عمر ایوب صاحب تحر یک ا نصاف کی ترجمانی ضرور کریں لیکن اللہ کے ترجمان نہ بنیں۔ دادا کی پوتی کی طرح، دادا کے پوتے کا بھی حق ہے کہ وہ سیاست کرے لیکن یہ حق کسی کو نہیں کہ وہ سیاست کے نام پر اللہ کی ترجمانی کا فرض بھی ادا کرنا شرع کر دے۔
سیاست ایشوز پر ہونی چاہیے، مذہبی استحصال کی بنیاد پر نہیں۔ مذہب کے نام پر ہمارے ہاں سیاست میں ایک عام آدمی کا جتنا استحصال ہوا، یہ ایک تکلیف دہ باب ہے۔ تا ہم اس معاملے کو جس طریقے سے تحریک انصاف نے انسٹی ٹیوشنلائز کیا وہ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ اب تو وہ تشویشناک بھی ہوتا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف میں اگر کچھ لوگ ہیں جو اسے کلٹ کی بجائے ایک سیاسی جماعت سمجھتے ہیں تو انہیں عمر ایوب صاحب کو یہیں روک دینا چاہیے اور ان سے درخواست کرنی چاہیے کہ سیاست کو اس طرح کے اسلامی ٹچ دینے سے اجتناب فرمائیں۔
تحریک انصاف کو ووٹ ملے اور حیران کر گئے۔ لیکن اس کی جو شرح عمر ایوب بیان کر رہے ہیں دلیل اور مذہب کی دنیا میں یہ شرح اجنبی ہے۔ وہ اگر یہ کہتے کہ یہ اللہ کا کرم اور فضل ہے تو یہ درست بات ہوتی اور شکر گزاری کے باب میں لکھی جاتی۔ لیکن جس قطعی لہجے میں وہ خبر دے رہے ہیں کہ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا اور فرشتوں نے حکم کی تعمیل میں لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ تحریک انصاف کو ووٹ دیے جائیں، یہ بات اہل علم کو دعوت فکر دے رہی ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی اور اس پر گرفت نہ کی گئی تو یہ آگے چل کر اس معاشرے کے لیے کوئی بہت بڑا امتحان بھی بن سکتی ہے۔ سب کچھ لکھنے کی بات نہیں ہوتی، بس تھوڑے کہے کو بہت جانیے اور اس رویے پر غور فرمائیے۔
عمر ایوب صاحب کو کس نے خبر دی ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو ایسا کوئی حکم دیا؟ فرشتوں نے اگر اس حکم کی تعمیل میں لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ تحریک انصاف کو ووٹ دیا جائے تو جو اتنا ووٹ تحریک انصاف کے خلاف پڑا ہے ان ووٹرز کے دلوں میں یہ بات کیوں نہ ڈالی گئی؟ کیا تحریک انصاف کو ووٹ نہ دینے والوں کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے اور وہ سب کے سب دھتکار دیے گئے ہیں؟ اگر تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا حکم اللہ کی طرف سے آیا تو جنہوں نے تحریک انصاف کو ووٹ نہیں دیا ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ صرف گناہ گار قرار پائیں گے یا گمراہی سے بہت آگے کے کسی گڑھے میں گرے پڑے شمار ہوں گے؟ کیا عمر ایوب خان صاحب کو معلوم بھی ہے کہ کسی ایک گروہ کی مدد کے لیے اللہ کا فرشتوں کوحکم دینے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ میں یہاں پھر وہی عرض کروں گا کہ ہر بات لکھنے کی نہیں ہوتی اور تھوڑے لکھے کو بہت سمجھا جائے اور اس رویے پر غور فرمایاجائے۔
مذہب کی بنیاد پر نیم خواندہ سماج کے سیاسی استحصال کی ہمارے ہاں مختلف شکلیں موجود رہی ہیں۔ بھٹو صاحب کے خلاف جب قومی اتحاد بنا تو سید مودودی جیسی بڑی شخصیت نے اسے غزوہ تبوک سے تشبیہہ دے ڈالی اور اسے خیر اور شر کا معرکہ قرار دے دیا۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں تھا اور یہ خیر اور شر کی کوئی ایسی جنگ نہ تھی کہ غزوہ تبوک سے نسبت دی جاتی۔ یہ ایک مسلمان ملک کے اندر اقتدار کے حصول کا معرکہ تھا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
