Thursday, 21 November 2024
  1. Home/
  2. Haider Javed Syed/
  3. Larte Larte Ho Na Jaye Gum

Larte Larte Ho Na Jaye Gum

تحریک انصاف احتجاج اور مذاکرات دونوں سمتوں میں آگے بڑھ رہی ہے۔ صوابی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر نے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی موجودگی میں منعقدہ پی ٹی آئی کے پشاور اجلاس میں "الجہاد الجہاد" کے نعروں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ الجہاد کا مطلب جدوجہد ہی سمجھا جائے۔

شاعر کو اپنے کلام کی تفسیر و تشریح کا حق ہے ویسے جب اسد قیصر افغان سرزمین پر لڑی گئی سوویت یونین امریکہ جنگ میں پرجوش جہادی کے طور پر شریک تھے تب الجہاد کے معنی کچھ اور ہوا کرتے تھے۔

وسطی پنجاب کے ایک دھانسو دار صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے گزشتہ روز اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے لئے نیا پیغام بھجوایا تھا۔ رہائی کے عوض خاموش رہنے اور بچوں کے پاس جانے کی باتیں بھی گردش کررہی ہیں۔ دھانسو صحافی کے انکشاف اور گردش کرتی خبروں کو ایک برطانوی اشاعتی ادارے کی چند دن قبل کی ایک رپورٹ کی روشنی میں دیکھنا ہوگا کیونکہ انکشاف اور خبر دونوں کا رزق وہی رپورٹ ہے۔

ہر دو باتوں یعنی انکشاف اور خبروں کے حوالے سے ایک واقف حال کا دعویٰ ہے کہ مفاہمت کا پیغام سوموار 18 نومبر کو نہیں بلکہ 15 نومبر کو بھجوایا گیا تھا جواب ملا "حکومت سے بات کیجئے"۔

19 نومبر کو عمران خان نے علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر علی خان کو مذاکرات کی اجازت دی۔ ذرائع ابلاغ نے آسمان سر پر اٹھالیا اس اجازت کو 19 نومبر کو ایک معاصر اردو اخبار کی اس رپورٹ کی روشنی میں دیکھا اور اس کا تجزیہ کیا گیا۔ اردو اخبار کی سٹوری کے مطابق حکومت اور پی ٹی آئی میں اعلیٰ سطح رابطہ ہوا ہے۔ بات چیت مثبت ہوئی تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

لیکن اسی دن 19 نومبر کو ہی اڈیالہ جیل میں اپنے بھائی سے ملاقات کے بعد عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے ایک سوال کے جواب میں دو دلچسپ باتیں کہیں۔ پہلی یہ کہ اگر جمعرات 21 نومبر تک ہمارا (پی ٹی آئی) کا چوری شدہ مینڈنٹ واپس دے دیا جائے تو 24 نومبر کو جشن منایا جائے گا۔ اگلے ہی سانس میں بولیں، عمران خان نے علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر علی خان کو اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی اجازت دی ہے۔

کیا 15 نومبر کے پیغام کے جواب میں جو راستہ دیکھایا گیا وہ پی ٹی آئی کو منظور نہیں؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ پی ٹی آئی روز اول سے مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہی کرنا چاہتی ہے اس کا موقف یہ ہے کہ فیصلہ سازی کے سارے حقوق اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہیں ثانیاً یہ کہ چوری کے مینڈیٹ سے اقتدار پر قابض حکمرانوں سے بات چیت کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا مینڈیٹ پہلی بار چوری ہوا؟

پی ٹی آئی کو بھی تو 2018ء میں نتائج تبدیل کرکے اقتدار میں لایا گیا تھا۔

عام فہم زبان میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان دنوں سب کچھ الٹ ہورہا ہے۔ کبھی عمران خان اپوزیشن رہنمائوں کی غیر ملکی سفارتکاروں سے ملاقات کو غداری قرار دیتے تھے آجکل ان کی جماعت نہ صرف غیر ملکی سفارتکاروں سے ملاقاتیں کررہی ہے بلکہ امریکہ میں لابنگ کے لئے ایک لابنگ فرم کی خصوصی خدمات حاصل کی گئی اس فرم اور ورلڈ جیوش کانفرنس کی کوششوں سے متعدد امریکی ارکان پارلیمنٹ جوبائیڈن حکومت کو 2 بار مشترکہ خط لکھ کر عمران خان کے معاملے پر بات کرچکے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ وہی امریکہ ہے جس نے بقول عمران خان کے مقامی میر جعفر و میر صادق اور اپوزیشن کی اس وقت سرپرستی کی جب وہ ان (عمران) کی حکومت گرارہے تھے۔ مزید یاد آوری کے لئے یہ عرض کردوں کہ پی ٹی آئی نے امریکہ میں سیاسی و سفارتی لابنگ کے لئے جس فرم سے معاہدہ کیا ہے وہ معاہدہ بھی بڑا دلچسپ و "پُرنور" اور عظیم الشان یوٹرن کا عملی نمونہ ہے۔ اس معاہدے کی ایک شق میں ماضی میں امریکہ کے خلاف مداخلت والے موقف پر معذرت خواہانہ الفاظ ہیں۔

