گزشتہ سال امریکا جانے کا اتفاق ہوا تو خوش قسمتی سے وہ آموں کا موسم تھا۔ آم چونکہ مرزا غالبؔ کا ہی نہیں میرا بھی پسندیدہ پھل ہے، اس لیے ہوائی سفر کی تھکن دور ہوئی تو طارق سے کسی فروٹ مارکیٹ چلنے کی خواہش کی۔ وہاں پھلوں کے ایریا میں پہنچ کر آموں کی تلاش کی۔ سارے آم سبز رنگ کے تھے۔
ڈھونڈتے ڈھونڈتے آموں میں تھوڑی پیلاہٹ والے ایک ڈھیر پر نظروں نے پسند کی مہر لگائی تو چن چن کر آٹھ دس آم خرید لیے۔ گھر واپس آ کر بے صبری سے ایک آم کو بمشکل ذرا نرم کر کے چوسنا شروع کیا تو محسوس ہوا کہ میں نے Antibiotic سیرپ کی بوتل کو منہ لگا دیا ہے۔ طارق سے بات کی تو اُس نے کہا کہ میں تو آپ کو یہاں کے آموں کی خریداری سے منع کرنے والا تھا لیکن آپ کی شدید خواہش کو دیکھ کر چُپ رہا۔
اب آپ یہ خواہش واپسی پر لندن میں یا پھر پاکستان جا کر بشرطیکہ آموں کا موسم ختم نہ ہو گیا ہو پوری کر لیجیے گا۔ یہاں مجھے یاد آ گیا کہ چند سال قبل ایک رشتہ دار ہمارے ہاں آئے تو کئی قسم کے پھل لائے تھے۔ ان کی رخصتی پر دیکھا کہ ان کے لائے پھلوں میں پانچ سات نہایت خوبصورت سیب بھی تھے۔ میں نے پلیٹ اور چھری منگوا کر ایک خوشنما سیب کو نہایت احترام سے کاٹ کر اس کی پھانکیں بنائیں، پھر ایک پیاری سی پھانک کو منہ میں ڈال کر چبایا تو پورا منہ اس قدر بدمزہ ہوا کہ میں نے اُسے باسکٹ میں تھوک دیا۔ اس کے گزشتہ روز مارکیٹ جا کر دیکھا کہ ویسے ہی خوبصورت سیب چند بڑی دکانوں کے ٹوکروں میں سجے ہوئے تھے۔ دریافت کیا تو پتہ چلا کہ وہ مہنگے اور امپورٹڈ سیب تھے۔
میں نے اپنے واقف دوکاندار سے کہا کہ اگر تم مجھے یہ سیب Free بھی دو تو نہ لوں گا۔ وہ مسکرایا اور بولا، آپ سچ کہتے ہیں، میں نے بھی اسے چکھ کر تھوک دیا تھا لیکن کئی صاحب لوگ معلوم ہونے پر کہ یہ امپورٹڈ سیب ہیں، بخوشی خریدتے ہیں۔ دکاندار سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ خوبصورت لیکن بد مزہ سیب نیوزی لینڈ سے امپورٹڈ تھے اور امیر گاہک انھیں صرف اس وجہ سے خریدتے تھے کہ دکاندار انھیں یہ بتا کر ترغیب دیتا تھا کہ یہ دیسی نہیں غیر ملکی ولائیتی سیب ہیں۔ انھی دنوں ایرانی سیب بھی مارکیٹ میں دیکھے لیکن جس غیر ملکی نے ایک بار ہمارا کوئٹہ کا کالا کلو سیب کھا لیا تو وہ ساری دنیا میں کالا کلو سیب ہی تلاش کرتا پایا۔ خود مجھے بھی کئی ممالک کے سیب کھانے کا موقع ملا ہے لیکن پاکستانی کالا کلو لاجواب ہے۔
عرصہ ہوا جرمنی میں آم کھایا تو اس نے خود بہ آواز ِ بلند کہا کہ وہ چونسہ آم ہے۔ دکاندار سے دریافت کیا تو اُس نے ایک شخص سے ٹیلیفون پر میری بات کرا دی۔ اتفاق سے وہ پاکستانی جرمن نکلا۔ اس نے بتایا کہ وہ پاکستان سے صرف چونسہ اور انور رٹور آم امپورٹ کرتا ہے جو اسی دن Sale ہو جاتے ہیں۔ یہ دونوں ویرائیٹیز لند ن میں بھی دیکھیں۔ ویسے تو پاکستان میں کئی درجن آموں کی اقسام موجود ہیں اور پسند کی جاتی ہیں۔
