یہاں سب کو سیاست سوجھی ہے اور عدم اعتماد کے سوا کہیں کوئی موضوع نہیں ملتا۔ اُدھرایک ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے، پنجاب کے کالجز کے اساتذہ اپنے جائز اور قانونی حق کی خاطر لاہور سیکرٹریٹ میں احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھے ہیں لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ نہ حکومت کو، نہ معاشرے کو اور نہ ہی با خبر میڈیا کو۔ اس معاشرے کو اب کیا کسی آئن سٹائن کی ضرورت ہے تو آ کر بتائے کہ عزیز ہم وطنو! تمہاری ذلت اور رسوائی کے اسباب کیا ہیں؟
پنجاب کے یہ لیکچرار خواتین و حضرات باقاعدہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے کر لیکچرار بنے۔ پانچ سال کے عارضی کنٹریکٹ کی مدت مکمل ہونے کے بعد انہیں مستقل کر دیا گیا۔ مستقل کرتے وقت انہیں پے پروٹیکشن دی گئی کہ آپ کی سنیارٹی اور مدت ملازمت کا تعین ا س دن سے ہو گا جس دن سے آپ نے پہلی بارملازمت جائن کی تھی۔ یہ چار بیجز تھے، جنہیں کنٹریکٹ پر لے کر مستقل کیا گیا۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد جب بھی تعیناتی ہوئی مستقل بنیادوں پر ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تعیناتی کا طریقہ کار، معیار، امتحان ایک جیسا ہی تھا۔
ان چار بیجز کے ساتھ اچانک شہباز شریف صاحب کے دور میں یہ کیا گیا کہ ان کو باقاعدہ دی گئی پے پروٹیکشن ایک حکم نامے کے ذریعے چوری چھپے و اپس لے لی گئی اور حکم نامے کو خفیہ رکھا گیا تا کہ شور بھی نہ مچے۔ لیکچرار حضرات کھڑے کھڑے پانچ سال جونیئر ہو گئے۔ ان میں سے کچھ ترقی پا کر اسسٹنٹ پروفیسر بنے تو معلوم ہوا تنخواہ بڑھنے کی بجائے پچیس تیس ہزار کم ہو گئی ہے کیونکہ ان کی ملازمت کے پانچ سال ووٹ کو عزت دینے چلے گئے ہیں۔
اساتذہ لاہور ہائی کورٹ چلے گئے۔ ستمبر 2015میں ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ اساتذ ہ کا موقف درست ہے اس لیے انہیں پے پروٹیکشن دی جائے۔ پنجاب حکومت اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ لیکچرارز کی اسامیوں کی نوعیت جب مستقل تھی تو حکومت کو یہ حق ہی نہیں تھا کہ انہیں کنٹریکٹ پر تعینات کرتی۔ جب تعیناتی کا معیار ایک سا تھا تو ملازمت ایک جیسی ہونی چاہیے تھی۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے جون 2016میں پنجاب حکومت کے موقف کو رد کر دیاا ور حکم دیا کہ اساتذہ کو پے پروٹیکشن دی جائے۔
ستمبر 2016 میں پنجاب سروس ٹریبیونل نے کہا کہ حکومت نے عارضی ملازمت کی مدت دو سال کی بجائے پانچ سال کیسے رکھ لی؟ ٹریبیونل نے یہ بھی کہا کہ پانچ سال کی عارضی ملازمت کے بعد جب آپ نے اساتذہ کو مستقل کیا تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپ نے انہیں نئے سرے سے ملازمت دی۔ یہ اسی ملازمت کا تسلسل سمجھاجائے گا۔ اور پہلے والے پانچ سال بھی ان کی مجموعی مدت ملازمت کا حصہ تصور ہوں گے۔
ان فیصلوں کے باوجود ن لیگ کی پنجاب حکومت نے اساتذہ کی تنخواہوں میں کٹوتی شروع کر دی اور جو تنخواہیں مل چکی تھیں ان کی ریکوری بھی شروع کر دی۔ یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ ہم صرف ووٹ کو عزت دیتے ہیں کسی عدالتی فیصلے کو نہیں۔ اس فیصلے کو البتہ سکولوں کی حد تک تسلیم کر لیا گیا لیکن کالجز میں اس فیصلے کی تعمیل نہیں کی گئی۔ اس دوران لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ نے بھی فیصلہ سنا دیا کہ پے پروٹیکشن کی واپسی کا فیصلہ درست نہیں تھا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ اس دوران حکومت نے S & GAD کے ملازمین کو کنٹریکٹ کے بعد جب مستقل کیا تو انہیں پے پروٹیکشن دے دی اور ان کی ملازمت کا دورانیہ مستقل ہونے والے دن کی بجائے پہلے دن کی تعیناتی سے شروع کیا۔ یہی اصول PPLA اور HED کے ملازمین پر بھی لاگو کیا گیا۔ لیکن اساتذہ عدالتی فیصلوں کے باوجود اپنا حق نہیں لے سکے۔
