یہ تو طے ہوا کہ عمران خان ازبکستان کو ازبکستان والوں سے زیادہ جانتے ہیں لیکن سوال یہ ہے عمران خان ازبکستان کو کتنا جانتے ہیں۔ ان کے دورے کے دوران کیے گئے ٹویٹس میں چنگیزخان کا ذکر تو موجود ہے لیکن اس پورے دورے میں کہیں سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کا انہوں نے بھولے سے بھی ذکر نہیں کیا، ازبکستان کی لوک داستانیں جسے مینگو باردی کہتی ہیں، یعنی ہمیشہ زندہ رہنے والا، اور جس کی بہادری کے قصے وہاں کی مائیں اپنے بچوں کو لوری میں سناتی ہیں۔ کیا وزیر اعظم کو معلوم ہے کہ جلال الدین خوارزم شاہ کے کچھ ایسے حوالے پاکستان میں موجود ہیں جو نہ صرف دو ممالک کو مزید قریب لا سکتے ہیں بلکہ پاکستان میں سیاحت کے غیر معمولی امکانات پیدا کر سکتے ہیں؟
ازبکستان میں جلال الدین مینگو باردی کو ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ اسے جلال الدین ہزار مرد کہا جاتا ہے۔ یعنی ایسا بہادر جو ہزار مردوں کے برابر ہو۔ کچھ سال پہلے خوارزم شاہ کی پیدائش کی ہزار سالہ تقاریب ازبکستان میں سرکاری سرپرستی میں منعقد کی گئیں جس میں دنیا بھر سے وفود نے شرکت کی۔ ازبکستان کے چھ شہروں میں سلطان کے مجسمے لگے ہیں۔ وہاں کے نصاب میں سلطان جلال الدین کا ذکر پوری وارفتگی کے ساتھ موجود ہے۔ ابک شاعر سیف الدین نے لکھا تھا کہ جب ہم اپنے قبیلے کے بہادروں کا ذکر کرتے ہیں تو ہم سلطان جلال الدین کا ذکر نہیں کرتے کیونکہ ہم جانتے ہیں جہاں بہادری ختم ہوجاتی ہے وہاں سے سلطان کی عملداری شروع ہوتی ہے۔ وزیر اعظم اگر ازبکستان کی تاریخ جانتے ہیں تو یہ کیسے ہوا کہ اس دورے میں ان امکانات کا کوئی ذکر نہیں جو شیر خوارزم کی نسبت سے پاکستان میں موجود ہیں۔
کیا جناب وزیر اعظم کو معلوم ہے کہ ازبکستان کی لوک داستانوں کے ہیرو سلطان جلال الدین کی چنگیز خان سے آخری لڑائی موجودہ پاکستان میں ہوئی تھی۔ بنی گالہ سے محض ایک گھنٹے کی مسافت پر۔ تین ہزار گھڑ سواروں کا مقابلہ چنگیزخان کے دو لاکھ کے لشکر سے تھا۔ گلوبل کرونالوجی آف کانفلیکٹ کے مصنف نے لکھا کہ جلال نے چنگیز خان کے لشکر کے قلب کو ادھیڑ ڈالا تھا لیکن چنگیززکو ستر ہزارسواروں کی کمک آن پہنچی۔ میجر ریوٹی نے لکھا ہے کہ سلطان جب گھیرے میں آگیا تو اس نے گرفتاری دینے کی بجائے گھوڑے سمیت دریائے سندھ میں چھلانگ لگا دی۔ یہ اتنا خطرناک قدم تھا کہ چنگیز خان کو تعاقب میں گھوڑا دریا میں ڈالنے کی ہمت نہیں ہو سکی۔ وہ حیرت سے خوارزم شاہ کو دیکھتا رہا اور پھر ا س نے اپنے سالاروں سے کہا: جس ماں نے جلال الدین جیسا بہادر پیدا کیا اسے فخر کرنا چاہیے۔
یہ واقعہ ا ور یہ مقام ازبک اور فارسی لوک داستانوں اور مصوروں کا موضوع رہا۔ رحیم گوگوک اور امر اللہ بلخی جیسے مصوروں نے اس کی منظر کشی کی۔ وزیر اعظم نے جس تقریب میں ازبکستان سے اپنی آگہی کا دعوی فرمایا وہیں یہ بھی کہہ دیا ہوتا ہے کہ جس واقعے پر آپ نے لوک داستانیں بنائیں اور جس مقام کو آپ کے تخیل نے مصوری سے امر کر دیا وہ ہمارے پاکستان میں واقع ہے اور ہم نے صدیوں پرانے اس واقعے کو بھلایا نہیں ہے بلکہ ہم آج بھی جلال الدین ہزار مرد کی نسبت سے اس جگہ کو " گھوڑا ترپ" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
