میں ولی اللہ معروف سے نہیں ملا، لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ ولی اللہ معروف اس معاشرے کا حقیقی ہیرو ہے۔ ہمارا مقامی اور اصلی ہیرو۔ کیا آپ اسے جانتے ہیں یا آپ نے بھی سوشل میڈیا پر سیاست اور کرکٹ سے ہی دامن کو آلودہ کر رکھا ہے۔
ولی اللہ معروف جو کوئی بھی ہے، سچ میں اللہ کا ولی ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال تو کوئی اس سے سیکھے۔ یہ بچھڑوں کو ملاتا ہے۔ میں چندسا ل سے اس نوجوان کوسوشل میڈیا پر فالو کر رہا ہوں اور مجھے اس نوجوان سے محبت ہوگئی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کرتا کیا ہے۔
ولی اللہ معروف سادہ سا آدمی ہے۔ یہ ایسے لوگوں کو تلاش کرتا ہے جو اپنوں سے بچھڑ گئے، انسانی سمگلنگ کا شکار ہو کر پاکستان پہنچ گئے اور غربت اور مجبوریوں اور مسائل نے پھر کبھی ان کو ان کے اپنے وطن لوٹنے کی اجازت نہ دی۔ یہ وہ بوڑھی مائیں اور عمر رسیدہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ تیس چالیس سال پہلے وہ ڈھاکہ یا دہلی سے روزگار کے لیے نکلے اور پھر وقت نے انہیں ایسا پٹخا کہ بھٹکتے بھٹکتے پاکستان آ پہنچے۔ انہیں کچھ خبر نہیں ہوتی گھر سے نکلتے وقت جو ننھی بیٹیاں چھوڑ آئے تھے وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ ان کے اہل خانہ کو بھی معلوم نہیں ہوتاکہ یہ لوگ زندہ ہیں یا مر گئے۔
ولی اللہ معروف ایسے لوگوں کو تلاش کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کے انٹرویو چلاتا ہے۔ وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی یادداشت کے ذریعے بتاتے ہیں وہ کون تھے کہاں سے آئے۔ پھر ایک وقت آتا ہے یہ انٹرویو ان کے اہل خانہ میں سے کوئی دیکھ لیتا ہے اور وہ پہچان لیتا ہے یہ تو ان کی ماں تھی یا ان کا باپ تھا جو برسوں پہلے روزگار کے لیے نکلا یا اغوا ہوا اور لوٹ کر نہ آیا۔ اس شناخت کے بعد وہ ان لوگوں کے پاسپورٹ اور ویزے تیار کرواتا ہے، ان کے لیے ٹکٹ کا بندوبست کرتا ہے اور وہ لوگ اپنے ملک اپنے پیاروں کے پاس لوٹ جاتے ہیں۔ ایک یا دو نہیں یہ سینکڑوں لوگ ہیں جو اللہ کے اس ولی کی وجہ سے اپنے پیاروں کے پاس پہنچے۔ وہ ساون برساتی آنکھوں کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں اور ولی اللہ کے لئے دعائوں کے انبار چھوڑ جاتے ہیں۔ میں یہ مناظر دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں اس نوجوا ن سے خوش قسمت بھی کوئی ہوگا؟
تازہ ترین ویڈیو آج کی ہے۔ یہ کراچی ائیر پورٹ کا منظر ہے۔ ایک بوڑھی خاتوں کے ساتھ اللہ کا یہ ولی کھڑا ہے۔ خاتووں بنگلہ دیش روانہ ہو رہی ہے اور یہ اس بوڑھی ماں کو الوداع کہنے آیا ہے۔ وہ تفصیل بتاتا ہے کہ چمن آراء نامی یہ خاتون کراچی سے ڈھاکہ جا رہی ہے جہاں وہ 53 سال بعد اپنے خاندان سے ملیں گے۔ غور فرمائیے یہ 53 سال کا وچھوڑا تھا جو اس نوجوان نے ختم کیا۔ کیا کیا جتن کرکے اس نے اس خاتون کے اہل خانہ کو تلاش کیا، پھر ان کی فون پر بات کرائی، پھر ویڈیو چیٹ ہوئی اور اب وہ ماں 53سال بعد اپنوں سے جا کر ملے گی۔ کسی میں ہمت ہے تو ماہ و سال کے اس ہجر کا حساب لگانے کی کوشش کرکے دیکھ لے۔ تصور سے ہی دل لہو ہو جاتا ہے۔
