اسلام آباد کی نشست سے کون کامیاب ہو گا؟ یوسف رضا گیلانی یا حفیظ شیخ؟ اور اگر یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوتے ہیں تو اس کامیابی کے اثرات کیا سینیٹ تک ہی محدود رہیں گے یا عمران خان کی وزارت عظمی بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے؟
دستیاب ووٹوں کے اعتبار سے حفیظ شیخ کا پلڑا بھاری ہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ قانون اراکین پارلیمان کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ چاہیں تو اپنی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیں اور چاہیں تو کسی اور دے لیں ان پر کوئی پابندی نہیں۔ سپریم کورٹ کو بھیجے گئے صدارتی ریفرنس پر عدالت کی رائے سامنے آنے پر ہی واضح ہو سکے گا کہ انتخابات کی صورت گری کیا ہو گی لیکن فی الوقت جو قانونی پوزیشن ہے وہ یہی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں اگر کوئی رکن پارلیمان اپنی جماعت کے امیدوار کی بجائے کسی اور کو ووٹ دیتا ہے یا غیر حاضر رہنا پسند کرتا ہے تو اسے اس بات کی اجازت ہے اور ایسا کرنے پر اس پر ڈیفیکشن کلاز نہیں لگے گی۔ سیاسی اخلاقیات میں بھلے یہ بات عجیب لگتی ہو لیکن قانونی پوزیشن یہی ہے۔
نواز شریف صاحب نے چودھویں ترمیم میں یہ اصول طے کیا تھا کہ اراکین پارلیمان اگر کسی بھی مرحلے پر پارٹی رائے سے برعکس ووٹ دیں گے تو انہیں نا اہل قرار دے دیا جائے گا۔ پرویز مشرف صاحب کا دور آیا تو سترہویں ترمیم کے ذریعے اس اصول کو بدل دیا گیا اور قرار پایا کہ اراکین پارلیمان صرف چار مرحلوں پر پارٹی ہدایت کے مطابق ووٹ دینے کے پابند ہیں۔ تحریک اعتماد اور تحریک عدم اعتماد کے وقت، قائد ایوان کے انتخاب کے وقت اور بجٹ کے موقع پر اپنی پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دینا لازم ہو گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے موقع پر جب پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے آئین میں ترمیم کی تو آئین کے آرٹیکل 63 اے میں جزوی سی تبدیلی ضرور کی لیکن مشرف فارمولے کو نواز شریف فارمولے پر ترجیح دیتے ہوئے اسی طرح رہنے دیا۔ چنانچہ اب قانونی پوزیشن یہی ہے کہ اراکین پارلیمان اگر اپنی پارٹی کی ہدایات کے مطابق ووٹ نہیں دیتے تو ان پر ڈیفیکشن کلاز نہیں لگ سکتی اور انہیں نا اہل نہیں کیا جا سکتا۔
گویا ووٹوں کے ادھر اُدھر ہو جانے کی جب قانونی گنجائش موجود ہے تو اس کا امکان بھی موجود ہے۔ یہی امکان اس مقابلے کو دلچسپ بنا رہا ہے۔ یہ گنجائش قانون میں نہ ہوتی تو بہت واضح اور سادہ سا معاملہ ہو جاتا کہ حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں 180ووٹ ہیں اور حزب اختلاف کے پاس 160 تو اس لیے حکومت کا پلڑا بھاری ہے۔ اب چونکہ قانون میں اس بات کی آزادی ہے کہ جو جسے چاہے ووٹ دے اس لیے ہر طرف بے چینی ہے کوئی ہمارے ووٹ نہ لے اڑے۔
ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آئین میں تحریک عدم اعتماد کے موقع اپنی پارٹی ہدایات کے مطابق ووٹ دینے پر پابندی ہے ورنہ نا اہلی ہو سکتی ہے لیکن صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کے موقع پر حزب اختلاف کے ووٹ ادھر اُدھر ہو گئے اور کوئی نا اہل نہیں قرار دیا گیا۔ لیکن سینیٹ کے انتخاب میں مرضی سے ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے لیکن یہاں آرڈیننس لائے جا رہے ہیں کہ ووٹ ادھر اُدھر نہ ہو جائیں۔ یعنی معاملہ اصول کا نہیں بلکہ مفاد کا ہے۔
اسلام آباد کی نشست اس موقع پر زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے کیونکہ اسلام آ باد کی نشست پر اینیٹر کے انتخاب کا طریقہ کار الگ ہے۔ یہاں صرف قومی اسمبلی کے ووٹوں سے سینیٹر منتخب ہوتا ہے۔ یہاں سے اگر حکومتی امیدوار کو شکست ہوتی ہے تو یہ گویا قومی اسمبلی میں " منی عدم اعتماد" سمجھی جائے گی جو آگے چل کر عدم اعتماد کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔ یہی وہ پریشانی ہے جس نے خفیہ اور اعلانیہ ووٹنگ کی بحث کو جنم دیا۔
اگر قومی اسمبلی میں کوئی آدمی غیر حاضر نہیں رہتا تو جیت کے لیے 171 ووٹ درکار ہیں۔ حزب اختلاف کے پاس 160 اور حکومت کے پاس 180 ووٹ ہیں۔ یعنی حزب اختلاف کے گیارہ ووٹ کم ہیں۔ حکومت کے ووٹ بھی خالص حکومت کے نہیں۔ اس میں ق لیگ کے5 اور ایم کیو ایم کے 7 ووٹ بھی شامل ہیں۔ آزاد بھی ہیں اور باپ کے ووٹ بھی ہیں۔ کوئی بھی اپنی جگہ سے سرک گیا تو کھیل دلچسپ ہو جائے گا۔
یوسف رضا گیلانی کی رشتہ داریاں بھی ہیں۔ ان کے کچھ رشتہ دار ق لیگ اور کچھ پی ٹی آئی میں موجود ہیں۔ کیا وہ حفیظ شیخ کی خاطر یوسف رضا گیلانی کو انکار کر پائیں گے؟ ہماری سیاست میں یہ پہلو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ گیلانی نے تو یہیں رہنا ہے حفیظ شیخ کا کیا معلوم کس بہار میں کس شاخ پر ہوں؟
تحریک انصاف بھلے حکومت میں ہے لیکن اس پر عروج نہیں ہے۔ سیاست میں کچھ لوگ بڑے دور اندیش ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو میں جانتا ہوں جو پچھلے دور میں ن لیگ کے ایم این اے تھے لیکن اس وقت تحریک انصاف کے ایم این اے ہیں۔ وہ خاموش ہیں۔ ن لیگ کے خلاف کوئی بیان نہیں دیتے۔ ٹاک شوز میں بھی نہیں جاتے، بہانہ کر کے نکل جاتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ قابل غور ہے۔ کیا عجب کہ یہ لوگ اپنا ووٹ دوسری طرف ڈال آئیں۔
ایسے میں اگر اعلانیہ ووٹ کا کوئی راستہ نکل بھی آئے تو اس سے کیا ہو گا؟ ڈیفیکشن اور نا اہلی تو ہو نہیں سکتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ تحریک انصاف ان کے خلاف تنظیمی سطح پر کوئی کارروائی کرے گی۔ لیکن اگر ایسے اراکین خود فیصلہ کر چکے ہوں کہ اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کا ٹکٹ لینا ہی نہیں ہے تو شاید یہ تدبیر بھی کام نہ آئے اور دینے والے اپنا ووٹ اعلانیہ دوسرے پلڑے میں ڈال آئیں۔
اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ حزب اختلاف کے لوگ اپنا ووٹ حکومتی امیدوار کو نہ دے آئیں لیکن یہ بات بھی ماننے والی نہیں کہ یوسف رضا گیلانی جیسا سینیئر آدمی پیپلز پارٹی نے حفیظ شیخ سے ہروانے کے لیے میدان میں اتارا ہو اور کوئی پیش بندی نہ کی ہو۔ عام آدمی کے لیے البتہ اس سارے کھیل میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے مقدر میں تیرگی ہی ہے۔