یہ پورے چوبیس سال ادھر کی بات ہے جب اسلام آباد نوجوان تھا۔ شاہراہ دستور پر کوئل بولا کرتی تھی اور بلیو ایریا میں سر شام چڑیوں کا شور ہوتا تھا۔ آصف پلازہ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا ہاسٹل ون تھا جہاں گرمیوں کے موسم میں ہم صبح سڑک پر کرکٹ کھیلتے تھے اور بارہ اوورز کی اننگز میں ایک آدھ بار ہی ایسا ہوتا تھا کہ کوئی گاڑی گزرے اور ہمیں کھیل روکنا پڑے۔ آج تو ایسی خاموشی اور سکون کا تصور ہی ممکن نہیں لیکن اس زمانے کے حسن کا عالم یہ تھا کہ اس ہاسٹل کو پر شور ہاسٹل کہا جاتا تھا اور سکون، سکوت اور فطرت کے دلدادہ طالب علم اسے نا پسند کرتے تھے۔ ایک روز میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کی لائبریری میں بیٹھ کر کتاب پڑ رہا تھا۔ معلوم نہیں یہ کس کی کتاب تھی لیکن اس کا ایک فقرہ آج بھی نہیں بھولا۔ لکھا تھا : "مظاہرین راولپنڈی میں فیض آباد کے مقام پر جمع ہوتے جہاں سے مقبوضہ کشمیر کے پہاڑ صاف نظر آتے ہیں، وہ گلمرگ کے ان پہاڑوں کی طرف اشارہ کر کے کہتے : لے کے رہیں گے آزادی"۔ ایف سکس میں پالیسی سٹڈیز کے دفتر کی دوسری جانب پبلک ٹرانسپورٹ کا سٹاپ تھا۔ میں نے کتاب وہیں رکھی اور فیض آباد چلا آ یا۔ بہت دیکھا، بہت بار دیکھا اور بہت غور سے دیکھا، مارگلہ کے پہاڑ تو نظر آ رہے تھے اور ان سے پیچھے کوہ مری کی ایک دو چوٹیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں لیکن گلمرگ کے حسین پہاڑ کہیں نظر نہ آئے۔ کئی سال یوں بیت گئے کہ جب بھی فیض آباد سے گزرتا نظریں گلمرگ کے پہاڑوں کے تلاش میں اٹھ جاتیں لیکن کبھی مجھے یہ پہاڑ نظر نہ آ سکے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آلودگی بڑھتی گئی اور حد گناہ سکڑتی گئی۔ اب تو عالم یہ ہے کہ دو بوندیں برس جائیں تو حد نگاہ تھوڑی بہتر ہو جاتی ہے ورنہ آلودگی نے سارا حسن گہنا دیا ہے اور فیض آباد سے مارگلہ کا سلسلہ کوہ ہی ڈھنگ سے نظر آ جائے تو بڑی غنیمت ہے۔ کرونا وائرس سے احتیاط اپنی جگہ لیکن آدمی آخر کتنے دن گھر میں قید رہ رہ سکتا ہے۔ دو دن کی بارش کے بعد آج دھوپ نکلی اور موسم نکھر سا گیا۔ گھر کے ساتھ برساتی ندی بہہ رہی ہے اور دوسری جانب جنگل ہے جہاں سے رات گئے گیدڑوں کی آوازیں آتی ہیں اور خانہ دل میں تسکین سی اتر جاتی ہے۔ درختوں کے جھنڈ سے آج صبح دم کوئل کی آواز آ رہی تھی۔ یہ سندیسہ بہار ہے کہ مارگلہ میں بہار اتر رہی ہے اور سبزے پر پھولوں کی سیج سج رہی ہے۔ کوئل کی موسیقی سنتے سنتے پہاڑوں پر نظر پڑی۔ کیا منظر تھا۔ اجلے نکھرے پہاڑ گویا آواز دے رہے تھے۔ پہاڑ بلائیں تو کون نہ جائے؟
گھر سے نکل کر پارک روڈ پر آیا تو دم بخود رہ گیا۔ ایسی نکھری فضا، ایسی خاموشی، نیلے آسمان میں بادلوں کی چند ٹولیاں اور مارگلہ کا حسنِ بے نقاب۔ روش روش پہ پھول، ہر سو سبزہ، لہلاتے درخت، کرونا وائرس نہ ہوتا تو میں اس موسم کا سہرہ کہتا۔ اتنے حسین موسم میں اتنا اداس منظر، کسی نے سچ کہا تھا : موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے۔ انقرہ پارک کی دھوپ میں کتنی ہی دیر بیٹھ کر میں یہی سوچتا رہا کہ کرونا نہ ہوتا، تب ایسا موسم ہوتا اور میں ہوتا تو کیا ہوتا۔ کرونا وائرس نے فطرت کا حسن تو بڑھا دیا تھا لیکن اس کا کوئی کیا کرے جو موسم انسان کے اندر ہوتا ہے۔ سپر مارکیٹ میں آج کافی لوگ موجود تھے۔ ہل ویو روڈ پر گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہ تھی۔ میڈیکل سٹور کے باہر لمبی لائن لگی تھی۔ کچھ ادویات لینا تھیں لیکن ہجوم دیکھ کر ارادہ بدل لیا۔ باہر نکلا تو مارگلہ کا پہاڑ سامنے تھے اور میں گویا اس کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ پہاڑ کی دہلیز تک آ کر کے واپس لوٹ جانا کتنا مشکل ہوتا ہے یہ وہی جانتے ہیں جنہوں نے پہاڑوں سے عشق کیا ہو۔ مجھے یاد آیا پچھلے سال اسی موسم میں، وہ کیسے سہانے دن تھے، میں ٹریل فائیو پر پہاڑ کے اندر دور تک چلا جایا کرتا تھا۔ بدلتے موسم کی نیم گرم دوپہر بوہڑی کے چشمے کے پہلو میں لگے برگد کے نیچے گزار دینا کتنی بڑی نعمت تھی۔ نعمتوں کا احساس ہمیں تب ہوتا ہے جب وہ چھن جائیں یا چھن جانے کا ڈر پیدا ہو جائے۔ ٹریل فائیو سنا ہے بند کر دیا گیا ہے لیکن میں نے گاڑی کا رخ ٹریل فائیو کی طرف کر دیا۔ ریڈ زون کی دہلیز پر آج پہلی بار سوال ہوا کہاں جا رہے ہیں؟ گھر بیٹھے بور ہو گیا ہوں ٹریل فائیو کو دیکھنے جا رہا ہوں۔ جواب کی سادگی تھی یا سنتری لوگ مائل بہ کرم تھے، اجازت مل گئی۔ ٹریل فائیو کا حسن تو ہمیشہ ہی فسوں پھونکتا ہے لیکن آج تو اس کے انداز ہی اور تھے۔ داخلی راستے پر واقع برگد کے بوڑھے درخت کے آس پاس پرندوں کی چیچہاہٹ کا وہ عالم تھا گویا سارے جنگل کے پرندے برگد پر آن بیٹھے ہوں۔ ندی رواں تھی اور اس کا صاف پانی مسحور کیے جا رہا تھا۔ عام حالات میں یہ منظر اس قابل تھا کہ یہاں پورا پہر بتا دیا جاتا لیکن کرونا وائرس نے حسن و شادابی کے معانی ہی بدل دیے۔ یاد آیا وبا کے دن ہیں، اور میں لوٹ آیا۔ اسلام آباد کلب سے آگے راول چوک پر گھر کی جانب مڑا تو سامنے انقرہ پارک اور راول جھیل تھی۔ یاد آیا جھیل کو جاتی پگڈنڈی پر میٹھے توت کا ایک درخت تھا۔ توت کی تلاش میں نکلا تو جھیل پر جا پہنچا۔ بہار کی صبح ہو، گرمیوں کی دوپہر یا سردیوں کی شام، جھیل پر میں نے ہر موسم کے رنگ دیکھ رکھے ہیں لیکن جھیل میں اترا ایسا فسوں میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اتنی اجلی اور نکھری جھیل، یوں لگ رہا تھا مصور نے ابھی ابھی تصویر بنائی ہو۔ مرغابیوں کی اکا دکی ٹولیاں جھیل میں تیر رہی تھیں۔ اچانک ایک مرغابی اڑی اور اس کے ساتھ پوری ٹولی ہی فضا میں بلند ہو گئی۔ ان کے ساتھ میری نگاہ بھی اٹھی اور آسمان کی وسعتوں میں کھو گئی۔ ایک حیرت کدہ میرے سامنے تھا۔
جھیل سے نگاہ اٹھی تو سامنے جنگل تھا، جنگل سے نظر اٹھی توسامنے مارگلہ کا پہاڑ تھا، لیکن مارگلہ کے پہاڑ سے آگے یہ کون سا پہاڑ تھا؟ یہ پہاڑ میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اتنا پر شکوہ، برف سے ڈھکا، یہ کوہ مری بھی تو نہ تھا، یہ کیا تھا؟ یہ مقبوضہ کشمیر کا پہاڑ تھا۔ یہ گلمرگ کا پہاڑ تھا۔ وہی پہاڑ جس کے اس پار سری نگر ہے۔ چوبیس سال پہلے جس پہاڑ کو میں تلاش کرنے فیض آباد آیا تھا لیکن فضائی آلودگی نے اسے اوجھل کر چھوڑا، وہ پہاڑ اس وقت میرے سامنے تھا۔ کرونا کے خطرات اپنی جگہ، کرونا نے عشروں سے مسلط فضائی آلودگی ختم کر دی ہے۔