ہر برس17 جولائی کو تمام دنیا میں ـ " عالمی یوم عدل " منایا جاتا ہے تاکہ تمام دنیا کے انسانوں کو عالمی سطح پر ایک جیسا انصاف ملے۔ آج پاکستان میں بھی یہ دن منایا جائے گا۔ کچھ بیانات جاری کئے جائیں گے۔ کہیں واک اور کہیں تقاریب بھی منعقد ہوں گی۔ مختصر ترین الفاظ میں عدل و ا نصاف کا تصور اس یقین سے جڑا ہوا ہے کہ تما م انسان برابر اور یکسا ں سلوک کے مستحق ہیں، یعنی کسی عربی کو کسی عجمی پر یا کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔
جب ہم عدل و انصاف کی بات کرتے ہیں تو عمومی طور پر پولیس اور عدالتی نظام کو نشانہ بنا کر سسٹم ہی خراب ہے پر بات ختم کرکے اپنا فرض پورا کر دیتے ہیں۔ لیکن کیا انصاف کے حصول اور عدل کی فراہمی کی جگہ صرف عدالت ہے؟ عدل و انصاف کی کچھ اصناف شاید صرف تھانہ کچہری کے ذریعہ ہی ممکن ہوں لیکن د ر حقیقت عدل اور انصاف کے معنی اس سے بہت زیادہ وسیع تر ہیں اور جب تک ہم وہ نہیں سمجھیں گے ہم اقوام عالم میں کوئی مقام نہیں بنا سکتے۔
عدل و انصاف کا مطلب اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہر شخص کو وہ ملے جس کا وہ مستحق ہے۔ چاہے وہ اس کی کسی غلطی کی سزا ہو یا اس کے کسی اچھے عمل کا انعام یا اس کے کام کی اجرت (تنخواہ)۔ اگر کسی کو اس کے حق کے مطابق تنخواہ نہیں مل رہی تو یہ بھی بے انصافی ہے اور اگر کسی کو کام کے بغیر یا ضرورت سے زیادہ تنخواہ یا مراعات مل رہی ہیں تو یہ بھی عدل کے خلاف ہے۔
اگر ہم اپنے گھریلو ملازم کو اس کا پورا حق نہیں دے رہے اور اس کی غربت اور مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں تو یہ بھی نا انصافی ہے اور اگر ہم جس جگہ نوکری کر رہے ہیں (چاہے سرکاری چاہے پرائیوٹ)، اگر ہم اپنی محنت سے زیادہ یا کام کیے بغیر مراعات حاصل کر رہے ہیں تو یہ بھی عدل کا خو ن ہے۔ یعنی کہ عدل و انصاف کا تقاضا ایسے اصول اور ضابطہ اخلاق بنانا ہے جو معاشرے کے تمام افراد کو ہر قسم کے نقصان سے بچانے کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقنی بنائیں کہ ان کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں بشمول معاشی، سماجی، تعلیمی، روزگار، وغیرہ یکسا ں سلوک کیا جائے اور تمام افراد کو تمام مواقع اور وسائل تک یکساں اور مساوی رسائی حاصل ہو۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ "کوئی معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں"۔ ظلم انصاف کی ضد ہے۔ اسی طرح ایک حدیث شریف (ابن ماجہ کتاب الاحکام)کا مفہوم ہے کہ " حاکم جب تک ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کر دیتا ہے تو اللہ اسے اس کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے"۔ اگر ہم اپنے ملک کی تاریخ سے یہ حساب لگانے کی کوشش کریں کہ پچھتر برسوں میں ہم نے اس سلسلے میں کیا کھویا کیا پایا، تو بد قسمتی سے لگتا ہے کہ جیسے جیسے ملک میں گناہ کرنے والوں کی تعداد بڑھتی رہی ہے انصاف کرنے والو ں کی تعداد گھٹتی گئی ہے۔
ہم روز اول سے سکول میں یہ پڑھتے آئے ہیں کہ "اسلامی جمہوریہ پاکستان " اسلام کا قلعہ ہے، ہم نے پاکستان اس لیے حاصل کیا تاکہ زمین کے اس پاک حصے پر ہم اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار اور دنیا کو دکھا کر متاثر کر سکیں۔ علامہ اقبال تو تصور پاکستان دے کر اور پھر قائد اعظمؒ پاکستان بنا کر رخصت ہو گئے۔ اس کے بعد آنے والوں نے کیا کیا اور اب تک کیا کر رہے ہیں؟ گزشتہ برس کے "عالمی جسٹس انڈکس" کی رپوٹ کے مطابق دنیا کے 140 ممالک کے سروے میں پاکستان عمومی طور پر عدل و انصاف میں ایک سو انتسویں نمبر پر ہے۔ کرپشن کے حساب سے ہم دنیا کے 140 ممالک میں 129 نمبر، بنیادی انسانی حقوق کے حساب سے 123 نمبر اور معاشرتی انصاف کے حساب سے 125ویں نمبر پر ہیں۔ ویسے عدل و انصاف کے حساب سے دنیا کے پہلے پانچ ممالک ڈنمارک، ناروے، فن لینڈ، سویڈن اور ہالینڈ ہیں۔
کبھی کبھی یہ سوا ل بھی ذہن میں آتا ہے کہ قرآن کے احکام کو نہ ماننا، جان بوجھ کر نظر انداز کر دینا کیا ہے؟ ویسے تو پورا کا پورا قرآن ہی زندگی کے تمام شعبوں میں عدل و انصاف کے قیام کی تعلیم ہے لیکن قرآن حکیم میں چوبیس مرتبہ انصاف کا لفظ استعمال کرکے ہماری نصیحت اور تربیت فرمائی گئی ہے۔ کہنے کو تو ہمارے آئین کی شق نمبر 10 کے مطابق انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارا کمزور طبقہ چکی کے دو پاٹوں میں پھنسا ہوا ہے۔ پہلے تو وہ ظالم اور طاقت ور کے ظلم کا شکار ہوتا ہے اور پھر وہ انصاف کی تلاش میں کمزور اور لاحاصل سسٹم اور مزید طاقتوروں کے استحصال کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ ہماری تلخ حقیقت یہی ہے کہ قانونی، سیاسی، معاشی یا سماجی کسی بھی زاویے سے دیکھ لیں ہمارے یہاں کچھ لوگ حاکم ہیں اور اکثریت محکوم ہے۔
رہی بات سیاسی انصاف کی تو اس بارے میں بات کرنا تو بہت دور کی بات ہے، ہماری عوام کی غالب اکثریت کے سیاسی شعور کا یہ عالم ہے کہ اتنا کچھ سہنے کے بعد بھی ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہی لوگ جنہوں نے نہ کبھی بھوک دیکھی ہے نہ تکلیف، نہ کبھی موسم کی شدت جھیلی ہے نہ کبھی کسی لائن میں کھڑے ہوئے ہیں، نہ کبھی پاکستان میں نوکری کی ہے اور نہ ان کا واسطہ کبھی کسی دفتر کے بابو سے پڑاہے، جن کے حقوق سلب ہونا یا نا انصافی ہونا تو تو بہت دور کے بات ہے جن کے لیے موجودہ قوانین موم بن جاتے ہیں، وہی لوگ ہمارے ہر دکھ سے واقف ہیں، ہمارا درد محسوس کرتے ہیں اور ان ہی میں سے کوئی ہمارے لیے روزگار اور نوکریوں کا، صحت وتعلیم، رہائش، لاکھوں مکانوں اور ہمارے بچو ں کے لیے محفوظ مستقبل کا بندوبست کرے گا۔ اتنی دہائیوں سے ہم اسی نظام کے انہی پرزوں پر اب بھی جتنا یقین کر رہے ہیں، بس یہی کہا جا سکتا ہے، کہ ہمارا خدا ہی حافظ ہے۔