Thursday, 28 November 2024
  1. Home/
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi/
  3. Ikhlaqiat (1)

Ikhlaqiat (1)

اخلاقیات، اصول و اقدار، معیار حق وباطل، تصورات خیر و شر کی فلسفیانہ تحقیق اور جستجو کا نام ہے۔ مختصر یہ کہ جو علم بھلائی اور برائی کی حقیقت کو ظاہر کرے انسانوں کو آپس میں کس طرح معاملہ کرنا چاہیے، اس کو بیان کرے، انسانی عمل کی نیت کو واضح کرے، اس کو علم اخلاق کہتے ہیں۔ اخلاقیات کا بنیادی مقصد، اصول و اقدار کے تصورات اور نظریات کی قدر و قیمت کا تعین ناقدانہ انداز میں کرنا ہے۔ یعنی تصورات کی واضح، روشن اور صاف تصویر پیش کرنا تاکہ فرد یقین اعتماد اور اطمینان کے ساتھ عملی قدم اٹھا سکے۔

اخلاقیات کے دائرہ عمل میں نہایت وسعت ہے، اس میں ہمہ گیریت اور جامعیت پائی جاتی ہے۔ اس کا دائرہ عمل ذات سے لے کر کائنات تک، انفرادیت سے لے کر اجتماعیت تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی حکمرانی ہر شعبہ زندگی پر ہے خواہ وہ انفرادی ہو یا عائلی، معاشرتی ہو یا تمدنی، معاشی ہو یا سیاسی، قانونی ہو یا عدالتی، قومی ہو یا بین الاقوامی۔ زندگی کا ہر شعبہ، اخلاقیات کے مرکز و محور پر گردش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اخلاقیات کا کام راہ دکھانا ہے راہ پر چلانا نہیں۔ اخلاقیات نہ محض خالصتاً نظری ہے اور نہ محض خالصتاً عملی بلکہ نظری اور عملی کے بین بین ہے۔ نظری اور عملی دونوں کا سنگم اور امتزاج ہے۔

نظریہ افادیت Hedonism کے اس اصول پر قائم ہے کہ انسان کا مقصد زندگی حصول لذت، خوشی اور مسرت ہے اور ہر فرد تکلیف اور رنج و الم سے دور بھاگتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ دوسرے مقاصد بھی فرد کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان سب میں خاص مقصد مسرت اور خوشی بمقابلہ رنج و غم کا ہے۔ نظریہ افادیت کی بنیاد زیادہ سے زیادہ خوشی، زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے کا اصول ہے۔ اس کے چار بنیادی اصول ہیں۔ (1)۔ افادہ۔ (2)۔ مسرت یا خوشی۔ (3)۔ زیادہ سے زیادہ خوشی زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے اور (4)۔ فیض رسانی۔ اس کے حامی ہیئتھم، جیمز مل، جان آسٹن، جان اسٹووارٹ مل اور ڈیوڈ ہیوم وغیرہ تھے۔

نظریہ افادیت کی تعریف کرنا آسان نہیں کیونکہ نظریہ افادیت کوئی ایسی چیز نہ تھی جسے ہمیشہ کے لیے کسی نے ایک مرتبہ دے دیا ہو کہ لے جاؤ اور استعمال کرلو یہ لازماً ایک تحریک تھی جسے بدلتے ہوئے زمانے کے تحت اپنے آپ کو موافق کرنا تھا اور اس طرح زمانے کی ضروریات کو پورا کرنا تھا باوجود ان تبدیلیوں کے جو وقتاً فوقتاً ہوتی رہی ہیں۔ ایک ہی روح اور ایک ہی اسپرٹ تمام افادیت پسند فلسفیوں کے خیالات میں پائی جاتی ہے۔

نظریہ افادیت کا بنیادی مقصد مسرت اور خوشی ہے۔ فرد کی ذات اور اس کی خواہشات دونوں کا مقصد مسرت اور خوشی ہے۔ ہر وہ کام صحیح ہے جس سے خوشی کی پیدائش اور افزائش ہو۔ خوشی اور مسرت، اچھائی (Good) ہے۔ تکلیف اور رنج و الم، برائی (Bad) ہے۔ ہر وہ عمل جو خوشیوں اور مسرتوں کو جنم دیتا ہے اور برائیوں کو مٹاتا ہے عمل صالح (Right Action) ہے۔

ہمیں وہ کام سر انجام دینے چاہئیں جن سے زیادہ سے زیادہ مقدار خوشی پیدا ہوسکے۔ مثلاً اگر آپ اپنے ایک بچے کی خوشی کے لیے اسے کہیں سیر و تفریح کے لیے لے جانا چاہتے ہیں تو یہ ایک اچھائی ہے لیکن آپ سیر و تفریح کے لیے لے جاکر وہی خوشی اپنے دو بچوں کو دے سکتے ہیں تو یہ بہتر ہے۔ اس نظریے کے مطابق مسرت بذات خود مقصد ہے۔ کام کا اصل مقصد خوشی اور مسرت کی تخلیق کرنا اور رنج و تکلیف کو دور کرنا ہے کیونکہ خوشی بذات خود اچھائی اور غم بذات خود برائی ہے۔

