو جاتی ہے اور اسے بالکل علم نہیں ہوتا کہ پاکستان کی معیشت میں لائیو سٹاک کا کیا کردار ہے۔ سارا دن ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلانے والی، ڈبہ دودھ پینے والی اس نسل کو معلوم ہی نہیں آج بھی پاکستان میں دو کروڑ چالیس سال گائیں، دو کروڑ ساٹھ لاکھ بھینسیں اور پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ بکریاں آپ کی دیہی معیشت کا ایک ستون بن کر موجود ہیں۔
صورت حال انتہائی خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ کورونا نے پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت کو پہلے ہی جاں بلب کر چھوڑا ہے۔ ان مشکل معاشی حالات میں واحد سہارا یہ تھا کہ چلیں ہم ایک زرعی ملک ہیں اور کم از کم خوراک میں تو خود کفیل ہیں۔ بین الاقوامی معاشی بحران کے عالم میں یہ سہارا، دیکھا جائے، تو بہت بڑا سہارا ہے۔ لیکن ٹڈی دل کا لشکر اس سہارے کو بھی چاٹ کھانے کو تیار ہے اور ساون کے دنوں میں کہا جا رہا ہے کہ ٹڈی دل کے تاززہ دم مزید لشکر پاکستان کی فصلوں پر حملہ آور ہوں گے۔ اتنا پریشان کن منظر نامہ ہے اور ہمارے اہل سیاست گروہی مفادات سے بلند ہو کر سوچنے کو تیار نہیں۔
ہمیں ہمہ جہت پالیسی کی ضرورت ہے۔ ایک جانب ٹڈی دل سے نبٹنے کے لیے اور دوسری طرف اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ خوراک کے ممکنہ بحران کو دیکھتے ہوئے ملک میں Panic Buying نہ شروع ہو جائے۔ ایسا ہو گیا تو بحران انتہائی سنگین ہو جائے گا۔ ابھی تو عالم یہ ہے کہ سندھ اور وفاق مل بیٹھ کر بات کرنے کو تیار نہیں۔ جو سوشل ڈسٹنسنگ کرونا سے نبٹنے کے لیے اختیار کرنا تھی، ہمارے اہل سیاست نے اپنی سیاسی نفرتوں میں وہ سوشل ڈسٹنسنگ اختیار کر رکھی ہے۔
ان حالات میں کیا ہمیں کسی آئن سٹائن کی ضرورت ہے جو آکر بتائے عزیز ہم وطنو تمہارے ساتھ یہ ہونے جا رہا ہے؟