Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Turkey Ki Afghanistan Mein Kya Dilchaspi Hai?

Turkey Ki Afghanistan Mein Kya Dilchaspi Hai?

ترکی نے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد افغانستان میں اپنے فوجی دستے رکھنے کی پیش کش کی ہے۔ سوال یہ ہے ترکی کو افغانستان میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ ترکی مسلم دنیا کی ایک قابل قدر قوت ہے، جو روز بروز بہتری کی طرف گامزن ہے، اسے احساس ہونا چاہیے کہ کسی مس ایڈ ونچر سے اجتناب اس کے لیے کتنا ضروری ہے۔

تاویلات ہزاروں تراشی جا سکتی ہیں اور ان میں سے بعض بالکل درست بھی ہو سکتی ہیں اور ان کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا یہ کہ ترک افواج صرف کابل ائیرپورٹ تک محدود رہنا چاہتی ہیں، یہ کہ وہ برادر اسلامی ملک کی افواج ہوں گی، یہ کہ انہوں نے آج تک کسی فوجی آپریشن میں حصہ نہیں لیا اور یہ کہ افغانستان میں ترکی کا اثر و رسوخ آخری تجزیے میں پاکستان کے لیے معاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن یہ ساری تاویلات مل کر بھی اس سوا ل کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ جب امریکی افواج کا انخلاء ہو رہا ہے تو وہ کون سے اعلی و ارفع مقاصد شریعہ ہیں جن کے حصول کے لیے ترکی نیٹو کے بازوئے شمشیرزن کے طور پر افغانستان میں فوجی دستے رکھنے کی پیش کش کر رہا ہے؟

ترکی مسلم دنیا کا ایک اہم ملک ہے۔ اس میں خیر کی غیر معمولی قوت ہے۔ ممکن حد تک بین الاقوامی سیاست میں اس نے اپنا وزن مسلمانوں کے پلڑے میں ڈالا ہے۔ اس کی معاشی ترقی اور استحکام کا علم یہی رہا تو کچھ بعید نہیں آنے والے وقتوں میں وہ مسلم دنیا کے لیے مزید مفید کردار ادا کر سکے۔ لیکن اگر وہ اس مرحلے پر مسلم دنیا کی کسی داخلی کشمکش کا ایندھن بن گیا تو یہ ایک ایسا حادثہ ہو گا جو ہر اعتبار سے ایک سانحہ کہلائے گا۔

کیا ترکی کو معلوم نہیں کہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں مرکزی نکتہ امریکی افواج کی موجودگی نہیں بلکہ غیر ملکی افواج کی موجودگی تھا؟ دوستم وغیرہ سے ترکی کے جیسے بھی تعلقات ہوں، اس کے دستے کا شمار بحرحال غیر ملکی افواج ہی میں ہو گا۔ سوال وہی ہے: افغانستان میں فوجی دستے کی تعیناتی کے مقاصد کیا ہیں اور اس سے اعلائے کلمۃ الحق کی جد و جہد میں کتنے مربع میل کی پیش قدمی متوقع ہے؟ خیال ِ خاطر احباب کے پیش نظر اس سوال کو فی الوقت موخر کر دیتے ہیں کہ ترکی ایسے ہی دو چار دستے غزہ اور مغربی کنارے میں تعینات کرنے کی پیش کش کیوں نہیں کرتا؟ اس کے تو اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی ہیں۔ ایک قومی ریاست کے طور پر اپنے اہداف کا حصول ہر ملک کا حق ہے لیکن خالصتا جذبہ اسلامی کے تحت پاکستان میں جو لوگ نیشن سٹیٹ اور امت میں امتیاز تو کیا توازن بھی قائم نہیں رکھ پاتے ان کے لیے اس میں غوروفکر کا بہت سامان موجود ہے۔

