سن 2006ء میں آج کے دن یعنی 10 جولائی کو، پی آئی اے کی فلائٹ 688، ملتان سے لاہور کی جانب اڑان بھرنے کے دو تین منٹ کے اندر ایک انجن کے فیل ہو جانے کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوگئی۔ عملے کے چار افراد اور 41 مسافر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ہر حادثے کی طرح اس حادثے کی تحقیقات بھی کی گئیں۔ کہیں متعلقہ جہاز کی اور ہالنگ قصور وار ٹھہری تو کہیں کہا گیا کہ عملہ کی تربیت مناسب نہ تھی۔ کسی کو لگا کہ عملے نے ایمرجنسی کے نبٹنے کے لیے درست اقدامات نہیں کئے تھے۔ اس حادثے کے ساتھ تمام تحقیقات بھی تاریخ کے اوراق میں گم ہو چکی ہیں۔
ویسے تو PIA کی تاریخ دیکھیں تو ہمیں یہ ادارہ بھی آج کسی حادثے کا شکار ہی نظر آتا ہے جس کی وجوہات بھی دیگر تحقیقاتی رپوٹوں کی مانند نہ سمجھ میں آتی ہیں نہ پبلک ہوتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہماری قومی ائیر لائن کو 2022 میں 97ارب اور اس سے پچھلے برسوں میں 2018 سے 2021کے درمیان قریب قریب 200ارب کا نقصان اٹھانا پڑا۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا ماضی تلاش کریں تو اسکی بنیادوں میں قائداعظم کا وژن ملتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی قائد اعظم نے ممکنہ نئے ملک (یعنی پاکستان) کے لیے ایک ایئر لائن کی ضرورت کو محسوس کر لیا تھا۔ اس لیے انہوں نے اس وقت کی دو مشہور کاروباری شخصیات مرزا احمد اصفہانی اور حاجی دائود آدم جی سے رابطہ کیا اور انہوں نے قائد اعظم کے مشورے پر 23 اکتوبر 1946 کو کلکتہ میں" اورئنٹ ائر ویز" کے نام سے ایک ایئر لائن رجسٹر کروائی جس نے جون 1947 میں اپنے فلائٹ آپریشن شروع کر دیا۔ قیام پاکستان کے بعد اس ایئر لائن نے پاکستان میں اپنے آپریشن جاری رکھے۔ 1952میں PIA کے نام سے ایک نئی ایئر لائن رجسٹر کی گئی لیکن اس وقت اس نئی ایئر لائن اور "اورئنٹ ایئرویز" کو ملا کر "پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن کارپوریشن" قائم کی گئی۔
1955 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے "اورینٹ ایئر ویز" کی جگہ PIA قائم کر دی گئی۔ اپنے قیام کے وقت PIA قائم کے پاس ٹوٹل 13 ہوائی جہاز تھے۔ لیکن اس دور میں PIA کی پرواز اونچائیوں کی جانب تھی۔ اپنے قیام کے ایک برس کے اندر اندر PIAکی پہلی انٹرنیشنل فلائٹ لندن (براستہ روم اور قاہرہ) پہنچی۔ اگلے چند برسوں میں PIA کا شمار دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں ہونے لگا۔ 1960 میں PIA نے ایک امریکی ایئر لائن سے بوئنگ 707 حاصل کیا اور اسطرح ایشیا کی پہلی ایئر لائن ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا جس نے اپنے ہوائی بیڑے میں جیٹ ہوائی جہاز شامل کیا ہو۔ معیار اور سہولیات میں دنیا کی چند بہترین ہوائی سروسز میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ اس زمانے میں PIA کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ اس کی نوے فیصد سے زیادہ پروازیں اپنے ٹائم پر اڑتی اور اپنی منزل پر پہنچتی تھیں۔
شاید نئی نسل کے بہت سے نوجوانوں کو یقین نہ آئے لیکن اپنے سنہری دور میں ہماری قومی ایئر لائن نے Emirates ایئر لائن کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ Emirates کی پہلی پرواز 25 اکتوبر 1985 کو دبئی سے کراچی آئی تھی۔
Emirates نے اس وقت اپنے آغاز کے لیے ٹیکنیکل مدد، افرادی قوت اور تربیت کے ساتھ ساتھ ایک بوئنگ اور ایک "ایئر بس" PIA سے لیز پر لی تھی۔ اس کے بعد جانے کیا ہوا کہ ہمارے بہت سے دوسرے اداروں کی مانند ہماری قومی ایئر لائن کو بھی کسی کی نظر لگ گئی اور کئی دہائیوں تک دنیا کے لیے روشن مثال بنے رہنے کے بعد نوے کی دہائی کے بعد اسکی کارگردگی روز بروز زوال پذیر ہوتی گئی۔ جن Routes پر پاکستانی کی نجی اور دیگر انٹرنیشنل ائیر لائنز منافع پر جاتی ہیں، ان ہی روٹس پر PIA نقصان میں رہتی ہے۔
اس وقت PIA کے پاس ٹوٹل 35 کے لگ بھگ طیارے ہیں لیکن ان میں سے بھی بہت سے اس وقت " آپریشنل" نہیں ہیں۔ اگر ہم صرف آپریشنل طیاروں کو مد نظر رکھیں تو فی طیارہ ملازمین کی تعداد 500 کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ اسکے مقابلے میں دنیا کی اکثر ایئر لائنز میں فی جہاز ملازمین کی اوسط تعداد 150 تا 180 ہے۔ گزشتہ برس سے اعداد و شمار کے مطابق ترکی کی قومی ائیر لائن میں 236 جہاز اور فی جہازملازمین کی تعداد صرف 81 ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جب کسی ادارے میں اسطرح ملازمین کی ریل پیل ہو تو ان بھرتیوں کے پیچھے میرٹ نہیں بلکہ دیگر وجوہات ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ متعلقہ ادارے پر معاشی بوجھ ہونے کے ساتھ ساتھ کام کے معیار پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اداروں کے انتظامی امور چلانے والے بڑے افسران بھی میرٹ اور ادارے کے فوائد کو مد نظر رکھ کر اپنا کام سر انجام نہیں دے رہے ہوتے۔
یہ دیکھنے کے لیے کہ کون سی ائیر لائن کتنی محفوظ ہے جو اصطلاح استعمال ہوتی ہے اسے "او یلیبل سیٹ کلومیٹر" (ASK) کہتے ہیں۔ اسکے لیے کسی بھی ایئر لائن کے جہازوں میں سیٹوں کی کل تعداد کو اس ائیر لائن کی تمام پروازوں کے طے شدہ کلومیٹروں سے تقسیم کیا جاتاہے۔
اس سلسلے میں سائنسی بنیادوں پر ایک اہم اور بڑی بین الا قوامی " سٹڈی" امریکہ کے اعداد و شمار کے مشہور سائنسدان Nate Silver نے 2014 میں کی تھی اس تحقیق کے مطابق ایتھوپین ائیرلائن اور PIA دنیا کی غیرمحفوظ ترین ائیر لائنز قرار پائی تھیں۔ دو برس قبل مشہور ادارے SKYTRAX نے دنیا کی ائیر لائنز کی جو فہرست شائع کی اس میں پہلی سو ائر لائنز میں ہماری قومی ایئر لائنز کا نام ہی نہیں ہے۔ اب تو ہم بس دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ہماری قومی ایئر لائن دنیا میں دوبارہ وہی مقام حاصل کر لے جو اپنے آغاز کے دنوں میں اس کا خاصہ تھا۔ بلکہ صرف PIA کیوں ہمارے دیگر ادارے بھی اپنی اپنی پہلی شان و شوکت حاصل کر لیں تو کیا ہی بات ہو۔