پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہ ز رعی ملک گندم روس سے اور چینی اور کپاس بھارت سے خرید رہا ہے۔ پڑھیے اور سر پیٹ لیجیے کہ ان تین سالوں میں جتنی رقم ہم نے چین اور سعودی عرب سے قرض لی اس سے دگنی رقم ہم نے ایک ڈیڑھ سال میں چینی اور گندم خریدنے پر لگا دی۔
پاکستان کو اللہ نے 21 ملین ہیکٹر قابل کاشت زمین دے رکھی ہے اور توجہ کے ساتھ تھوڑی جدت کے ساتھ اس صلاحیت کو دگنا کیا جا سکتا ہے۔ اسرائیل اپنی خوراک میں خود کفیل ہو چکا ہے جب کہ اس کے پاس صرف 2 فیصد زمیں قابل کاشت ہے۔ ہماری 40 فیصد کے قریب قابل کاشت ہے لیکن اس کے باوجود ہم اربوں ڈالر کی گندم اور چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیل کا 60 فیصد صحرا ہے اور 40 فیصد بارانی جب کہ پاکستان کے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام اور اول درجے کی زرخیز زمین ہے اس کے باوجود عالم یہ ہے کہ اسرائیل ہر سال دس ارب ڈالر کی زرعی اشیاء دنیا کو فروخت کرتا ہے اور ہم دس ارب ڈالر کی چینی اور گندم وغیرہ خریدتے پھر رہے ہوتے ہیں۔
اسرائیل کی آبادی میں 10 گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اس کی بارشیں نصف رہ گئی ہیں۔ اس کے باوجود وہ مختصر سے بارانی رقبے سے اتنی پیداوار حاصل کر لیتا ہے کہ قریب قریب خود کفیل ہو چکا ہے۔ اسرائیل نے 12 فیصد کم پانی سے 26 فیصد زیادہ پیداوار حاصل کی ہے۔ اور ایک ہم ہیں کہ بارشیں بھی ہیں، دریا بھی ہیں نہریں بھی ہیں اور زرخیزز مین کی بھی کمی نہیں۔ اس کے باوجود ہر سال خوراک کا بحران ہماری دہلیز پر دستک دے رہا ہوتا ہے۔
اسرائیل کا زرعی پیداوار کا تناسب اس کی آبادی میں اضافے کے تناسب سے 3 گنا زیادہ ہے پھر بھی وہ اپنی ضروریات پوری کر رہا ہے اور ہم جو کبھی گندم چینی اور کپاس دنیا کو فروخت کیا کرتے تھے، آج اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ صرف اس مد میں خرچ کر رہے ہیں کہ بھوک سے نہ مر جائیں اور دو وقت کی روٹی وقت پر ملتی رہے۔ اسرائیل کی ورک فورس کا صرف 3 اعشاریہ 7 فیصد زراعت سے وابستہ ہے اور وہ پھر بھی اپنی غذائی ضروریات پوری کر رہا ہے لیکن پاکستان کے کسان کل ورک فورس کا 43 فیصد ہیں لیکن پھر بھی ہم اپنی غذائی ضروریات پوری نہیں کر پا رہے۔
اسرائیل میں ایک بھی زرعی یونیورسٹی نہیں ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی، ہبریو یونیورسٹی، بن گوریان یونیورسٹی، ویز مین انسٹی ٹیوٹ میں صرف اتنا کیا گیا ہے کہ زراعت پر تحقیق کے لیے شعبہ جات قائم ہیں۔ ان شعبہ جات کی کار کردگی مگر حیران کن ہے۔ ہم نے زرعی یونیورسٹی فیصل آبادبنا رکھی ہے اور بارانی یونیورسٹی بھی لیکن کمالات یہ ہیں کہ بارانی یونیورسٹی میں قانون اور صحافت کے شعبے کھول دیے گئے اور فیصل آباد یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس اور جانے کون کون سے شعبے قائم کر دئیے۔
این اے آر سی کے نام سے اسلام آباد میں وسیع و عریض رقبے پر ایک مبینہ تحقیقاتی ادارہ ہے۔ کھربوں کی زمین اس کے قبضے میں ہے اور افسران مغل شہزادوں کی طرح رہ رہے ہیں لیکن اس کی تحقیق کیا ہے؟ یہ وہ راز ہے جو کسی کو معلوم نہیں۔ ان کی ایک شاپ ہے جو غالبا اسی لیے قائم کی گئی کہ لوگوں کو خالص خوراک ملے، بد بختی دیکھیے کہ وہاں برائلر انڈے بیچے جا رہے ہوتے ہیں اور کارروائی ڈالنے کے لیے مارکیٹ سے سبزی خرید کر وہاں رکھ لی جاتی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اتنے بھاری اخراجات چولہے میں ڈالنے کے بعد ملک اور قوم کو اس ادارے اور اس کی تحقیق سے کیا مل رہا ہے؟