اسی طرح بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں اسلامی جمہوری اتحاد بنا تو ایک بار پھر قوم کو باور کرایا گیا کہ یہ اسلام کی خاطر ہونے والا ایک معرکہ ہے۔ پورا انتخابی معرکہ اسلام اور اسلام دشمن قوتوں کے درمیان مقابلے کے بیانیے پر استوار کیا گیا اور ہماری پوری ایک نسل نفرت کے اس الائو میں جھونک دی گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بھی درست نہ تھی۔ یہ محض مذہب کا سوئے استعمال تھا۔
متحدہ مجلس عمل بنی تو انتخابی نشان کتاب کے پیچھے پوری فکری ہنر کاری موجود تھی۔ مختلف علاقوں سے اس ہنر کاری کے مظاہر اب بھی سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ کیسے بعض مقامات پرکتاب کے اس انتخابی نشان کو قرآن سے نسبت دی جاتی رہی۔ یہاں تک کہ سیاسی مخالفین نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ کتاب کے اوپر اے، بی، سی یا الف، ب، پ ہی لکھ دیا جائے یا کم از کم یہ کتاب بند حالت میں نہ ہو بلکہ کھول دی جائے اور اس پر کچھ بھی لکھا ہوتا کہ ووٹر کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ قرآن نہیں ہے، محض ایک کتاب ہے اور اس انتخابی نشان کو ووٹ دینایا نہ دینا کوئی دینی مسئلہ نہیں ہے۔ جس ملک میں شعوری سطح کا عالم یہ ہے کہ مسلم لیگ ن الیکشن کمیشن سے باقاعدہ درخواست دے کر کہے کہ بلی کا انتخابی نشان ختم کر دیا جائے کیونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ لوگ بلی کو شیر سمجھ کر مہر نہ لگاآئیں اور شیر کے ووٹ ضائع نہ ہو جائیں وہاں کتاب کے انتخابی نشان کے ساتھ جڑے مسائل قابل فہم ہیں۔
یہی کام ضیاء الحق صاحب نے بھی کیا۔ ریفرنڈم خالصتا کشمکش اقتدار کا ایک کھیل تھا لیکن اسے نفاذ اسلام کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور سوال کچھ یوں مرتب کیا گیا کہ اگر آپ نفاذ اسلام چاہتے ہیں تو بس پھر اس کا مطلب ہے کہ آپ ضیاء الحق صاحب کو صدر پاکستان بنا رہے ہیں۔
اب یہ ہنر کاری تحریک انصاف میں سمٹ آئی ہے اور یوں سمٹ آئی ہے کہ خوف زدہ کر دیتی ہے۔ ٹی وی چینل پر ایک بچے کی وہ گفتگو تو سب کو یاد ہوگی جس میں وہ محترمہ شوکت خانم کے فضائل بیان کرتے ہوئے ایسی بات اور ایسا تقابل کر گیا کہ اسے نقل کرتے ہوئے بھی خوف خدا سے آدمی کے ہاتھ کانپ جاتے ہیں لیکن نہ کسی نے اس بچے کو ٹی وی پر روکا نہ ہی بعد میں تحریک انصاف کے کسی رہنما نے معذرت کی یا اس کی نفی کی۔ یہ محض ایک بچے کی بات نہ تھی، بعد کی خاموشی بتا تی ہے کہ یہ ذہن سازی کی شعوری ابلاغی مہم کا حصہ تھا۔
یہ کوئی ایک دو مظاہر نہیں، یہ ایک طویل سلسلہ ہے۔ اول اول ہم جیسوں نے اس رویے کو شدت جذبات سمجھ کر نظر انداز کیا۔ پھر ہم خوش گمانوں نے دل کو تسلی دی کہ یہ جوش جنوں کی بے احتیاطی ہے۔ پھر خود کوسمجھایا کہ یہ کلٹ ہے اور نادانی میں یہ نوجوان مبالغے کی انتہا کو چلے جاتے ہیں۔ لیکن اب خوش گمانی مزید تاویلات تراشنے سے قاصر ہے۔ تاویلات تراش تراش کر اب تھکاوٹ ہونے لگی ہے۔ کس کس حرکت کی تاویل تلاش کی جائے؟ اب دیوار دل پر اندیشے، خوف اور پریشانی دستک دے رہے ہیں۔
دادا کی پوتی ہو یا دادا کا پوتا، سیاست سب کا حق ہے لیکن سیاست قومی ایشوز پر ہونی چاہیے، لوگوں کے مذہبی جذبات کے استحصال پر نہیں۔ داداکے پوتے سے البتہ یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ جب دادا نے ملک میں آئین پامال کرکے پہلا مارشل لا لگایا تھا تو یہ بات دادا کے دل میں فرشتوں نے ڈالی تھی یا شیاطین نے؟