ایک بار فیصل آباد Agricultural Univeristy آموں کی نمائش دیکھی جہاں آموں کی پچیس تیس Varieties تھیں۔ میں خود چوہدری منیر کا ممنون ہوں جن کی طرف سے گزشتہ بیس سال سے بہترین آموں کا تحفہ آتا ہے اور اسی حوالے مرزا غالبؔ کی یاد آ جاتی ہے جب ان کے ساتھی نے سڑک پر گرے آموں کے چھلکوں کو سونگھ کر چھوڑنے والے گدھوں کی طرف اشارہ کر کے مرزا غالبؔ سے کہا تھا کہ مرزا دیکھو گدھے بھی آم نہیں کھاتے، جس پر مرزا غالبؔ نے برجستہ جواب دیا تھا کہ ہاں گدھے آم نہیں کھاتے۔
پھلوں ہی کے حوالے سے ذکر ہو جائے انگور کا جس کی متعدد اقسام دنیا کے تمام ممالک میں موجود ہیں لیکن سُندر خانی انگور جو پاکستان میں پایا جاتا ہے لاجواب ہے۔ اسی طرح قصور اور اس کے مضافات میں پیدا ہونے والا امرود کم قیمت ہے اور اس کی شکل اور ضائقے والا امرود میں نے جتنے بھی دس بارہ ممالک گھومے ہیں کہیں بھی دیکھنے کو ملا نہ کھانے کو۔ ہمارے بعض امپورٹر مالٹا اور گریپ فروٹ نیوزی لینڈ سے منگواتے ہیں جو بالکل بے مزہ ہوتے ہیں۔ ناشپاتی افریقہ سے اور انار پیرو سے منگوانے والے جانتے ہیں کہ جو انار اور ناشپاتی ہمارے ملک کی پیداوار ہیں وہ لاجواب ہیں۔
سرگودھا کے علاقے میں پایا جانے والا کنوُ نہ صرف ہمارا پسندیدہ پھل ہے بلکہ وسیع پیمانے پر ایکسپورٹ ہوتا ہے اس کا ذائقہ بے مثال ہوتا ہے لیکن کس قدر حیرت ہے کہ مالٹے اور کنُو کا متبادل ایک چھوٹے سے سائز کا اسی نام کا مالٹا نما پھل جو شکل اور ذائقے میں کمتر تھا امپورٹ ہوتا رہا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ امر ہے کہ معاشی لحاظ سے مقروض ملک میں پھل اور سبزیاں امپورٹ کر کے زر ِ مبادلہ ضایع کرنے کی اجازت ہو۔ ہمارے ہاں تو پھول بھی امپورٹ ہوتے ہیں جنھیں خریدنے کی کوئی بھی عام آدمی استطاعت نہیں رکھتا اور ایسی اشیاء کی امپورٹ کی پالیسی غربت میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔ بڑے شاپنگ مالز کوچھوڑیئے چھوٹی چھوٹی دکانوں پر بھی امپورٹڈ سامان دستیاب ہے۔ ایسا ملک جو بیرونی قرضوں میں جکڑا ہو، اُسے بہرحال اپنی امپورٹ اور ایکسپورٹ پالیسی پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ملکی معیشت ڈوبنے سے بچی رہے۔
کسی روز شہر کے معاشی لحاظ سے کمزور علاقے کی طرف سے گزرنے کا اتفاق ہو تو مکانوں، سڑکوں اور دکانوں کی بدحالی ہی سے وہاں کے رہائشیوں کی حالت کا اندازہ لگانے میں دشواری کا سامنا نہیں ہو گا اور وہاں رہنے والے لوگوں کی معاشی حالت بھی چھپی نہ رہ سکے گی۔ یہ ملک کی تعلیمی اور معاشی ہر دو کی شکل دیکھنے اور رائے قائم کرنے کے لیے کافی ہو گا۔ یہاں کی آبادی یعنی افرادی قوت ملک کی عمومی حیثیت ظاہر کر دے گی۔
دراصل یہی لوگ ہیں جو ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جان ہیں۔ انھی کے ووٹ سے حکومتیں وجود میں آتی ہیں۔ مختصراً ہماری یہ افرادی قوت ملک کی اصل طاقت نہیں ہے کیونکہ یہ ذہنی، جسمانی اور معاشی لحاظ سے طاقت کے بجائے کمزوری کی علامت ہے۔ ہماری معاشی پالیسیوں میں بھی قوت بہتری اور یکسانیت اُسی وقت آئے گی اور ملک ترقی کی راہ پر تبھی روانہ ہو گا جب ہماری پیداواری اور برآمدی طاقت موجودہ حالت ِ زوال سے عروج کی طرف گامزن ہو گی۔