برصغیر کا مسلمان تھوڑا جذباتی ہے۔ خود سے ناراض اور دوسروں پر فدا۔ اپنی کوئی خوبی اسے نظر نہیں آتی اور دوسرے کی کوئی خامی وہ دیکھ نہیں پاتا۔ ہمارے معاشرے میں سٹریٹیجک ان روڈز، اتنی نمایاں ہوتی جا رہی ہیں کہ توجہ نہ دی گئی تو فالٹ لائنز بن جائیں گی۔ پاکستان کی ہر حکومت کو ہمارے ہاں ہر دور میں مشکوک قرار دیا گیا۔ لیکن طیب اردوان کا ترکی اسرائیل سے تعلقات رکھنے کے باوجود ایک مثالی ملک قرار پاتا ہے جس کی ہمارے ہاں آہیں بھر بھر کر مثالیں دی جاتی ہیں کہ آہ کاش ہمارے حکمران بھی ایسے ہوتے۔ وہ فرانس سے تعلقات بڑھائیں یا امریکہ سے، وہ سرخرو ہیں۔ وہ نیٹو کا حصہ بنیں یا نیٹو کو پیش کش کریں کہ مشترکہ اہداف کے لیے ہمیں افغانستان میں تعینات کیا جائے وہ عزیمت کا استعارہ ہیں اور امت کے مشعل بردار۔ یہ کیا معاملہ ہے؟

پاکستانی معاشرے کے دودھ کے دانت اب گر جانے چاہییں اور اسے اس بات کی سمجھ آ جانی چاہیے کہ " امت" کیا ہے اور " نیشن سٹیٹ" کے تقاضے کیا ہیں۔ جب تک یہ نفسیاتی گرہ کھول کر منطقی اندا زسے ہر دو تصورات میں توازن قائم نہیں کیا جاتا اس سماج کا فکری استحصال ہوتا رہے گا۔ ترکی کا تازہ ہدف ترک قوم اور ترک ملک کی ہر ممکن سطح پر بالادستی ہے۔ یہ ظاہر ہے ہر ملک کی طرح اس کا حق ہے۔ ان سطور کا مخاطب کسی دوست ملک کی خارجہ پالیسی نہیں اپنے سماج کی سادہ لوحی ہے۔

افغانستان میں ترکی کے تعلقات دوستم سے ہیں۔ ماضی میں مختلف جرائم کے الزامات کے تحت دوستم کے خلاف کارروائی ہونے لگی تھی، جب ترکی نے اسے پناہ دی۔ یہ چیز افغانستان میں ترکی کے اثر کو محدود کرتی ہے اور اس مرحلے پر شاید طالبان ترک فوجی دستوں کا وہاں رہنا پسند نہ کریں۔ ترکی کی افواج افغانستان کی مستقبل کی قیادت کی اجتماعی رضامندی سے آئیں تو بات اور ہو جائے گیا اور وہ ایک قابل قدر کام قرار پا سکتا ہے لیکن اس مرحلے پر ترک فوجی دستوں کا افغانستان آنا مناسب نہیں ہو گا۔

ترقی کی منازل طے کرتے ترکی کو بین الاقوامی سیاست میں ایسا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے، جس میں عمومی خیر خواہی ہو لیکن ایسے کردار سے اجتناب کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں مسلم دنیا کی کسی بھی داخلی کشکمش میں اس کا تاثر ایک فریق کا بن جائے۔ افغانستان میں اس موقع پر، جب غیر یقینی کی کیفیت ہے اور کچھ معلوم نہیں آگے جا کر کیا ہو گا، ترکی کے دستوں کا آ جانا اسی خطرے کو بڑھا دے گا۔ اس سے اجتناب ضروری ہے۔

افغانستان میں دستوں کی پیش کش بطور نیٹو ملک کے امریکہ کو کرنے کی بجائے یہ پیش کش مسلمان ملک کے طور پر نئی افغان حکومت کو کی جائے تو اس کی معنویت میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے۔ نیز یہ کہ افغانستان کی خیر خواہی محض وہاں فوجی دستوں کی تعیناتی میں نہیں ہے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں تعاون میں بھی پنہاں ہیں۔ تعلیم و ثقافت کے میدان بھی موجود ہیں۔ ترکی وہاں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran