جنگل میں جب ایک موسم چپ چاپ رخصت ہو رہا ہوتا ہے اور دوسرا موسم دبے پائوں اتر رہا ہوتا ہے تودل کی دنیا بھی جنگل کی طرح کچھ عجیب سی ہو جاتی ہے۔ اس کیفیت کو چرواہا سمجھ سکتا ہے یا کوئی آوارہ گرد۔ جنگل میں موسم اچانک نہیں بدلتا، یہ لمحہ لمحہ محسوس کرنے والا ایک عمل ہوتا ہے۔ جانے والا موسم ہاتھ تھام کر ندی کے اس پار تک لے جاتا ہے اور آنے والا موسم وادی کی وسعتوں میں آپ سے لپٹ جاتا ہے۔ ایک لمحہ آتا ہے اداس کر جاتا ہے، ہنستے ہنستے چپ لگ جاتی ہے، پھر ایک ساعت آتی ہے سرشار کر جاتی ہے۔ یہ بالکل پہلی محبت جیسا تجربہ ہوتا ہے، نہ سرشاری سمجھ میں آتی ہے نہ اداسی کا بھید معلوم ہو پاتا ہے۔
جاڑے کا جنگل یاجنگل کا جاڑا، کچھ خبر نہیں دونوں میں زیادہ حسین کون ہے۔ پوہ ماگھ میں جب ان دونوں پر پورے چاند کی رات اترتی ہے تو حیرتوں میں خمار گندھ جاتا ہے۔ موسم بدل رہا ہو اور کسی کو جنگل، صحت اور فراغت، تینوں میسر ہو ں تو سمجھ لیجیے خدا آپ پر مہربان ہے۔ اس رت میں ندی کے ساتھ جانے والی پگڈنڈی پر، اوپر پہاڑ پر کی چوٹی کے ساتھ پھیلی وادی میں کوئی چرواہا آپ کا دوست ہوتو جان لیجیے خدا آپ پر بہت مہربان ہے اور وہ چراہا باتونی بھی ہو اور اسے یخ بستہ رات میں بانسری کے سر بکھیرنے آتے ہوں تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ خدا آپ پر بہت ہی مہربان ہے۔
چرواہے، ان کے ریوڑ، جھونپڑی، جنگل اور بانسری یہ سب چیزیں یا تو خدا نے جاڑے میں بنائی ہوں گی یا پھرجاڑے کے لیے بنائی ہوں گی۔ مارگلہ کا ہر موسم ہی میر کا دیوان ہے پر جب جاڑا اترنے لگتا ہے تو شام سے کچھ پہلے جنگل کو کچھ ہو جاتا ہے۔ یہ کسی گیانی کی طرح گیان میں چلا جاتا ہے۔ جنگل کی پگڈنڈیوں سے رازو نیاز کرتے میری عمر کا ایک پہر بیت چکا لیکن میں جنگل کی اس کیفیت کو آج تک نہیں سمجھ پایا۔
جاڑے میں دن ڈھلنے لگتا ہے تو جیسے جنگل مجھے آوازیں دیتا ہے۔ پورے چاند کی رات میں جھیل سیف الملوک کے کنارے بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ سمجھ نہیں آتی تھی یہ جھیل ہے جو آدمی کو اپنی طرف کھینچتی ہے یا جھیل میں تیرتا چاند ہے جو آوازے لگاتا ہے۔ کچھ ناغے ہو جائیں تو طبیعت بوجھل ہونا شروع ہو جاتی ہے، بے چینی، اضطراب۔ آرام مگر اس وقت ہی آتا ہے جب شام جنگل اور مجھ پر اکٹھے اترے۔ وجود ہلکا ہو جاتا ہے جیسے من کی بیٹری چارج ہو جائے۔
شام کے وقت جنگل میں ہر چیز تھم جاتی ہے۔ سوائے چڑیوں کے۔ ان کے شور سے پوری وادی گونج پڑتی ہے۔ آج تک جان نہیں پایا یہ خوشی میں شور مچاتی ہیں یا پریشانی میں۔ یہ شاید انہیں خود بھی معلوم نہ ہو۔ جاڑے کا جنگل اور جنگل کا جاڑا دونوں بھید ہیں۔
مارگلہ کے درہ کوانی میں جہاں ندی کا پاٹ چوڑا ہوتا ہے اور کھجور کا جھنڈ ہے، وہاں شام ڈھلے تیندوے آتے ہیں اور ہرن بھی۔ یہیں دو بڑے بوڑھے درخت ہاتھ تھامے کھڑے ہیں۔ ایک روز جب میں و ائلڈ لائف والوں کے ساتھ اس درے میں گیا کہ شاید کوئی تیندوا نظر آ جائے تو انہوں نے بتایا اس درخت کے اوپر ہم ایک ہٹ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کوئی یہاں رات بسر کرنا چاہے تو اس کا انتظام ہو گا۔ معلوم نہیں یہ منصوبہ ابھی تک زیر غور ہے اور اس پر کام ہو رہا ہے یا نہیں لیکن اگر ایسا ہو جاتا ہے تو میرے جیسوں کا ٹھکانہ تو پھر یہی ہٹ ہو گا۔
