گزشتہ تین ماہ سے دنیا کو ایک جان لیوا وبا نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ بخار، تھکن، خشک کھانسی، ناک بہنا یا بند ہونا، اسہال اس کی ابتدائی علامات ہیں۔ اس بیماری کا دوسرا نام Covid-19 ہے۔ بڑی عمر کے اور دیگر بیماریوں میں مبتلا لوگ جلد اس وباء کا شکار ہوتے ہیں۔
بلاشبہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس وباء سے بچ نہیں پا رہے اور ان ممالک کے ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم اور ہر قسم کی سہولیات میسر ہونے کے باوجود اس کا فوری علاج تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے اموات اور بیماری میں مبتلا ہونے والوں میں کمی نہیں ہو رہی۔ چین کی مثال تمام دنیا کے سامنے ہے کہ Wuhan جہاں کورونا وائرس کی ابتداء ہو کر دنیا میں تیزی سے پھیلی، اسی ملک نے اتنی ہی سختی سے لاک ڈاؤن کے ذریعے ہر قسم کی رورعایت کو بالائے طاق رکھ کر اس پر قابو پایا۔
چین کی مثال کو پیش نظر رکھنا اگر ہمیں بہتری کی طرف لے جا سکتا ہے تو پھر دیر کیوں؟ دوسری طرف دنیا کا امیر اور طاقتور ترین ملک امریکا جس کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کا مذاق اڑایا پھر اس کی کورونا پر قابو پانے میں کامیابی کی تعریف کی اور پھر لاک ڈاؤن پالیسی نہ اپنا کر ملکی شہریوں اور معیشت کو مشکل حالات سے دوچار کرنے میں اٹلی پر سبقت لے گیا ہے، امریکا کو تو چھوڑیئے، ہمارے اپنے ملک میں Social Distance کے حوالے سے اس کی ضرورت اور اہمیت پر بزرگ اور تعلیم یافتہ سے لے کر علماء اور بڑے بڑے کاروباری اس کی اہمیت کا مذاق اڑاتے پائے جاتے ہیں لیکن ان تمام کی خدائے بزرگ وبرتر سے ایک ہی التجاء ہے کہ وہ ہمارے گناہ معاف فرما کر صرف ہمیں کو نہیں، ساری دنیا کے بندگان خدا پر رحم فرمائے اور اس آفت ووباء سے بچائے۔ اس وقت یہ وسیع وعریض دنیا ایک جیل اور ہر مکان ایک قیدخانہ ہے جس کے مکین بے بس ہیں اور چاہے کوئی اپنے تئیں صدر، بادشاہ یا حکمران ہے۔ ایک بے بس، قابل رحم اور حقیر کیڑا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا جو خدائے برتر کی تخلیق ہے، عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے، اسے خدا کے وضع کیے ہوئے اصولوں کے مطابق ہی چلتے دینا چاہیے۔
یہ کرۂ ارض جس کی فضائیں سمندر اور زمین کے حصے جن پر قابض حمکران اور لوگ انھیں آزادی سے استعمال کرتے آئے ہیں، کورونا نامی مہلک وباء کے پھیلاؤ اور اس کی بے پناہ ہلاکتوں کی وجہ سے جیل خانوں میں تبدیل ہو کر لوگوں کی آزادانہ نقل وحمل کو محدود کرتی جا رہی ہے۔ شہروں کے عام ٹریفک اور آمد ورفت کے بہت سے حصوں پر کھلنے اور بند ہونے کی پابندی لگ رہی ہے۔
ہوائی جہازوں کے آنے جانے پر پابندی لگی تو امپورٹ ایکسپورٹ پر پابندی سے تجارت شدید متاثر ہوئی۔ پٹرول نہ بکنے کی وجہ سے پٹرول کی تجارت کرنے والے ممالک شدید مندی کا شکار ہوئے۔ ان کے پٹرول کے اسٹاک جیل خانے بن گئے کیونکہ ان کے پاس اپنا فالتو تیل ذخیرہ کرنے کی جگہ نہیں بچی تھی۔
یہ جان لیوا وائرس جس نے اس وقت 210 ممالک کو اپنی زد پر لے رکھا ہے بلاشبہ ہماری شامت اعمال ہے اور قادر مطلق کی ناپسندیدگی کا معمولی اظہار ہے اور چونکہ وہ رب المسلمین کی بجائے رب العالمین ہے، اس لیے ہمیں کسی خش فہمی میں مبتلا ہو کر اس کے غضب سے بچے رہنے کی امید نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ اگر ہم اپنے اعمال کا موازنہ غیرمسلموں سے کریں تو اس میں بھی شرمندگی کا سامنا ہو گا کیونکہ بہت سے بزعم خود اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کے شوقین بہت سے دوسروں کو جو کلمہ گو ہیں ان پر کفر کا فتویٰ لگا کر قربِ خدا کے دعویدار بنتے ہیں لیکن موجودہ عذابِ الٰہی تو شاید بدخصلت انسانوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے اترا ہے جس میں اس نے رنگ، نسل، مذہب، امیر، غریب، ترقی یافتہ وپسماندہ کی تخصیص کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
ان دنوں ساری دنیا میں حکومتیں اپنے شہریوں کو ان کی حفاظت کے لیے Stay home Stay Safe کا پیغام دے رہی ہیں یعنی لوگوں کو House Arrest کیا ہوا ہے یعنی دنیا ان دنوں ایک جیل خانے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اسی جیل خانے سے مجھے 1993 کی یاد نے دل ودماغ کو پہلی بار سینٹرل جیل کے دروازے پر جا کھڑا کیا جہاں میں جیل کی انسپکشن پر گیا تھا۔ سپرنٹنڈٹ جیل نے مجھے ہمراہ لیا اور ہم اس کے آفس پہنچے۔ یہ جیل خانے کا میرا پہلا وزٹ تھا۔ سینٹرل جیل کے کچن میڈیکل اسٹور سمیت سات آٹھ شعبے ہوتے ہیں۔
ان سب کا باری باری جائزہ لیتے اور قیدیوں کی شکایات سنتے ہوئے تین گھنٹے لگ گئے اور انسپکشن اختتام کے قریب تھی کہمیں نے پوچھا کہ اس سینٹرل جیل میں لائبریری بھی ہو گی۔ سپرنٹنڈنٹ جیل نے ذرا گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا "جی ہاں۔" میں اس کے ساتھ ایک لائبریری نما کمرے میں پہنچا جہاں ایک صوفے پر کوئی صاحب لیٹے ہوئے تھے۔ وہ گھبرایا ہوا اٹھا، سپرنٹنڈنٹ جیل نے بتایا کہ بوجہ بیماری اسے یہاں لیٹنے کے لیے سہولت دی ہے۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا یہ نوجوان ایک اعلیٰ افسر کا بیٹا تھا جو اس وقت سزا یافتہ تھا۔
دنیا کے 200 ممالک جن میں کورونا نامی وباء کی وجہ سے ہزاروں مکانوں میں لوگ قیدیوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور تھے، میرے اس مضمون کا اصل موضوع ہے لیکن بیچ میں ایک وی آئی پی قیدی ٹپک پڑا تو میں نے سوچا زندگی کے دوسرے رخ کا ذکر بھی کرتا چلوں۔ وہ وی آئی پی ملزم جسے لائبریری کا صوفہ دیا گیا موجود ہوتا تو خدائے برتر کے غضب کا نشان دیکھتا جو درحقیقت صرف ایک جھلک ہے۔