سوال یہ ہے کہ اساتذہ کو ان کا جائزاور قانونی حق کیوں نہیں مل رہا؟ یہاں عالم یہ ہے پارلیمان میں حکومت ختم ہونے سے چند گھنٹے پہلے سپیکر صاحبہ بیٹھتی ہیں اور اپنے لیے ہوشربا مراعات کا فیصلہ کر لیتی ہیں۔ بالادست طبقات کی مراعات ختم ہونے میں نہیں آ رہیں۔ بیوروکریسی کے اللے تللے تو ایسے ہیں جیسے یہ ملک ان کے آبائو اجداد نے فتح کیا ہو۔ امریکی صدر کا وائٹ ہائوس 146 کنال پر پھیلا ہے اور سرگودھا کے کمشنر بہادر کا سرکاری محل 104 کنال کا ہے۔
پارلیمان کی اپنی مراعات کا عالم یہ ہے کہ بندہ پڑھنے لگے تو سر پیٹ لے۔ بنیادی تنخواہ کے علاوہ یہ بارہ ہزار سات سو روپے کا اعزازیہ لیتے ہیں۔ سمچوری الائونس کے نام پر انہیں پانچ ہزار ملتا ہے۔ آٹھ ہزار روپے آفس مینٹیننس کے لیے دیے جاتے ہیں۔ دس ہزار کا فون الائونس ہے۔ پندرہ ہزار کا ایڈ ہاک ریلیف ہے۔ تین لاکھ کے سفری وائوچرز یا بانوے ہزار کیش ملتا ہے۔ اسلام آباد کے پچیس ریٹرن ٹکٹ دیے جاتے ہیں۔
پارلیمانی لاجز میں رہائش کے باوجود ہائوسنگ الائونس ملتا ہے۔ ڈیلی الائونس کے چار ہزار آٹھ سو الگ سے ملتے ہیں۔ موجودہ اور سابق تمام اراکین اسمبلی اور ان کے اہل خانہ کے لیے تاحیات 22 ویں گریڈ کے برابر میڈیکل ملتا ہے۔ تمام سابق اور موجودہ اراکین پارلیمان اور ان کے شوہرا ور اہلیہ تو تاحیات بلیو پاسپورٹ دیا جاتا ہے۔ وغیرہ، وغیرہ۔ لیکن اساتذہ اپنا حق مانگنے لگیں تو فیصلہ سازوں کو کالی کھانسی، تپ دق اور تشنج جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہونے لگتی ہیں۔
لاہور میں ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے سڑک پر بیٹھے ان اساتذہ سے بالٓاخر بیوروکریسی کے اعلی بابو لوگوں نے ملاقات کی تو روایت ہے کہ طعنہ دیا۔ طعنہ یہ تھا کہ آپ اتنی تھوڑی سی تعداد میں احتجاج کر رہے ہیں۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ان کی ہر دلیل کا جواب تھا لیکن اس دلیل کا جواب نہیں تھا۔ اساتذہ کی بات درست ہے ایسی دلیل کا جواب کوئی دے بھی کیا سکتا ہے۔
بیوروکریسی کے اس رویے کا سماجی مطالعہ ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کسی سرکاری ملازم کا جائز مطالبہ ماننے کے لیے محض قانون اور اخلاق کی دلیل کافی ہے یا اب شہر میں یہ رسم بن چکی ہے کہ جس نے اپنا مطالبہ تسلیم کروانا ہے وہ ایک جتھہ لے کر آ جائے۔ کیوں کہ فیصلہ ساز لاتوں کے وہ بھوت ہیں جو دلیل اور بات کو نہیں مانتے؟ کیا اساتذہ سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی پنجاب بھر کی سڑکیں جام کر دیں یا مولانا فضل الرحمن کی طرح ملک بھر کی سڑکیں بند کرنے کا کوئی اعلان کریں یا پھروزیر داخلہ جناب شیخ کی طرح رجز پڑھیں کہ پورے ملک میں آگ لگا دوں گا، تو پھر ان کی بات سنی جا سکتی ہے؟
کسی مطالبے کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا یہ نیا منصوبہ سماج کے لیے کتنا تباہ کن ہو سکتا ہے کیا بیوروکریسی اور فیصلہ سازوں کو اس کا اندازہ ہے؟ فیصلہ ساز اور ان کے بابو لوگ اپنی مراعات تو دونوں ہاتھوں سے یوں سمیٹتے ہیں جیسے یہ قومی خزانے کی بجائے ان کو میراث میں آئی ہیں لیکن اساتذہ کو ان کی جائز مراعات دیتے وقت یہ ان کی کانپیں ٹانگ، جاتی ہیں۔