درہ کوانی میں چیتے پہاڑوں سے اتر کر نیچے جنگل تک آ گئے ہیں، ٹریل سکس بند کر دیا گیا ہے۔ وائلڈ لائف کے دو اہلکار کچنار کے درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ سامنے پگڈنڈی کے پہلے موڑ تک چیتوں کی آمدورفت کیمروں میں دیکھی گئی ہے اور جنگل میں جانا خطرناک ہو سکتا ہے۔ ٹریل کے بند گیٹ پر نظر پڑی، لکھا تھا: Beware of the Leopard۔
بچپن میں پڑھی ان کتابوں کا ذائقہ آج تک وجود سے لپٹا ہوا ہے جو سندر بن کے آدم خوروں، بنگال کے جنگلوں کے شیروں چیتوں اور رنگون کی بارشوں کے قصے سناتی تھیں۔ کنپٹیاں سفید ہو گئیں مگر ان کہانیوں کا لطف باسی نہیں ہوا۔ آج میں سچ میں ایک جنگل میں کھڑا سن رہا تھا کہ آگے خطرہ ہے اور چند قدموں کے فاصلے پر پگڈنڈی کے پہلے موڑ پر چیتے موجود ہیں۔ گویاجنگل میں بچپن کی اک کتاب سی کھل گئی۔ ایسے لمحے زندگی کا حسن ہوتے ہیں۔ میں نے گہرا سانس لے کر ان لمحوں کو وجود میں اتارنے کی کوشش کی اور لکڑی کے بنے اس پراسرار سے برڈ واچنگ ٹاور، پر چڑھ کر بیٹھ گیا جہاں پچھلے سال کورونا کے دنوں میں گرمیوں کی کئی دوپہریں صرف پرندوں کا شور سننے کے لیے گزاری تھیں۔
ٹریل سکس پر سات چیتے کیمروں میں دیکھے گئے ہیں لیکن میرا خیال ہے یہ بہت زیادہ ہیں۔ مری سے آگے گلیات کے نواح کا ماحول اب ان کے لیے سازگار نہیں رہا۔ اور فیصل مسجد کے اس پار تلہاڑ تک یہ ایک وسیع و عریض وادی ہے جہاں نہ کوئی سڑک جاتی ہے نہ کوئی انسان۔ دامن کوہ کا شور بھی ایک طرف رہ جاتا ہے۔ ڈھوک جیون درے سے درہ کالنجر تک سکون ہی سکون ہے۔ اس جاڑے میں مارگلہ کے گائوں شاردا میں چیتوں نے کوئی حملہ نہیں کیا۔ پچھلے جاڑے میں تو امام مسجد کی گائے اور گائوں کی درجنوں بھڑ بکریاں کھا گئے تھے۔ چیتوں کا یہ سارا غول اب شاید ڈھوک جیون درے سے درہ کالنجر کے بیچ رہ رہا ہے۔ مارگلہ میں وائلڈ لائف کو جو گوشہ عافیت یہاں دستیاب ہے شاید اوپر کے جنگلات میں بھی نہ ہو۔
اسلام آباد شاید دنیا کا واحد دارالحکومت ہے جہاں شہر سے چند قدموں کے فاصلے پر ہرن، لومڑیاں، غورال اور چیتے اپنے قدرتی ماحول میں رہ رہے ہیں۔ وہ دوپہر مجھے اب بھی یاد ہے جب میں درہ جنگلاں پر ندی کے اُس پار چشمے کے ساتھ انجیر کے بوڑھے درخت کی چھائوں میں لیٹ گیا اورآنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو سامنے ایک حیرت کدہ تھا۔ چشمے کے پانی سے لومڑی پانی پی رہی تھی۔ میں نے بڑی احتیاط سے موبائل اٹھانے کی کوشش کی کہ اس کی ویڈیو بنا لوں لیکن اس کی چھٹی حس نے اسے خبردار کیا اور وہ ایک لمحے میں جست لگا کر جھاڑیوں میں اوجھل ہو گئی۔
یہیں ٹریل فائیو پر ہی میں نے صبح کے وقت ہرن دیکھا تھا۔ چیتوں کی قدیم گھپائوں والے موڑ پر اچانک ہی سامنے آیا، حیرت سے کان کھڑے کر کے دائیں بائیں نظریں مٹکا کر دیکھا اور بھاگ گیا۔ یہ سب ایک ہی لمحے میں اتنا اچانک ہوا کہ کہ جب تک میں اپنی حیرت سے سنبھلتا، ہرن غائب ہو چکا تھا۔
غورالوں کا تو ایک پورا غول ہم نے ڈھوک جیون ٹریل کے پہلو میں اوپر دوسرے پہاڑ کے نشیب کی ندی میں دیکھا جب ہم دوست مس مصرو کے گھر جا رہے تھے۔ بھورے رنگ کے غورال خشک ندی کی چھائوں میں سستا رہے تھے۔ ہم پاس پہنچے تو اٹھ کر بھاگ گئے۔ ان کا شکار بہت ہوا۔ مس مصرو کے ڈیرے پر کسی نے بتایا تھا کہ غورال نمک کا شیدائی ہوتا ہے۔ تلہاڑ کے پہاڑ سے شکاری اتر کر اس وادی میں آ کر نمک پھینکتے ہیں اور غورال نمک چاٹنے آتے ہیں تو مارے جاتے ہیں۔
غورال کا یہاں بڑی بے رحمی سے شکار ہوا۔ کہنے کو تو 1980ء میں مارگلہ کی پہاڑیوں کو نیشنل پارک قرار دے دیا گیا لیکن جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کچھ نہ کیا جا سکا۔ تلہاڑ اور ہزارہ کی طرف سے شکاری آتے اور غورال مار کر لے جاتے۔ 35 سال بعد 2015ء میں جا کر اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ بنایا گیا۔ اس کی افرادی قوت بھی محدود ہے۔ 2018ء میں اسی درہ کوانی میں، ٹریل سکس پر، وائلڈ لائف کے ایک اہلکار کا قتل ہو گیا۔ قاتل آج تک نہیں پکڑے جا سکے۔ البتہ وائلڈ لائف کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یہ قتل جنگل میں شکاریوں نے کیا تھا۔
ٹریل فائیو چونکہ ریڈ زون میں آتا ہے اس لیے وہاں سیکیورٹی بہت زیادہ ہے۔ رینجرز کے مسلح اہلکار بھی جنگل میں موجود ہوتے ہیں اور درہ جنگلاں ٹاپ پر بھی ان کی پوسٹ ہے اس لیے وہاں تو کوئی شکاری جانے کا تصور نہیں کر سکتا۔ لیکن ٹریل فور سے لے کر کالنجر ٹریل تک کا علاقہ صحیح معنوں میں جنگل ہے۔ یہ وادی اوپر جا کر کے پی کے سے ملتی ہے اور ادھر سے کوئی نیچے وادی میں اترے تو اسے چیک کرنے کا نہ کوئی انتظام ہے نہ وائلڈ لائف بورڈ کے پاس اتنی افرادی قوت ہے کہ پورے جنگل اور وادی کو مانیٹر کر سکے۔ ڈرون کیمروں کی مدد سے اس پوری وادی پر نظر رکھی جانی چاہیے کیونکہ یہ علاقہ وائلڈ لائف کے حوالے سے اب غیر معمولی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔
شروع میں لوگ یقین نہیں کرتے تھے کہ یہاں جنگلی حیات موجود ہے۔ جب مس مصرو نے بتایا کہ بوہڑ پر مچان بنا کر اس نے بندوق اس لیے لٹکا رکھی ہے کہ چیتے اس کے جانور کھا جاتے ہیں تو مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا۔ میں نے سوچا تھا یہ بوڑھی اماں ہمیں ڈرا رہی ہیں کہ تا کہ ہم ادھر نہ آیا کریں۔ پھر جب غورال، لومڑی اور ہرن اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے تو یقین آگیا۔ البتہ دوست احباب غیر یقینی کی کیفیت ہی سے دوچار رہے کہ بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ آج کے زمانے میں کوئی جنگل میں جائے اور اس کی آنکھ لگ جائے اور وہ نیند سے جاگے تو سامنے چشمے پر لومڑی پانی پی رہی ہو۔
فطرت کا یہ حسن مگر ان پر کیسے کھل سکتا ہے جو دن بارہ بجے تک سوئے پڑے رہتے ہیں۔ جنگل تو ان پر کھلتا ہے جو جنگل سے پیار کرتے ہوں۔ ٹریل سکس البتہ بند ہے کیونکہ درہ کوانی میں چیتے آ گئے ہیں۔ مارگلہ میں پرانے زمانے لوٹ آئے ہیں۔