یخ بستہ رات میں اس گھنے جنگل پر جب پورے چاند کی رات اترے گی اور چاندنی درختوں کے پتوں سے چھن چھن کر نیچے چشمے اور ندی کے پانی میں نہائے گی تو یہ کسی پرستان جیسا منظر ہو گا۔ لیکن جو منظر اوپر عابد چرواہے کی جھونپڑی میں آگ تاپتے نظر آتا ہے جب نیچے ساری وادی چاندنی میں نہا جاتی ہے، اس جیسا نظارہ بھلا کہاں مل سکتا ہے۔
جاڑاداستان گو ہے۔ یہ موسم کہانیاں سننے اور سننانے والوں کا موسم ہے۔ ایک سخت گیر منتظم کی طرح وہ چرواہے کو مجبور کر دیتا ہے کہ شام سے کچھ پہلے ہی جانور باڑے میں بند کر دے۔ اس کے بعد بانسری ہوتی ہے، قہوہ ہوتا ہے اور کہانی ہوتی ہے۔ ہاں مگر جب شام ڈھلتی ہے تو اس وقت صرف خاموشی اچھی لگتی ہے۔ راول جھیل کی جانب سے اڑتے پرندوں کے ڈار مارگلہ کے اوپر سے شاہ اللہ دتہ کی طرف اڑتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بات بھی معلوم نہیں ہو سکی کہ پرندے صبح مشرق کی طرف کیوں جاتے ہیں اور شام ڈھلتی ہے تو ان کا رخ مغرب کی جانب کیوں ہوتا ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں، اگر اے حمید زندہ ہوتے، میں انہیں ساتھ لے آتا، ہم درہ کوانی میں ندی کنارے چلتے چلتے وادی عبورکرتے اور اوپر چرواہے کی جھونپڑی میں بیٹھ جاتے، ہمارے سامنے اداس پہاڑوں پر سورج غروب ہو جاتا اور پھر ٹھٹھرتی وادی چاندنی میں نہا جاتی۔ اے حمید پھر کتنا ہی عرصہ رنگون کی نہیں، مارگلہ کی کہانیاں لکھتے۔
شدید جاڑے میں جانور بھی دبک جاتے ہیں۔ لیکن بدلتے موسم میں ان کی شوخیاں جنگل کو مہکا دیتی ہیں۔ ان دنوں ہلکی ہلکی سردی ہے۔ اوپر پہاڑ پر سر شام خنکی بڑھ جاتی ہے۔ جھونپڑے سے نکل کر چشمے کی طرف بڑھیں تو راستے میں نین مٹکاتی لومڑیاں دوڑتی پھرتی ہیں۔ حیرت اور معصومیت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی ہیں اور بھاگ جاتی ہیں۔ کبھی موبائل سے ان کی تصویر بن جاتی ہے اور کبھی اس کا موقع نہیں ملتا، وہ پہلے ہی بھاگ جاتی ہیں۔
دل پر مگر ساری تصاویر نقش ہیں، جنگل کیٹ، لیپرڈ کیٹ، غورال، لومڑیاں، دیوار دل پر کئی تصاویر آویزاں ہیں۔ ہم جس بے رحمی سے فطرت کو تباہ کر رہے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ وہ وقت بہت قریب ہے جب یہ کہانیاں پڑھ کر ہمارے بچے حیران ہوا کریں گے کہ یہاں اسلام آباد میں، اس جنگل میں تیندوے، لومڑیاں، غرال، لیپرڈ کیٹ موجود ہوتے تھے۔ معلوم نہیں ہمارے بچے وہ سب دیکھ پائیں گے جو ہم دیکھ رہے ہیں یا ان کے لیے یہ سب کچھ محض ایک کہانی بن کر رہ جائے گا۔
سب کچھ اپنے ہاتھ سے گنوا کر پھر ہماری آئندہ نسلیں بیٹھ کر یہ کہانیاں پڑھیں گی۔ پرانے وقتوں کی کہانیاں، جب مارگلہ میں ندیاں بہتی تھیں اور چشمے پھوٹتے تھے اور لومڑیاں بھاگتی تھیں اور غورال پھرتے تھے اور تیندوے ہوتے تھے اور ہرن دوڑتے پھرتے تھے۔ پرانے وقتوں کی بات ہے، کیا بھلا سا وقت تھا۔
اترتے جاڑے کی شام میں، جب بھی جنگل میں جا کر بیٹھتا ہوں، دور وادی کے کسی گھر سے چولہے سے دھواں اٹھتا ہے، پھر گائوں یاد آتا ہے، پھرماں یاد آتی ہیں۔ معلوم نہیں جاڑے کا جنگل اداس کر دیتا ہے یا شانت کر دیتا ہے۔ جاڑے کا جنگل تو صدیو ں کا بھید ہے۔ یہ کب کسی پر لمحوں میں کھلا ہے۔