خیر ان باتوں کو چھوڑیے، ان دنوں غیر موروثی سیاسی جماعت کی باگیں عمران خان کی اہلیہ اور ہمشیرہ کے ہاتھوں میں ہیں اہلیہ محترمہ تو پشاور میں مشاورتی اجلاسوں کی صدارت بھی کررہی ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ جیل میں بند شخص کی اہلیہ اور بہنیں اگر شوہر اور بھائی کی رہائی کے لئے کوشش کررہی ہیں تو غلط کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کچھ بھی نہیں مستقبل میں بھی تو پارٹی انہی دو خواتین کو ملنی ہے اس لئے اب اگر وہ سیاسی عمل کا حصہ بن رہی ہیں تو اسے تربیتی مراحل سمجھ لیا جانا چاہیے۔

تحریک انصاف 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ملک گیر تیاریوں میں مصروف ہے۔ پارٹی کی قیادت نے علاقائی ذمہ داران سے کہہ دیا ہے کہ اگر ان کا راستہ روکا جائے تو جس مقام پر روکے جائیں وہیں دھرنا دے دیں۔ ادھر بیگم عمران خان بشریٰ بی بی نے پشاور کے مشاورتی اجلاس میں ایم این اے کو 10 ہزار اور ایم پی اے کو 5 ہزار افراد احتجاج میں لانے کی سختی سے ہدایت کی ان (بشریٰ بیگم) کا یہ بھی کہنا تھا کہ احتجاجی قافلوں کی لمحہ بہ لمحہ ویڈیوز ریکارڈ پر آنی چاہئیں یہ اطلاع بھی ہے کہ بشریٰ بی بی نے تمام ارکان پارلیمنٹ کو مالیاتی حوالے سے بھی ہدایات دیں نیز یہ کہ پارٹی کا دیا گیا ہدف پورا نہ کرنے اور احتجاج سے گریز کرنے والوں کے لئے پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

احتجاج سے پہلے گرفتار ہوجانے والوں کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔

ایک اطلاع کے مطابق 24 نومبر کے احتجاج کے لئے فنڈنگ کے حصول کے لئے امریکہ میں شہباز گل اور شہریار آفریدی پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی ہے یہ کمیٹی امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک میں پارٹی کے بااعتماد اور فعال لوگوں پر مشتمل ذیلی کمیٹیاں بنائے گی جو 24 نومبر کی انقلابی جدوجہد کے لئے فنڈز اکٹھا کریں گی۔

تادم تحریر پاکستان میں فنڈ ریزنگ کے لئے کمیٹی کا اعلان نہیں کیا گیا البتہ پی ٹی آئی کے ایک ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہر ایم پی اے ایم این اے اور سینیٹر کو اہداف دے دیئے گئے ہیں۔ کارکنوں کو اسلام آباد لانے لے جانے، دھرنے کی صورت میں ان کی ضروریات پوری کرنا متعلقہ ارکان پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہوگی۔

اسی دوران پی ٹی آئی کے پچھلے احتجاج پر خیبر پختونخوا حکومت کے فنڈز سے ہوئے اخراجات کے حوالے سے چیف سیکرٹری کے پی کے کا ایک خط بھی سامنے آیا اس خط کو پی ٹی آئی کے ذمہ داران جعلی قرار دے رہے ہیں جبکہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر اس خط کے حوالے سے بحث خوب ہوئی اور ایک دو چینلز پر خط کے اصل ہونے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔

چلتے چلتے یہ عرض کردوں کہ پنجاب حکومت نے 24 نومبر کے احتجاج سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی وضع کرلی ہے۔ باوثوق ذرائع بتارہے ہیں کہ کارکنوں اور ہمدردوں کو فعال کرنے کی اہلیت رکھنے والے علاقائی رہنمائوں کی فہرستیں بنالی گئی ہیں۔

یہ اطلاع بھی ہے کہ غیررسمی طور پر ٹرانسپورٹروں سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے سے گریز کریں۔ اسلام آباد میں 2 ماہ کے لئے دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔ ہماری دانست میں پی ٹی آئی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کو ملک بھر میں کسی بھی مقام پر احتجاج کا آئینی قانونی اور جمہوری حق ہے۔ حکومت اس وقت تک مداخلت سے گریز کرنا چاہیے جب تک احتجاج پرامن ہے۔

ویسے اسلام آباد میں دو ماہ کے لئے دفعہ 144 نافذ کرنے والوں سے سوال ہے وہ یہ کہ دو تین ہفتے قبل دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود ایک کالعدم فرقہ پرست تنظیم نے وفاقی دارالحکومت میں بدزبانیوں اور غلیظ نعرے بازی سے بھرپور جلسہ کیسے کرلیا؟

یہ صریحاً دوغلا پن ہوگا کہ کالعدم تنظیم جلسہ کرے مفرور رہنما اور فورتھ شیڈول والے خطاب کریں اور ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کو احتجاج سے روکنے کے لئے دفعہ 144 نافذ کردی جائے۔ حرف آخر یہ ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف دونوں اس بات کا خیال رکھیں کہ

لڑتے لڑتے ہو نہ جائے گم
ایک کی چونچ ایک کی دُم

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran