Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Dr. Mansoor Noorani/
  3. Corruption, Money Laundering Aur Propaganda

Corruption, Money Laundering Aur Propaganda

کرپشن اورمنی لانڈرنگ صرف ہمارا ہی مسئلہ نہیں ہے یہ ساری دنیا میں پھیلاہواایک ایسا مرض ہے جس کاعلاج تاحال ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک کی حکومتیں اس کے سدباب کے لیے کوششیں تو کررہی ہیں لیکن ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرپائی ہیں۔

ہمارے یہاں پی ٹی آئی کی حکومت نے اس کے خلاف پروپیگنڈہ تو بہت کیالیکن اسے روکنے اوراسے ختم کرنے کے لیے کوئی کوشش ہی نہیں کی، بس صرف زبانی جمع خرچ سے صرف اپوزیشن کو نشانہ بنانے کے لیے اسے استعمال کیاجب کہ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن اِن کے دور میں پہلے سے زیادہ پروان چڑھی ہے۔ یہ بات ہم اپنی جانب سے نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ عالمی اداروں کے اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے دور میں ہمارے یہاں کرپشن مسلم لیگ ن کے مقابلے میں بہت بڑھی ہے۔

کرپشن کے بارے میں اگر مکمل غیر جانبدارانہ مشاہدہ کیاجائے تویہ بات کھل کرعیاں ہوجائے گی کہ دنیاکاشاید ہی کوئی ملک ایسا ہوجہاں کرپشن نہیں ہوتی، لیکن جتنا پروپیگنڈہ ہم نے اپنے ہی ملک کے خلاف کیاہے کسی اورملک نے نہیں کیا۔ سب خاموشی کے ساتھ اُس سے نمٹنے میں مشغول ہیں مگر ہم صرف زبانی جمع خرچ اور پروپیگنڈے سے کام چلارہے ہیں۔

چائنہ کو لیجیے جس کی تعریف و توصیف میں ہمارے حکمران روزانہ زمین وآسمان کے قلابے ملارہے ہوتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے بھی کسی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ چائنہ نے اپنے ملک میں 300 وزیروں کو کرپشن میں ملوث ہونے کے جرم میں پھانسی پرلٹکادیا۔ اول تو اس بات میں کوئی صداقت ہی نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں کسی ملک نے اپنے وزیروں کوپھانسی پر لٹکایا ہواوردنیامیں ہمارے علاوہ کسی اورملک کوخبر ہی نہ ہوئی ہو۔

دوسری جانب جب ہم چائنہ کی مداح سرائی میں یہ بھی کہتے ہیں کہ وہاں صرف 14 وزیروں پر کابینہ کام کرتی ہے جب کہ ہمارے یہاں موج ظفر موج لگی ہوئی ہے تو کیا چائنہ میں 300 وزیروں کوموت کی نیند سلانے کے لیے کم از کم دس بیس سال درکار نہیں ہوئے ہونگے۔ پھر جو شخص چائنہ کے بار ے میں ایسادلفریب دعویٰ کرتے ہوئے اس وقت کی اپوزیشن کو خوب تنقید کا نشانہ بناتا ہو لیکن جب اُسے حکومت بنانے کاموقعہ ملاتواس کے دور حکومت میں کرپشن کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔

کرپشن کس ملک میں نہیں ہوتی۔ ابھی چند سال پہلے سعودی عرب کی حکومت نے اپنے کئی سابقہ وزیروں کو اس جرم میں سزائیں بھی سنائیں لیکن یہ سزائیں قید وبند یا جسمانی ہرگز نہیں تھیں بلکہ کرپشن سے کمائی ہوئی دولت کی بنا پر تھیں۔ تحقیق کے دوران بھی اُنہیں کسی نیب جیسے ادارے کی جیل میں نہیں رکھاگیا بلکہ عالیشان فائیو اسٹار ہوٹلوں کے ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں رکھاگیا، کسی کو نہ ہتھکڑی لگائی گئی اورنہ کسی کی ہتک عزت کی گئی۔ اسی طرح ہمارے ارد گرد کے کئی ممالک میں بھی کرپشن کاراج قائم ودائم ہے لیکن وہاں ایسا پروپیگنڈہ نہیں ہورہاجتناہمارے یہاں کیاجاتاہے۔

ہم خود اپنے ملک کو بدنام کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ ہم صبح وشام اٹھتے بیٹھتے ایک ہی تسبیح ضرور پڑھتے ہیں کہ کرپشن ملک کو کھائے جارہی ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اُسے روکنے میں مکمل طور پرناکام ہیں۔ ہم صرف اپوزیشن کو زچ کرنے کے لیے اسے ایک سیاسی اسٹنٹ اور ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ کسی کو NRO نہیں دونگا سنتے سنتے تین سال گذرگئے لیکن کسی ایک بااثر شخص سے ایک پیسہ بھی وصول نہیں کرپائے۔

میاں صاحب کو اپنے ہاتھوں سے باہر جانے کی اجازت دیکر اب اُن کے خلاف اپنی ہر تقریر میں یہ بات تو دہراتے رہتے ہیں کہ وہ عوام کاپیسہ لے کر بھاگ گیالیکن اُسے بھگانے والے کون ہیں یہ نہیں بتایا جا رہا۔ لوگ کہتے ہیں چلو وہ ایک شخص بھاگ گیالیکن دوسرے تو یہاں موجود ہیں آپ نے اُن کے خلاف کیاکرلیا۔ خود حکومت وزراء کیاکچھ کررہے ہیں، اس سے صرف نظر کیوں۔ چینی، آٹے اوردوائیوں کے بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آئے کسی کو پکڑا تک نہیں گیا۔ یہ احتساب اورکرپشن کی باتیں صرف اپنے اقتدار کوطول دینے کی غرض سے کی جاتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نیب کے نئے آرڈیننس کی شاید ضرورت ہی نہ پڑتی۔

کرپشن کے علاوہ ہم نے اس دور میں منی لانڈرنگ کے قصے بھی بہت سنے ہیں۔ یہ منی لانڈرنگ کیاہے اورکس ملک میں نہیں ہوتی اسے بتائے بغیر صرف اپنے ملک کو ساری دنیا میں بدنام کیاجارہاہے۔ منی لانڈرنگ غیر قانونی طریقے سے پیسہ کسی دوسرے ملک میں ٹرانسفرکرنے کانام ہے۔ یعنی اسٹیٹ بینک کو بتائے بنا پیسہ کسی دوسرے ملک میں حوالے کے ذریعے بھیج دینا۔ یہ کام پہلے بھی ہورہاتھااور اب بھی مکمل آب وتاب کے ساتھ جاری ہے۔ اس میں صرف سیاستداں ہی ملوث نہیں ہے بلکہ عام تاجر اورکاروباری افراد یہ کام اس لیے کرنے پر مجبور ہیں کہ قانونی طور پر فارن ایکس چینج لے جانا ناممکن ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran