مجھے کم عمری سے ہی اخبار بینی کی عادت پڑ گئی تھی جو اب تک جاری ہے۔ یہ بھی تلخ حقیت ہے کہ الیکٹرانک میڈیا نے آج کے دور میں اخبار کی مقبولیت (اہمیت نہیں) کافی حد تک کم کر دی ہے۔ گذشتہ کچھ دہائیوں میں بدلتے وقت اور اقدار کے ساتھ آہستہ آہستہ اخبارات میں سے بھی صحافت کم ہوتی گئی ہے اور اسکی جگہ " میڈیا " نے لے لی ہے۔
اسی لیے میری اخبار بینی کی پرانی عادت تو جاری ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اخبار پڑھنے کے ایک دو حیرت انگیز اصول دریافت ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اخبارات کی اکثر سرخیوں اور شہہ سرخیوں کا اصل مطلب انکے متن سے الٹ ہوتا ہے۔ جیسے اگر کسی کسی بڑے لیڈر، افسر یا سیاست دان کا بیان بڑی سرخی میں شائع ہوا ہو کہ معاشرے میں فلاں شے برداشت نہیں کی جائے اور یہ کہ اس کے بارے میں میں" زیرو ٹالرنس" رکھتا ہوں تو اسکا مطلب ہوگا کہ یہ چیز نہ صرف معاشرے میں وافر مقدار میں موجود ہے بلکہ اسے قبول بھی کیا جا چکا ہے۔
ایسا نہ ہوتا تو اسکے خلاف کوئی عملی اقدام ہوتے اور لوگوں کو خود ہی معلوم ہو جاتا۔ اس طرح کی بیان بازی اور اعلانات کی کیا ضرورت؟ اخبار بینی کا دوسرا اصول جو سمجھ میں آیا ہے و ہ یہ کہ اصل اور حقیقی طور پر سب سے غور طلب خبر دوسرے تیسرے صفحے پر ایک یا زیادہ سے زیادہ دو کالم کی چھپتی ہے۔ کچھ روز قبل ایک اخبار میں ایک چھوٹی سے خبر نظر سے گزری کہ انڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں گائو ں محلوں کی حفاظت کے نام پر وہاں کے ہندئوں کو عسکری تربیت دے کر مسلح کرنا شروع کر دیا ہے۔
پہلی نظر میں یہی لگاچوکیدارہ سسٹم بنایا جا رہا ہوگا۔ لیکن پھر جب اوپر بیان کئے گئے اپنے دو اصولوں کی عینک لگا کر اس خبر کو ایک بار پھر پڑھا تو دال میں کچھ کالا نظر آیا۔ کچھ تحقیق کی تو معلوم ہوا کے اصل خبر کچھ ماہ پرانی ہے اور بین الاقوامی میڈیا کے کچھ اس حصے اس بارے میں رپوٹیں بھی شائع کر چکے ہیں۔ بھارت نے اس قسم کی عسکری تنظیم کا تصور پہلی مرتبہ نوے کی دہائی میں قائم کیا تھا اور مختلف گائوں میں مسلح دفاعی تنظیمیں قائم کی گئی جنہیں"Village Defence Guard" کا نام دیا گیا۔ اس وقت ان میں قریب قریب پانچ ہزار کے باقاعدہ نفری اور تیس ہزار کے قریب رضاکار بھرتی کئے گئے۔ اس وقت انکا نشانہ " کیمیونسٹ پارٹی آف انڈیا" کے مائو گروپ تھے۔ 2011ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے اس قسم کے عسکری گروپوں کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار کے کر انہیں غیر مسلح کرنے کا حکم صادر کر دیا تھا جس پر اس وقت کی حکومت نے کافی حد تک عمل بھی کیا۔
