ملک ماحولیات کے خطرے سے دوچار ہے، درجہ حرارت 47 کو چھو رہا ہے اور مارگلہ میں جنگل کو جلا کر ٹک ٹاک ویڈیوز تیار کی جا رہی ہیں۔ کیا اس سے بڑی بد بختی بھی ہو سکتی ہے کہ جنگل کو آگ لگا کر مٹک مٹک کر ویڈیوز بنائی جائیں؟
سی ڈی اے نے تھانہ کہسار میں درخواست جمع کرائی ہے کہ اس ٹک ٹاکر کے خلاف لینڈ سکیپ ایکٹ، فارسٹ ایکٹ، وائلڈ لائف ایکٹ اور انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے لیکن اس سے کیا ہو گا؟ یہ قوانین نہیں، یہ تو آثار قدیمہ کا فضلہ ہے جو تعفن دے رہا ہے۔
فرض کریں ان تمام قوانین کے تحت مقدمہ درج ہو جاتا ہے تو کون سا طوفان آ جائے گا؟ قانون کے اس کاسے میں اس جرم کی کل سزا یہ ہے کہ چند ہزار جرمانہ کر دیا جائے یا چند ماہ قید کی سزا سنا دی جائے۔ یعنی ملزمان گرفتار بھی ہو جائے تو اسی طرح مٹکتے ہوئے ضمانت پر گھر چلے جائیں جیسے وہ آگ کے سامنے مٹک کر ٹک ٹاک بنا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حرکت پرشرمندہ ہونے کی بجائے ڈولی صاحبہ فرما رہی ہیں کہ انہوں نے یہ و یڈیو بنا کر کچھ غلط نہیں کیا۔
یہ وطن عزیز کا قانون ہے، جو لکھنے والوں نے برائے وزن بیت لکھ رکھا ہے۔ یہ آسٹریلیا کا قانون تھوڑی ہے جہاں ایسے جرم کے لیے عمر قید کی سزا ہو۔ امریکہ کی ریاستوں میں بھی اس سلسلے میں سخت قانون ہے اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کسی سے غلطی سے آگ لگ گئی تو اسے بھی سزا دی گئی۔ وطن عزیز میں البتہ معاملہ دوسرا ہے۔ عام سا کوئی جنگل تو دور کی بات ہے ہمارے پاس اپنے نیشنل پارکس کو بچانے کے لیے بھی ڈھنگ کا کوئی قانون نہیں۔ حالت یہ ہے کہ جنگل جلا کر راکھ کر دینے والے کے لیے معمولی سی سزائیں ہیں البتہ ریلوے پر ایک انچ کا کنکر پھینکنے کے سزا یہاں آج بھی عمر قید ہے۔
دور کی بات نہیں یہاں اسلام آباد میں مارگلہ نیشنل پارک میں وائلڈلائف اہلکار سفیر حسین کو دن دہاڑے جنگل میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا لیکن قاتل آج تک گرفتار نہیں ہوا۔ جہاں حکومتوں سے نیشنل پارک کے محافظ کے قاتل نہ پکڑے جا سکیں، وہاں جنگلی حیات اور درختوں کا قتل عام کیسے رک سکتا ہے؟
تاہم یہ معاملہ قانونی نہیں، یہ سماجی المیہ بھی ہے۔ اخلاقی بحران ہمارے معاشرے پر بیت چکا ہے اور ہمیں اس کی خبر ہی نہیں۔ اہل علم سوشل میڈیا اور ٹک ٹاک کو فتنہ قرار دے رہے ہیں کہ اپنی بعض خوبیوں کے باوجود اس میں شر اور فتنے کا پہلو زیادہ غالب ہے۔ لیکن دیکھا جائے توبحران اخلاقی ہے اور سوشل میڈیا صرف اس بحران کی ایک عملی تصویرہے۔ جہاں نوجوان ہمیں اپنی حرکتوں سے بتا رہے ہیں کہ اس اخلاقی المیے کی نوعیت کتنی شدید ہے۔
خرابی سوشل میڈیا میں نہیں، معاشرے میں ہے اور سوشل میڈیا اس خرابی کا صرف ایک ابلاغی عامل ہے۔ یہاں سیاست زیر بحث آئے تو بد زبانی اور جہالت پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ جسے شعور سمجھا جا رہا ہے یہ بد تمیزی اور جہالت کا کشتہ زمرد ہے اور یہاں فنون لطیفہ تک بات پہنچے تو یہ ذوق اور اخلاق کے بحران کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں سیاسی ٹرینڈز چلیں یا ٹک ٹاک پر تفنن طبع ہو رہی ہو، یہ سب اسی اخلاقی بحران کی عملی شکل ہیں اس کے سوا کچھ نہیں۔
