لوگ آٹے کی ایک ایک بوری کے لیے جان سے گزر رہے ہیں اور سیاسی اشرافیہ نت نیا تماشا لگا کر داد وصول کرتی ہے۔ کوئی استعفے دے رہا ہے اور کوئی استعفی قبول کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے اس غیر سنجیدہ تماشے کا بوجھ غریب عوام کیوں اٹھائے۔
اسمبلی بجٹ کے مطابق پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس کا اوسط خرچ چھ کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پارلیمان میں یہی کچھ ہونا ہے تواشرافیہ کی اس تفریح کا خرچ عوام کیوں برداشت کرے؟
قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کی دفعہ 5 کے مطابق صرف ایک چوتھائی اراکین بھی موجود ہوں تو کورم پورا تصورکیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم اکثر یہ خبر پڑھتے ہیں کہ کورم ٹوٹ گیا اور اجلاس ملتوی ہوگیا۔ سابقہ اسمبلی کے 74 فیصد اجلاس کا عالم یہ تھا کہ ان میں حاضری ایک چوتھائی سے بھی کم تھی۔
بنیادی تنخواہ کے علاوہ 12 ہزار سات روپے کا اعزازیہ، سمپچوری الاؤنس کے پانچ ہزار، آفس مینٹیننس الاؤنس کے آٹھ ہزار روپے، ٹیلی فون الاؤنس کے دس ہزار روپے، ایڈ ہاک ریلیف کے 15 ہزار روپے، تین لاکھ روپے کے سفری واؤچرز یا 92 ہزار روپے کیش، حلقہ انتخاب کے نزدیک ترین ایئر پورٹ سے اسلام آباد کے لیے بزنس کلاس کے 25 ریٹرن ٹکٹ، اس کے علاوہ الگ سے کنوینس الاؤنس کے دو ہزار، ڈیلی الاؤنس کے چار ہزار آٹھ سو، اور ہاؤسنگ الاؤنس کے دو ہزار۔ اس سب کے بعد کارکردگی کیا ہے؟
کیا اتنی بھاری مراعات انہیں اس لیے دی جاتی ہیں کہ یہ روز ایک نیا طوفان کھڑا کر دیں اور روز ایک نیا نان ایشو لے کر عوام کی کمر دہری کر دیں۔ ایوان کی بے توقیری دیکھیے راجہ ریاض صاحب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے امور ہیں جن میں انہیں حکومت وقت سے اختلاف ہے؟ یہ سچ مچ میں قائد حزب اختلاف ہیں یا حکومت نے خالی خانہ پُر کریں، کے اصول پر انہیں وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف کے منصب پر فائز کر رکھا ہے؟
سپیکر صاحب کی دیانت کا یہ عالم ہے کہ اب تک حزب اختلاف کے استعفے اس اصول کی بنیاد پر قبول نہیں کیے گئے کہ جب تک ہر رکن قومی اسمبلی الگ الگ پیش ہو کر استعفی کی تصدیق نہیں کرے گا اس کا استعفی قبول نہیں کیا جا سکتا اور اب اچانک اپنے ہی اصول سے انحراف کرتے ہوئے عجلت میں استعفے قبول کر لیے گئے۔
ادھر حزب اختلاف کی سنجیدگی دیکھیے کل قومی اسمبلی سے اس لیے استعفی دیا کہ وزیر اعظم کو گھر بھیجنا تھا اور آج اسی قومی اسمبلی میں واپس آ رہی ہے کہ قائد حزب اختلاف کو گھر بھیجا جا سکے۔ کہیں کوئی اصول کوئی ضابطہ کوئی اخلاقیات باقی نہیں رہی۔ عوام بھوک سے مر رہے ہیں اشرافیہ مزے کر رہی ہے۔ ہماری سیاست اس وقت عجیب سی افراتفری اور طوائف الملوکی کا منظر پیش کر رہی ہے اور دور دور تک اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ بہتری کی کوئی صورت نکل سکے۔ جس ہیجان اور غیر یقینی سے اس سیاست نے ملک کو دوچار کر رکھا ہے، اس کیفیت میں کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