اس نظریے کے مطابق صرف مسرت ہی اچھائی نہیں بلکہ دوسری اقدار مثلاً نیکی، محبت، علم اور حسن بھی بذات خود اچھائی ہیں۔ افادیت کی ان دونوں شکلوں کا مقصد ایک ہی ہے یعنی ہر وہ کام جس سے افادہ اور فائدہ حاصل ہو صحیح ہے۔ Hedonistice Utilitarianism کے نظریے کے ماننے والے اس بات کو مانتے ہیں کہ نیکی، محبت، علم اور حسن، اچھائی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار کرتے ہیں کہ وہ بذات خود اچھائی ہیں وہ اچھائی ان مفہوم میں ہیں کہ یا تو وہ قابل مسرت ہیں یا مسرت کی تخلیق کا ذریعہ ہیں۔

لیکن اگر وہ بقول جگر مرادآبادی "جھوٹی ہے ہر ایک مسرت روح اگر تسکین نہ پائے" کے مصداق اگر اقدار مثلاً ہمدردی، رحم، بہادری، نیکی، محبت، علم اور حسن اور دوسری ideal goods وغیرہ خوشی کے اضافے اور تکلیف میں کمی پیدا نہ کریں تو اچھائی نہیں کہلا سکتیں ہر قدر جھوٹی ہے اگر اس سے مسرت اور خوشی نصیب نہ ہو۔ یہ نشان راہ ہیں منزل نہیں ہے منزل تو خوشی اور مسرت ہے۔ اس کے برعکس idal utilitarianism کے حامیوں کا یہ خیال ہے کہ تمام ideal goods بنیادی طور پر اچھائی نہیں چاہے وہ خوشی اور مسرت کی تخلیق اور رنج و الم کو دور کرنے کا ذریعہ بنیں یا نہ بنیں۔

مسرت، اچھائی اور رنج، برائی ہے چاہے وہ کہیں بھی ہو کسی کو بھی ہو۔ ہمیں ایسے اعمال کرنے چاہئیں جن سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ دوسری مخلوق کی مسرت اور خوشی میں اضافہ ہو۔ کہیں بھی کسی کو بھی دکھ اور تکلیف نہ پہنچے۔ یہ نظریہ قانونی اور معاشرتی اصلاح کی بنیاد ہے۔

جب کہ idial utilitarianism کی نظر ذاتی اور جمالیاتی قدروں پر ہوتی ہے۔ اس کو عملی معاشرتی اصلاح سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کیونکہ ہر فرد کو اپنی ذاتی خوشی اور ذاتی مفاد عزیز ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ افراد ایک نظام حکومت اور نظام قانون کے پابند ہو تاکہ کوئی کسی کی خوشیوں کو چھین نہ سکے اور دکھوں میں اضافہ نہ کرسکے۔ ایسے افراد جو ذاتی خوشی اور ذاتی مفاد سے مغلوب ہوکر دوسروں کے لیے خوف، پریشانی، تکلیف کے کانٹے بونے کی کوشش کریں ان کو واجب اور مناسب قید، جرمانہ اور بے عزتی کے خوف کے ذریعے اچھائی یعنی دوسروں کی خوشیوں اور مسرتوں کے احترام کرنے کا عادی اور پابند بنایا جائے۔

مختصر یہ کہ ہم کہہ سکتے ہیں utilitaranism اور خاص طور پر Hedonistic or Classical نظریہ ایک پرکشش اور مقبول معیار اخلاق ہے۔

rationalism:

اس مکتب فکر کی نظریں وسیع ہیں۔ صرف انسانی فطرت تک محدود نہیں۔ اس کے حامیوں کے مطابق اخلاقی قدروں کے نور سے جہان روشن ہے۔ اخلاقی قدریں اور اخلاقیات ابدی صداقتوں، سچائیوں اور حقیقتوں کا نام ہے۔ اس کا دائرہ صرف انسانی فطرت تک محدود نہیں بلکہ فطرت کائنات اور فطرت خداوندی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس مکتب فکر کے حامل فلسفی اور مذہبی علما کہلاتے ہیں۔

حقیقی علم حکمت سے حاصل ہوتا ہے جو ابدی اور عمومی صداقت ہے۔ احساسات کے ذریعے حاصل شدہ علم، محدود اور مشکوک ہو سکتا ہے۔ لیکن حکمت کے ذریعے حاصل شدہ علم وسیع اور غیر مشکوک ہوتا ہے۔ اس میں یقین، اعتماد اور اطمینان کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ جیسے علم ریاضی اور علم منطق وغیرہ۔ انسانی فطرت، نفسیات اور حواس کی فراہم کردہ معلومات اور اطلاعات صحیح بھی ہوسکتی ہیں اور غلط بھی۔ یقین اور وثوق کے ساتھ ان کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بعض حالات میں وہ صحیح ثابت ہوتی ہیں اور بعض حالات میں غلط۔

اس مکتب فکر کے مطابق محبت اچھائی ہے نفرت برائی ہے۔ کمزور کی مدد حق ہے۔ ایذا رسانی باطل ہے، سوچ بولنا چاہیے، وعدہ نبھانا چاہیے۔ یہ اخلاقی قدریں صرف انسانی نفسیات اور انسانی فطرت کی باتیں نہیں بلکہ ابدی صداقت ہیں۔ یہ عارضی اور وقتی نہیں بلکہ مستقل اور ابدی ہیں۔ وعدہ کرکے اس کو پورا کرنا اس لیے ضروری نہیں ہوتا کہ یہ صرف حالات اور احساسات کا تقاضا ہے بلکہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ ایک عمومی ذمے داری اور حقیقی ضرورت ہے۔ (جاری ہے)

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran