یوں تو ہر ملک اور معاشرے میں خوبیاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں اور برائی سے خوبی تک کا سفر جاری و ساری رہنا چاہیے لیکن اس کی رفتار میں کمی بیشی بھی پائی جاتی ہے البتہ اگر یہ سفر رک جائے یا الٹا رُخ اختیار کر لے تو اس معاشرے کا انجام تباہی و بربادی کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ترقی و تباہی، خوشحالی و بربادی انسانی عمل کے نتیجے میں نعمت خداوندی کی صورت میں مستحق افراد، معاشرے اور ملک تک پہنچتی ہے۔
پاکستان جس کے نام کے معنی ہی اس کی پہچان ہیں البتہ چند خرابیوں کے گرداب میں گھرا ہوا ہے۔ ان میں سے چار کا ذکر ہی فی الحال کافی ہو گا۔ پاکستان غربت و افلاس کا شکار ہے۔ ملک جاہلوں سے بھرا ہوا ہے۔ سکہ رائج الوقت کرپشن ہے اور آبادی ملک کی طاقت نہیں کمزوری بمعنی بربادی ہے۔
ملک کی بڑی تباہی کی وجہ لوگوں کا کسی ہنر میں بے بہرہ ہونا اور کسی بھی کام میں دلچسپی نہ لینا اور بے کار رہنے کی عادت میں مبتلا رہ کر حرام خوری کے مزے لینا ہے۔ ملک میں تعلیم کے نظام میں حکومتی اور خود لوگوں کی عدم دلچسپی ہے۔ لوگوں میں بد دیانتی برائی نہیں بلکہ ذریعہ معاش بن چکی ہے اور خاص طور پر بچے پیدا کیے جانا والدین کے لیے ذریعہ آمدنی سمجھا جانے لگا ہے۔
2007 میں محترمہ رُبا ہمایوں اپنی کار میں گھر کی جانب روانہ تھیں کہ ایک میدان میں غریب لوگوں کی رہائشی جھگیوں کے سامنے سے ان کا گزر ہوا۔ وہاں پندرہ بیس جھگی نشین بچے آپس میں کھیل جب کہ کچھ لڑائی جھگڑا کر رہے تھے۔ کسی کے گلے میں قمیص نہیں تھی اور کچھ دو تین سال کے بچوں کی شلوار نہیں تھی۔ ان بچوں کے سر کے بال بے ڈھنگے اور چند مار کھا کے رو رہے تھے۔ سب ننگے پیر تھے اور بے مقصد سے کھیل میں مگن تھے۔ محترمہ کار روک کر انھیں دیکھتی رہیں پھر دکھ بھری کیفیت میں وہاں سے چل دیں۔ جو کچھ انھوں نے ان غریب لوگوں کی جھگیوں کے سامنے چند منٹ رک کر دیکھا ان کے دل و دماغ پر سارا دن اس کا تکلیف دہ اثر رہا۔
محترمہ نے اس جھگی نشینوں کے ڈیرے پر ایک جگہ منتخب کر کے وہاں بچوں کو کاپی، کتاب، پنسل دے کر اور تھوڑا کھانے پینے کا لالچ دے کر ان کو پڑھانا، سکھانا شروع کر دیا جو ان کے ذہنی سکون اور ثواب کا باعث ہوا، ان میں اصل ٹارگٹ بے آسرا اور غریب بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی شروعات کرنا تھا جسے خود جھگی ڈیرے پر جا کر اپنے مشن کی ابتداء کرنا کہا جا سکتا ہے۔ جب کوئی فرد نیکی اور فلاحی مقصد سے ایسے کام کی ابتداء کرتا ہے تو وہ باعث برکت ہونے کے سبب بہر صورت کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔
درِ آگاہی یعنی Door of Awareness کا جو بیڑا 2007ء میں محترمہ رُبا ہمایوں نے اٹھایا اس کا مقصد ایک وقتی جوش تک محدود نہیں تھا بلکہ ایک دِلی جذبے کو کوشش کر کے تکمیل تک پہنچانا تھا۔ جھگی کے آگے آگے کھلی جگہ پر بچوں کو پڑھانے کے بعد اگلا قدم بچوں کے والدین کو تعلیم اور ہنرمندی کے فوائد سمجھا کر انھیں روشن مستقبل کی جھلک دکھانے کے لیے بچوں کو کپڑے، قلم، کاپی، کتاب اور پڑھائی کے لیے کمرہ، کرسی، میز کا بندوبست کیا گیا۔
خاتون استاد نے بچوں کو محبت سے پڑھانا شروع کیا۔ کمروں کی تعداد بڑھانے کے لیے مخیر احباب کا تعاون حاصل کیا گیا۔ علاقے کے لوگوں نے محترمہ رُبا ہمایوں کے جذبے کو سراہا جس سے مزید کامیابی حاصل ہوئی۔ چھوٹے چھوٹے ایک سے دو کمروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ بچوں کو کتابیں، کاپیاں، بیگز، اسٹیشنری، یونیفارم اور کھانا مفت فراہم کیا جاتا۔ گزرتے وقت کے ساتھ بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا چلا گیا۔ اسکولوں کی تعداد بتدریج بڑھتی رہی۔ گزشتہ تیرہ سال کے دوران Donation پر ملے، کرایہ پر لیے اسکولوں کی تعداد اس وقت چوبیس ہے۔ کچھ اساتذہ تنخواہ پر اور کچھ Voluntary بچوں کو پڑھاتے ہیں۔
Door of Awareness کا سفر صرف جھگی نشینوں کے غریب بچوں کو تعلیم دینے تک محدود نہ رہا جو ذرا بڑے ہو گئے، انھیں کوئی ہنر سکھانے کا بھی انتظام کیا گیا۔ لڑکیوں کو سلائی کڑھائی کی تربیت بھی دی گئی۔ دستکاری کی تربیت سے لڑکیوں کے لیے آمدنی کا رستہ بھی کھلا۔ عید سے پہلے درِ آگاہی کی اس تنظیم نے ممبر بچوں اور بچیوں کے لیے نہایت ارزاں متنوع سامان کا میلہ لگایا جس میں جوتے، کپڑے، پرس، کھلونے اور مختلف اشیاء تھیں۔ Door of Awareness (درِآگہی) نے کچھ عرصہ سے بغیر کسی خرچ کے رشتہ ناطہ اسکیم شروع کی ہے جو کامیابی سے چل رہی ہے۔ اس فلاحی تنظیم کو چلانے پر ماہانہ کئی لاکھ روپے خرچ ہو رہے ہیں جس کا انتظام مخیر افراد اور فیملیز کے ذمے ہے۔