ٹک ٹاکرز کو ریٹنگ چاہیے، اس کے لیے وہ کسی بھی حد سے گزر سکتے ہیں۔ یہ المیہ سوشل میڈیا کا نہیں، معاشرے کا ہے جس کی کوئی سمت ہی نہیں۔ یہ خرابی صرف سوشل میڈیا کی ہوتی تو مین سٹریم میڈیا بھی اسی ریٹنگ کے لیے مجنوں نہ ہوا پھرتا۔ ریٹنگ کی خاطر جس ہمارے میڈیا میں جس بد ترین قسم کا پاپولزم در آیا ہے اور جس احمقانہ طریقے سے سماج کی تہذیب کی بجائے سماج میں موجود تعصبات کی فالٹ لائن کو نمایاں کیا جاتا ہے، یہ ہمیں بتاتا ہے کہ بحران صرف سوشل میڈیا کا نہیں، یہ بحران اخلاقی ہے اور ہمہ گیر ہے۔ ایک ٹک ٹاکر اور کسی سینیئر تجزیہ کار میں فرق واردات کا نہیں طریق واردات کا ہے۔ مقصود دونوں کا ایک ہے: ریٹنگ۔ ہر حال میں اور ہر قیمت پر۔ چنانچہ کوئی مارگلہ میں آگ لگاتا ہے تو کوئی معاشرے میں۔
یہ المیہ صرف نا خواندہ یا نیم خواندہ لوگوں کا نہیں ہے۔ آپ بظاہر اعلی تعلیم یافتہ لوگوں سے بات کر کے دیکھ لیجیے، معلوم ہو گا ڈگریوں کے بوجھ کے علاوہ کچھ ایسا نہیں جس کے نام علم کی تہمت دھری جا سکے۔ عصری سیاست کا کچھ علم ہے نہ سماجیات کا۔ بس کمر دہری ہے اور اوپرڈگریاں لدی ہیں۔ چنانچہ بحران شدید تر ہوتا جا رہے۔
معاشرے میں تربیت کا کوئی ادارہ باقی نہیں رہا۔ پہلی درس گاہ والدین ہوتے ہیں، ان کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ دوسری درسگاہ مسجد کا منبر تھا، نوجوان اس درس گاہ سے اور داعی ان نوجوانوں سے دور ہو چکا۔ صاحب منبر اب کشمکش اقتدار کا بھی حریف ہے اور تعصبات کا بھی، خیر خواہی کہاں سے آئے؟
سماجی رویے تو بننے اور بگڑنے میں وقت لگتا ہے۔ اصلاح کا عمل اب صبر طلب ہے۔ اس ضمن میں پہلے قدم کے طور پر ریاست کو نصاب پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں سماجیات کو بطور مضمون نصاب میں شامل کرنا ہو گا تا کہ بچوں کو بتایا جائے کہ معاشرے میں رہنے کے آداب کیا ہوتے ہیں، اختلاف رائے ہو جائے تو اس کا اظہار کس شائستہ پیرائے میں کرنا ہے، ایک دوسرے سے ہمارا برتائو کیسا ہونا چاہیے، سڑک پر چلنے کے آداب کیا ہیں، گاڑی کیسے پارک کی جاتی ہے، بڑوں سے بات کیسے کی جائے گی، حفظ مراتب کیا ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ایک سماج میں رہنے کے یہ آداب جب تک بچوں کے لاشعور میں نہیں ڈالے جائیں گے، یہ المیہ ہماری جان نہیں چھوڑے گا۔ ہمیں انسانوں کا مہذب سماج بننے کے لیے کم از کم ایسی تین نسلیں چاہییں جنہیں صرف پیدا نہ کیا گیا ہو بلکہ ان کی تربیت بھی کی گئی ہو۔ اس کے بعد جا کر شاید ایک ایسامعاشرہ تشکیل پا سکے گا جسے ایک مہذب سماج کہا جا سکتا ہے۔
ہم اپنے بچوں کو سیرت النبی ﷺ بطور مضمون نصاب میں شامل کر کے مرحلہ وار اگر اس انداز سے پڑھا دیں جیسے پڑھانے کا حق ہے اور بچوں کو بتائیں کہ رسول اللہ ﷺ کا لوگوں سے رویہ کیسا ہوتا تھا، وہ بچوں اور عورتوں سے کیسے پیش آتے تھے، لین دین میں کیسے تھے، کاروبار کیسے کرتے تھے، غیر مسلموں سے وہ کس حسن سلوک سے پیش آتے تھے، پرندوں اور جانوروں سے ان کی شفقت کا عالم کیا تھا، درختوں اور پودوں سے انہیں کتنی محبت تھی، تو یہ سماج تبدیل ہو جائے گا۔
ورنہ سامنے کا سچ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ تباہ ہو چکا ہے۔ بس یہ ہے کہ مارگلہ میں لگی آگ ہمیں دکھائی دے رہی ہے لیکن جو آگ سماج ا ور اس کی قدروں کو لگی ہے وہ نظر نہیں آ رہی۔