عمران خان کی 22 سالا سیاسی جدوجہد اور خاص کر 2011ء کے بعد سے اُن کے اندر تبدیلی سے متعلق پیدا ہونے والے خیالات سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ انھیں اگر کبھی اقتدار مل گیا تو وہ اپنے اُصولوں پر سمجھوتہ کبھی نہیں کرینگے۔ وہ اپوزیشن میں ہی رہنا پسند کرینگے لیکن کمپرومائزڈ سیاست ہرگز نہیں کرینگے۔
2018ء کے الیکشن سے پہلے کئی بار یہ کہہ چکے تھے کہ حکومت میں آکروہ کوئی سمجھوتے والی سیاست کبھی نہیں کرینگے۔ اول تو وہ ایسا اقتدار لینا ہی نہیں چاہیں گے جس میں انھیں واضح اکژیت نہ ملی ہو۔ وہ مانگے تانگے کی سیٹوں سے حکومت بنانا پسند نہیں کرینگے۔ کیونکہ مانگے تانگے والی حکومت کبھی کچھ کر نہیں سکتی۔ وہ ہمیشہ بلیک میل ہی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن ہم سب نے دیکھا کہ خان صاحب نے پہلے دن سے ہی اپنے دعوؤں کی نفی کرنا شروع کردی۔
الیکشن میں مکمل اور واضح اکثریت نہ ہونے کے باوجود وہ حکومت بنانے کی کوششوں میں لگ گئے اورمحض ایک ہفتے کی کوششوں او رجہانگیر ترین کی کاوشوں کی بدولت وہ سادہ اکثریت حاصل کرنے میں نہ صرف کامیاب ہوگئے بلکہ حکومت بناکر اپنے برسوں پرانے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے میں سرخرو بھی ہوگئے۔ وزیراعظم بننے کا خواب وہ برسوں سے دیکھ رہے تھے۔ اور اِس خواب کی تعبیر میں وہ اِس سنہری موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ لہذا طے ہوا کہ اگر واضح اکثریت نہ بھی ملی تو بھی کیا ہوا لیکن پاکستان کے وزیراعظم بننے کا یہ موقع ہرگز ضایع نہیں کرنا۔ اِس سے پہلے بھی پرویز مشرف کے دور میں یہ غلطی ہوچکی لیکن اب ایسا نہیں کرنا۔
جولائی 2018ء کے الیکشن سے شروع ہونے والی اِس سمجھوتے اورمصلحت آمیز سیاست کا دوردو سال گذر جانے کے باوجود ابھی تک جاری ہے۔ جس جس کام کے نہ کرنے کا خان صاحب نے دعویٰ اوروعدہ کیاتھا وہ وہ ہرکام وہ بلاجھجک اور بلا کسی ہزیمت وشرم کے کیے جارہے ہیں۔ کشکول اورکاسہ گدائی کے خلاف کے اُن کے خیالات سنکر قوم دیوانہ وار اُن کی فریفتہ ہوگئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ قائداعظم کے بعد ہمیں کوئی انتہائی خوددار اورغیرت مند لیڈر مل گیا ہے۔ جو مرجائے گا یاخود کشی کرلے گالیکن بھیک کا پیالہ لے کردردردنیا کے حکمرانوں کا دروازہ نہیں کھٹکٹائے گا۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُسی خوددارلیڈر نے اقتدر ملتے ہی اپنے تمام دعوے اوروعدے یکسربھلادیے۔ اور جس بھیک اورامدا د کو وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھاکرتا تھااُسی امداد اور بھیک کے لیے وہ غیر ملکی حکمرانوں کی منتیں کرنے لگا۔ اور چند سوارب ڈالرمل جانے پروہ اِسے اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے قوم کو نوید اورخوشخبریاں سنانے لگا۔ دل ودماغ اور آنکھیں حیران و ششدر رہ گئیں کہ اتنی جلدی بھی کوئی اپنے قول اوردعوؤں سے انحراف سکتا ہے۔ ہم نے پھر یہ سوچ کر صبر کرلیا کہ ہوسکتا ہے اُسے ملکی معاشی حالات ہی اتنے شکستہ اورخراب ملے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرتا تو کیاکرتا۔ مگر جیسے جیسے وقت گذرتا گیا ہمارے اِس حکمراں کی اور بھی کمزوریاں کھل کرعیاں ہونے لگیں۔
جس مہنگائی اور اشیائے ضرورت کی گرانی کو وہ ایشو بناکر سابقہ حکمرانوں کو لعن وطعن کیاکرتا تھااقتدار مل جانے کے بعد مہنگائی کے سابقہ تمام ریکارڈ خود اُس نے توڑ دیے۔ روپے کی قدر وقیمت بھی سابقہ ادوار میں اتنی کبھی نہیں گری جتنی ہمارے اِس باصلاحیت اور ہونہار قیادت کے دور میں گری ہے۔ ایکسپورٹ اور جی ڈی پی کا جوحال ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ 1952ء کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے کہ ہم مائنس جی ڈی پی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ملک بھر میں کوئی ترقیاتی کام بھی نہیں ہورہے۔ جو پہلے سے چل رہے تھے انھیں بھی روک دیا گیا ہے۔