ولی اللہ بتاتے ہیں کہ جب یہ خاتون ڈھاکہ سے روزگار کے لیے ادھر آئی تھی تو اس کی تین سال کی ایک بیٹی تھی۔ اس وقت یہ متحدہ پاکستان تھا۔ پھر قیامت ٹوٹ پڑی اور خاتون آج تک واپس نہ جا سکی۔ ولی اللہ نے اس کے اپنوں کو تلاش کیا اس سے بات کروائی۔ بنگلہ دیش ہائی کمیشن سے ویزہ لے کر دیا اورآج وہ رخصت ہوگئی ڈھاکہ میں اس کے اپنے اس کے منتظر تھے۔ سفر کے اخراجات بھی اس نوجوان نے ادھر ادھر سے مانگ کر پورے کیے۔ کیونکہ حکومتیں لاتعلق ہیں اور انسانی حقوق سول سوسائٹی والوں کا دھندا بن چکا ہے۔
ایک آمنہ خاتون خاتون ہیں۔ ولی اللہ بتاتے ہیں کہ الحمدللہ اس خاتون کو بھی دہائیوں بعد ملوایا۔ انکی خوش قسمتی کہ انکے ماں باپ دونوں زندہ ہیں۔ آمنہ بنگلا زبان بھول چکی ہے۔ ایک اور خاتون کا نام نور جہاں ہے۔
ولی اللہ لکھتے ہیں کہ نور جہاں کی داستان نہایت ہی دل دہلانے والی ہے۔ انکو کافی عرصہ قبل انکی ان دو بیٹیوں سے ملوایا تھا جو تقسیم بنگال کے وقت دو تین سال کی عمر میں بچھڑ گئی تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ 71 کی جنگ میں انکے پانچ بیٹے ایک ساتھ شہید ہوئے تھے۔ شوہر بھی اسی جنگ کی نظر ہوا تھا۔ بیٹوں کے صدمے سے ذہنی توازن بھی کافی عرصہ خراب رہا۔ نفسیاتی ہسپتال میں داخل رہی۔ نور جہاں نے دوسری شادی کراچی میں ایک بلوچ شخص سے کی۔ خود فیکٹریوں میں کام کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالا۔ کئی بار لوگوں نے انکو بنگلادیش میں گمشدہ بیٹیوں سے ملوانے کے نام پر پیسے کھائے۔ ان کو اور ان کی بیٹیوں کو ملوانے کی داستان نہایت ہی دلچسپ ہے۔ انکا کیس مجھے ایسے لگا جیسے پراسرار ہاتھوں نے جبراً یہ کام مجھ سے کروایا ہو۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ کافی عرصہ قبل نور جہاں میرے گھر آئی، اور اپنی داستان سنائی۔ 71 میں اپنے 5 بیٹوں کے ایک ساتھ فٹبال گراؤنڈ میں شہید ہونے کا بتایا۔ ان دنوں حمیدہ بانو کا کیس نیانیا حل ہوا تھا میڈیا پر اس کے چرچے چل رہے تھے۔ نور جہاں کی باتیں سن کر میں نے ان سے کہا کہ ابھی آپ جائیں حمیدہ بانو کا مسئلہ چل رہا ہے جیسے ہی یہ معاملہ ٹھنڈا ہو آپ کے کیس پر کام کریں گے۔ ان کی باتیں کچھ سخت تھیں تو ٹھیک سے مطمئن نہیں تھا کہ اس کیس میں کام کریں۔ یہ چلی گئی۔ دو تین ماہ بعد بنگلادیش کے نمبر سے ایک میسج موصول ہوا۔ جس میں ایک خاتون نے نہایت دکھ بھری باتیں کی تھیں۔ اپنی ماں سے ملنے کی شدید تڑپ تھی۔ کچھ تصاویر بھیجیں۔ نام وغیرہ سب سینڈ کئے۔
کسی زمانے میں انہوں نے بیٹیوں کے نام خط بھیجا تھا اس میں کراچی لانڈھی کا ایڈریس تھا۔ میں نے فیس بک پر پوسٹ لگائی۔ لانڈھی کا لکھا۔ اس علاقے تک بات پہنچ گئی۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ بیس سال قبل یہاں سے شفٹ ہوچکی ہیں۔ ملیر گئی ہیں۔ میں نے ان کی جوانی کی تصویر پر جب غور کیا اور نام سنا سنا سا لگ رہا تھا تو جس پڑوسی (انکے دوسرے شوہر کے عزیز) کے توسط سے ہمارے گھر آئی تھی انکو بلاکر تصویر دکھاکر کہا کہ بنگلادیش سے کسی نے یہ بھیجی ہے انکی تلاش ہے۔ یہ وہی آپ والی بنگلادیشی خاتون تو نہیں؟ انہوں نے دیکھتے ہی کہا جی بالکل یہ نور جہاں ہے۔
کچھ بھارت کے ہیں کچھ بنگلہ دیش کے۔ درد کی داستانیں ہیں کہ کیسے کیسے لوگ بچھڑ گئے اور حقوق انسانی کے اس دور میں بھی کوئی ان کا ہاتھ تھامنے والا نہیں۔ انسانی المیے نظر انداز ہوئے پڑے ہیں۔ ایسے میں ایک ولی اللہ ہے جو مسیحائی کر رہا ہے۔ میرے جیسے عام شہری کے پاس ولی اللہ کے لیے خراج تحسین اور دعائوں کے سوا کچھ نہیں۔ وہ جو کر رہا ہے اس کا اجر صرف اس کا رب ہی اسے دے سکتا ہے۔ یہ ہمارا مقامی ہیرو ہے۔ حقیقی ہیرو۔