اب BJP کی مودی سرکار نے ا س تصور کو ایک بار پھر مسلمانوں اور بھارت کی دیگر اقلیتوں کے خلاف استعمال کرنے کے ارادے سے کچھ ماہ قبل اس پر کام شروع کیا ہے۔ خاص طور پر کشمیر میں"Village Defence Guard" کو پھر فعال کرکے ان میں صرف ہندو انتہا پسند بھرتی کرکے انہیں تربیت اور اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس تنظیم میں صرف اور صرف ہندو بھرتی کیے جا رہے ہیں جنہیں" سنٹرل ریزرو پولیس فورس" تربیت دے کر منظم کر رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس طرح سے "عوام " اپنا دفاع کر سکیں گے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ دفاع کس کے خلاف؟ اور مسلمان اکثریت والے علاقے میں جس عوام کو اپنا دفاع کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے وہ صرف ہندو کیوں ہے؟ اگر وہاں چوروں ڈاکوئوں کا کوئی خطرہ ہے تو کیا مسلمان اس سے مستشنیٰ ہیں؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ در اصل وہاں کی مظلوم مسلم اکثریت کے خلاف ایک عسکری تنظیم تیار کی جا رہی ہے جو RSS کی طرز پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف کام کرے گی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت " گاندھی کے ہندوستان" میں آج کے دور میں ہندو مذہب اور " ہندوتا" کے علاوہ کسی مذہب یا گروہ قبول نہیں۔
حکمران پارٹی کے رہنما اور وزیر ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ علاوہ ہندوئوں کے کسی دوسرے مذہب یا اقلیت کو بھارت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ انکا ماننا ہے کہ اقلیتوں کا چاہے جو بھی مذہب ہو وہ نام کی حد تک تو اپنے مذہب سے تعلق رکھ سکتی ہیں لیکن عملی طور پر بھارت میں رہنے والے سب لوگوں کی معاشرت یعنی رہن سہن ایک جیسی ہونی چاہئیے جو کہ ایک ہندو رہن سہن ہوگا۔ انکے لیے واحد راستہ " ہندو شناخت" اور واحد منزل " ہندو راشٹرا" کا قیام ہے۔ در اصل مودی سرکار اور BJP کی پالیسیوں کی بنیاد " سوامی ونایک دامودر" کے دیے ہوئے نظریے " ہندوّتا " پر ہے۔ اس نظریے کے مطابق " اکھنڈ بھارت" صرف ہندوئوں کی اونچی ذاتوں کے لیے ہے۔
نیچی ذات کے ہندوئوں کے کوئی حقوق نہیں ہے اور انکی پیدائش کا مقصد صرف اونچی ذاتوں کی خدمت ہے۔ رہی بات مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی تو انکے نزدیک بھارت میں کسی غیر ہندو کی جگہ نہیں ہے۔ یہی وہ وجہ اور انتہا پسندانہ سوچ اور نظریہ ہے جس کی بنیاد پر BJP اور اسکے متعلقہ دہشت گرد ہندو تنظیمیں تقسیم ہند سے قبل ہی اپنا کام کر رہی ہیں اور انکے عسکری ونگ تقسیم ہند سے قبل ہی قائم کر دیے گئے تھے۔ آج BJP کے عسکری ونگ میں انتہا پسند ہندو دہشت گردوں کی تعداد چھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اسی لیے مودی سرکار کی زیر سرپرستی بھارت کی انتہا پسند تنظیموں RSS اور DSJ کا ٹارگٹ ہے جلد از جلد بھارت کو کسی بھی ذریعہ سے مسلمانوں سمیت تمام غیر مذاہب سے " پاک" کر دیا جائے اور وہ اس طرح کہ دیگر مذاہب کے لوگ یا تو ہندو ہو جائیں یا پھر بھارت کو چھوڑ دیں۔ بصورت دیگر انہیں زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔
بھارت چاہتا ہے کہ کشمیر میں مسلمانوں کا وہی حال ہو جو فلسطین میں ہو رہا ہے اور کشمیر کے مسلمانوں کے لیے اتنی ہی آواز اور حمایت بلند ہو جتنی عرب دنیا فلسطینیوں کے لیے کرتی ہے۔۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جلد ہی اپنے سیاسی، داخلی اور معاشی مسائل سے نبٹنے کے بعد اس جانب بھی توجہ دیں گے کیونکہ آخرکشمیر ہماری شہہ رگ ہے۔