معاشی بحران کیا صورت اختیار کرتا جا رہا ہے کسی کو پرواہ نہیں۔ مہنگائی کدھر جا رہی ہے کسی کو احساس نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو سیاسی اشرافیہ ہمارے اوپر مختلف عنوانات سے مسلط کی گئی ہے وہ غم روزگار سے بے نیاز ہے۔ اسے کیا معلوم غریب کے دکھ کیا ہوتے ہیں۔ یہ اشرافیہ مزے میں ہے اسے ان لوگوں کی پیاس کی کیا خبر ہوگی جنہیں ہر روز پیاس بجھانے کے لیے کنواں کھودنا پڑے۔
اہل سیاست کے ساتھ ساتھ اہل دانش بھی عوام کے حقیقی مسائل سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ دانشوری اب یہی ہے کہ اہل سیاست کے تماشوں پر رواں تبصرہ کر دیا جائے۔ میرے والا واہ واہ، تیرے والا آہ آہ۔ یا قصیدہ گوئی ہے یا ہجو۔ اس طوفان بد تمیزی کا نام دانشوری ہے۔ آج ہی کسی نے ایک تحریر بھیجی ہے مولانا روم سے پانچ سوال پوچھے گئے۔
پہلا سوال تھا: خوف کس شے کا نام ہے؟ کہا: غیرمتوقع صورتِ حال کو قبول نہ کرنے کا نام خوف ہے۔ اگر ہم غیر متوقع کو قبول کر لیں تو وہ ایک مُہِم جُوئی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
دوسرا سوال تھا: حَسَد کِسے کہتے ہیں؟ کہا: دوسروں میں خیر و خُوبی تسلیم نہ کرنے کا نام حَسَد ہے۔ اگر اِس خوبی کو تسلیم کر لیں تو یہ رَشک اور کشَف یعنی حوصلہ افزائی بن کر ہمارے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
تیسرا سوال تھا: غُصہ کس بلا کا نام ہے؟ جواب دیا: جو امر ہمارے قابو سے باہر ہو جائے۔ اسے تسلیم نہ کرنے کا نام غُصہ ہے۔ اگر کوئی تسلیم کر لے کہ یہ امر اُس کے قابو سے باہر ہے تو غصہ کی جگہ عَفو۔ درگذر اور تحَمّل لے لیتے ہیں
چوتھاسوال تھا: نفرت کسے کہتے ہیں؟ جواب دیا۔ کسی شخص کو جیسا وہ ہے ویسا تسلیم نہ کرنے کا نام نفرت ہے۔ اگر ہم غیر مشروط طور پر اُسے تسلیم کر لیں تو یہ محبت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
پانچواں سوال تھا: زہر کسے کہتے ہیں؟ جواب دیا۔ ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو "زہر" بن جاتی ہے خواہ وہ قوت یا اقتدار ہو۔ انانیت ہو۔ دولت ہو۔ بھوک ہو۔ لالچ ہو۔ سُستی یا کاہلی ہو۔ عزم و ہِمت ہو۔ نفرت ہو یا کچھ بھی ہو۔۔
پاکستان کی سیاست اور پاکستان کا معاشرہ اسی خوف، حسد زہر، نفرت اور غصے کے ہاتھوں یرغمال ہو چکے۔ کوئی کسی کے وجود کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ہر ایک کی خواہش ہے اس کے حریف کا ستیا ناس ہو جائے اور اس کی ہڈیوں کی راکھ بھی بہا دی جائے۔
کوئی کسی دوسرے کی کوئی خوبی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ نہ ہی کوئی اپنے میں کسی خامی کے امکان کو تسلیم کر رہا ہے۔ سب کا خیال ہے کہ صرف وہی گروہ قافلہ حق ہے جس سے وہ وابستہ ہے اور اس کا ہر سیاسی حریف شیطان کے گروہ کا ہراول ہے۔
اہل سیاست کی ان حرکتوں سے عوام میں بے زاری بڑھ رہی ہے۔ معاشرہ آ گے بڑھ چکا ہے۔ سیاست اپنے جوہڑ سے نکلنے کو ہی تیار نہیں، وہ پیچھے رہ گئی ہے۔ کلٹ، نفرت اور اندھی عقیدت نے ہر گروہ کو جکڑ رکھا ہے۔ یہ پارلیمانی سیاست ایک امتحان بنتی جا رہی ہے۔ لوگ زیادہ دیر تک اس بوجھ کو نہیں اٹھا سکیں گے۔ وہ اسے اتار کر پھینک دیں گے۔ اسی چیز سے ڈر لگتا ہے کہ عوام سیاست سے بے زار ہو گئے تو اس کا انجام کیا ہوگا۔