سلطان جلال الدین یہاں سے نکلے تو کلر کہار کے قریب ثمر قند کے مقام پر پناہ لی۔ روایت ہے کہ ادھر بھی چنگیزخان کے جاسوس جا پہنچے تو سلطان نے خوشاب کے قلعہ تلاجھہ میں پناہ لے لی۔ یہ قلعہ نہیں حیرت کدہ ہے۔ قدرتی پہاڑوں پر مشتمل اس کی فصیلیں ہیں۔ چنگیز خان پورا لشکر لے کر بھی آ جاتا تو جلال الدین پر قابو نہ پا سکتا۔ اسی قلعہ سے سلطان جلال نے اپنی طاقت کو از سر نو جمع کیا، نئی فتوحات حاصل کیں۔ اور پھر ایک دن یہاں اپنا گورنر تعینات کر کے واپس تاتاریوں سے نمٹنے روانہ ہو گیا۔
کیا ہی اچھا ہوتا جناب وزیر اعظم اس تقریب میں بتاتے کہ کہ جس وادی سون میں، میں شکار کرنے جاتا تھا، اسی وادی سون کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تاتاریوں کے مقابل مسلم دنیا کی آخری چٹان اور ازبک ہیرو سلطان جلال الدین کو تین سال اس نے پناہ دی۔ وزیر اعظم نے بتایا ہوتا کہ آئیے اپنے ہیرو کا " گھوڑا ترپ" دیکھنے پاکستان آئیے اور تلاجھہ کا وہ قلعہ بھی دیکھیے جہاں جلال الدین نے تین سال قیام کیا۔ وزیر اعظم صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ تلاجھہ ا ور گھوڑا ترپ، یہ دو مقامات اگر سیاحت کے اعتبار سے بحال کر دیے جائیں تو ازبکستان سے ترکی تک سیاحت کے امکانات کو اپنا مخاطب بنا سکتے ہیں۔
خوارزم شاہ پر کافی لوگوں نے لکھا لیکن جس طریقے سے نسیم حجازی نے اپنے ناول آخری چٹان میں جلال الدین کے کردار کو امر کر دیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس ناول کا اگر ازبک زبان میں ترجمہ کرا لیا جائے اور اس کے نسخے ازبکستان روانہ کیے جائیں تو باہمی تعلقات کی ایک نئی دنیا آباد ہو سکتی ہے۔ جس محبت سے ایک پاکستانی ناول نگار نے جلال الدین پر لکھا ہے، کاش ہمیں کچھ خبر ہو کہ یہ ایک ناول سفارت کاری کی دنیا میں کیا کچھ کر گزرنے کی اہلیت اور طاقت رکھتا ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے ہماری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، تصور کیجیے کہ اسے پڑھ کر ازبکستان والوں کا کیا حال ہو گا؟
وزیر اعظم صاحب کے بارے میں یہ خیال کرنا سوئے ادب ہو گا کہ وہ تلاجھہ قلعہ، گھوڑا ترپ، ثمر قند قلعہ، اور حتی کہ خود جلال الدین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ وہ تو تاریخ کے طالب علم ہیں اور ازبکستان کی تاریخ ازبکوں سے بہتر جانتے ہیں۔ انہیں یہ تو معلوم ہی ہو گا کہ ازبکستان کی تاریخ جلال الدین کے بغیر ادھوری ہے اور جلال الدین کی نسبت سے پاکستان میں سیاحت کے غیر معمولی امکانات موجود ہیں۔
بس اتنا ہے کہ کوئی جاننے والا ہو اور کوئی بتانے والا ہو۔ کبھی کبھی تو حیرت ہوتی ہے ہمارے سفارت خانے کر کیا رہے ہیں؟