ہمارے احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ پینڈو ہونا یہاں ایک برائی سمجھا جاتا ہے اور " پینڈو پروڈکشن" کا لفظ بطور طعنہ استعمال ہوتا ہے۔ ایک روز بیٹی سکول سے لوٹی تو پوچھتی ہے بابا کیا ہم دیہاتی ہیں؟ مجھے خوشی ہوئی کہ میری بیٹی اپنے ثقافتی پس منظر سے جڑ رہی ہے۔ میں نے کہا ہاں بیٹا ہم دیہاتی ہیں۔ بولی کیا ماما بھی دیہاتی ہیں؟ میں نے کہا وہ بھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس کے چہرے پر مایوسی سی پھیل گئی۔ تھوڑی دیر وہ سوچتی رہی پھر اس نے فیصلہ سنایا کہ بابا آپ تو پینڈو ہوئے بٹ لُک آئی ایم ناٹ پینڈو۔
یہ جواب سنا تو میں نے کتنے ہی دن اسے پینڈو ہونے کے فضائل بتائے اور اسے قائل کرنا چاہا کہ دیہاتی پس منظر تو اللہ کی نعمت ہے۔ اس مشق کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ دیہات کے فضائل کی تو وہ قائل ہو گئی لیکن اس بات پر وہ قائل نہیں ہو سکی کہ کوئی اسے پینڈو کہے۔
یہ ایک پورا کلچر ہے جس نے ہمارے بچوں کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اسلام آباد میں ایک برادرم اکمل شہزاد گھمن ہیں جو پورے والہانہ پن سے اپنے دیہی ثقافتی پس منظر سے جڑے ہیں وگرنہ تو یہ عالم ہے کہ پنجابی میں بات کرنا بھی آدمی کے گنوار ہونے کی علامت تصور کی جاتی ہے۔ میرے لئے البتہ جہا ں پنجابی میں بات ہو سکتی ہو وہاں اردو بولنا اور جہاں اردو میں بات ہو سکتی ہو وہاں انگریزی بولنا ایک مشکل ترین کام ہے بلکہ ایک مشقت ہی سمجھ لیجیے۔
یہی احساس کمتری اراکین پارلیمان کو چمٹا ہوا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں ایک سید حسن مرتضی ہیں بات کر رہے ہوں تو پتا چلتا ہے دیہی ثقافت کا نمائندہ بول رہا ہے ورنہ تو عالم یہ ہے کہ جن کا ذریعہ آمدن ہی زمین ہے وہ اراکین جب اسمبلی میں کوائف دیتے ہیں تو دلچسپی کے میدان میں سپیس سائنس، لکھ دیتے ہیں تاکہ ذرا رعب قائم ہو جائے کہ صاحب پینڈو نہیں ہیں۔
مقامی ز بان میں بات کرنا ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ مقامی ثقافت اور پیرہن سے ہمیں شرم آتی ہے، وزیر اعظم کٹوں اور مرغیوں کی بات کر دے تو ڈیجیٹل نسل اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیتی ہے۔ اسے احساس ہی نہیں کہ دیہی اکانومی کس بلا کا نام ہے اور قومی معیشت میں یہ کتنی ضروری ہے۔
یہی عالم حکومت کا ہے۔ اپنے کسان کا استحصال کرنا ہے۔ بلکہ اسے ذلیل ہی کر دینا ہے۔ اسے دو روپے کا ریلیف نہیں دینا لیکن بیرون ملک سے اربوں ڈالر کی خوراک منگوا لینا ہے۔ باہر پیسہ اجاڑ دینا ہے اپنے کسان کو نہیں دینا۔ کسان کے برے حالات ہیں۔ چنانچہ کسان اپنی ز رخیز زرعی ز مینیں بیچ رہا ہے۔ ان زمینوں پر شادی ہال بن رہے ہیں یا ہائوسنگ کالونیاں بنتی جا رہی ہیں۔ کسی کے پاس یہ سوچنے کا وقت نہیں کہ زرعی زمینوں پر ہائوسنگ کالونیاں بنتی رہیں تو کھائیں گے کہاں سے؟
اس سوچ کو مخاطب کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر کسی فیصل گجر صاحب کا بڑا اچھا پیغام آج کل وائرل ہو رہا ہے کہ بھینسوں کی بجائے تمہیں کتے اور بلیاں پالنا زیادہ عزیزہے تو دودھ بھی انہی کا پیا کرو اور گوشت بھی انہی کا کھایا کرو۔ آپ کا تو مجھے علم نہیں لیکن میں گجر صاحب سے متفق ہوں اور ان کے اس مطالبے کی بھر پور تائید کرتا ہوں۔