کوئی میگا پروجیکٹ اور منصوبہ حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہے۔ لیکن قرضے ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ پچھلے دور میں اگر بڑے بڑے قرضے لیے گئے تو اُن کامصرف بھی ہمیں نظر آتاہے۔ مگر اب تو معلوم نہیں یہ غیر ملکی قرضے کہاں خرچ ہورہے ہیں۔ ایک طرف عوام پر مہنگائی اورنئے نئے ٹیکسوں کے ذریعے زندگی اجیرن اورمشکل بنادی گئی ہے تو دوسری طرف آنے والی نسلوں کے لیے قرضوں کے انبار لگادیے گئے ہیں۔
کمپرومائزڈ سیاست کا اور جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ حکومت کے ہرمعاملے اورامور میں اِسی ایک اُصول کو مقدم رکھاجارہا ہے۔ اندرون خانہ تو اِس کے مظاہرے ہمیں صبح وشام نظر آتے رہتے ہیں لیکن بیرون ملک بھی معاملات اِسی سنہری اصول کے تحت طے کیے جارہے ہیں۔ اپنی پارٹی کا وزیرخزانہ بھی اِسی کمپرومائزڈ سیاست کی وجہ سے قربان کردیا۔ اور بیرونی دباؤ میں پھرنہ صرف وزیرخزانہ باہر سے امپورٹ کیا بلکہ اسٹیٹ بینک کاگورنر بھی باہر والوں کی پسند کالگادیا۔
اِسکے علاوہ ملائشیاء میں منعقد ہونے والے اسلامی ممالک کی کانفرنس کے موقع ہر جس طرح خان صاحب نے شرکت سے اچانک انکار کیاتھا وہ بھی اُن کی اِسی کمپرومائزڈ سیاست کا شاندار مظاہرہ ہی تھا۔ اتنا بے بس اورلاچار وزیراعظم ہماری قوم نے شاید ہی پہلے کبھی دیکھا ہو۔ وہ ایک سال تک این آراونہ دینے اورکسی مجرم کونہ چھوڑنے کے دعوے تو بڑی شدومد کے ساتھ کیا کرتا تھا۔ لیکن پھرسب نے دیکھا کہ وہ کسی کاکچھ بگاڑ نہیں سکا اوراب اِس حوالے سے مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ کئی مہینے ہوچکے لوگوں نے اپنے وزیراعظم سے یہ کہتے ہوئے اب نہیں سنا کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑے گااوراین آر اوہرگز نہیں دے گا۔ جن جن لیڈروں کو اُسنے گرفتارکرکے جیل میں رکھاہواتھاوہ سارے کے سارے ایک ایک کرکے رہاہوتے جارہے ہیں۔
جن جن کا کھانا اور اے سی بندکرنے کے دعوے اُس نے امریکاکے دورے میں بڑے زعم اورتکبر کے ساتھ کیے تھے وہ اب بڑے اطمینان و سکون سے بیرون ملک بیٹھے ہوئے اپنی مرضی کی زندگی گذاررہے ہیں۔ یہ سب سمجھوتے کی سیاست کے کرشمے نہیں ہیں تواورکیا ہیں۔ قوم کویقین کامل ہے کہ اب بھی جن جن کے خلاف اُن کے ساتھی رفقاء آئے دن ٹی وی پر بیٹھ کر بڑے بڑے کاغذی ثبوت دکھایا کرتے ہیں آنے والے دنوں میں وہ بھی عدالتوں سے باعزت طور پر بری ہوچکے ہونگے۔ اوراقتدار کے پانچ سال پورے ہونے پراحتساب کے حوالے سے کارکردگی صفر کی صفر ہی رہے گی۔
اِس ساری مشق کہن سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ اپنے مخالفوں کے خلاف جتنے بھی مقدمہ بنائے گئے اوربنائے جارہے ہیں اُن کی حیثیت اورماہیت جھوٹ پر مبنی ہے۔ وہ جب عدالتی چھلنیوں سے گذارے گئے تو مایوسی اور نااُمیدی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ یاپھر اِس سارے گورکھ دھندے کے پیچھے وہی مجبوریوں اورمصلحت آمیز سیاست کاعمل دخل کارفرما ہے جس کے آگے ہمارے یہ دلیر اورنڈر حکمراں بے بس اور بے اختیار ہے۔
معاملہ سانحہ ساہیوال کا ہویا پھر ماڈل ٹاؤن کا وہ کسی ایک سانحہ کے اصل ذمے داروں کو آج سزا نہیں دلواسکا۔ سانحہ ساہیوال کے پیچھے چھپی مجبوریاں توسمجھ میں آتی ہیں لیکن ماڈل ٹاؤن لاہور کاواقعہ تو اپنے مخالفوں کو رگڑنے کے لیے ایک اچھا ہتھیار تھا۔ لیکن حکمران ابھی تک اِس واقعہ کی تحقیقات کو بھی متقی انجام تک نہیں پہنچاسکے۔ ہمارے حکمران شہباز شریف کو دیگر کیسوں میں پھنسانا تو ضرورچاہتے ہیں لیکن اِس جانب اُن کادھیان کیوں نہیں جارہا۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی کڑیاں کی اگر کھولی گئیں تو 2014ء کے اُس دھرنے کے اسباب و محرکات بھی کھل کرعیاں ہوجائیں گے جو بظاہر چار سیٹوں پر دھاندلی کاشور ڈالکر شروع کیاگیا تھا۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ علامہ طاہرالقادری کے اِس واحد مطالبے کو بھی آج موقع مل جانے کے باوجود پس پشت ڈال دیا گیاہے۔ اِس سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تحقیقات اگر آج نہیں ہوسکتیں تو پھر کب ہوسکتی ہیں۔ یا پھر مقصد صرف سیاسی مخالفوں کے خلاف اِسے سیاسی اسٹنٹ اور ایشو کے طور پر ہمیشہ زند ہ رکھنا ہے۔