Tuesday, 08 April 2025
    1. Home/
    2. Hameed Ullah Bhatti/
    3. Badamni Ki Nai Lehr Aur Taliban Qayadat

    Badamni Ki Nai Lehr Aur Taliban Qayadat

    وقت کے ساتھ طالبان پر شبہات میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہوا ہے لیکن ایسے کوئی اِشارے نہیں ملتے کہ دنیا کی تشویش کا طالبان کو بھی احساس ہے بلکہ ان کی بے نیازی ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کے بڑھتے شبہات کی اُنھیں پرواہ ہی نہیں حالانکہ ترقی الگ تھلگ نہیں جڑے رہنے سے ممکن ہے۔ شاید طالبان کو یقین ہے کہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی دنیا کی ضرورت بن کر مال بٹورتے رہیں گے۔

    فوجی انخلا کے بعد کابل میں سی آئی اے کے دفتر کے صلے میں نیروبی کے راستے امریکہ 160 ملین ڈالر ماہانہ افغانستان کو ادا کرتا رہا۔ ہر منگل کو ایک جہاز چالیس ملین ڈالر لیکر کابل آتا اور اتنی مالیت کی افغان کرنسی لے کر چلا جاتا۔ اب تک اِس طرح ہونے والی ادائیگی کا تخمینہ اٹھارہ ارب ڈالر ہے۔ وصول شدہ رقم سے طالبان کو ملک میں ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے میں مدد ملی لیکن ٹرمپ نے ادائیگی کا یہ سلسلہ بند کر دیا ہے۔ طالبان کو دوسری بڑی مالی مدد بھارت سے ملتی ہے جو رقم کے علاوہ ہتھیاروں کی شکل میں ہوتی ہے تاکہ طالبان مجاہدین کو کشمیر کا رُخ نہ کرنے دیں اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں معاونت کریں۔

    آمدنی کا تیسرا زریعہ چین ہے انتہا پسندوں کو چینی علاقوں میں کاروائیوں سے روکنے کے عوض طالبان کو پیسے دیے جاتے ہیں۔ پاکستان کو بھی ابتدا میں پیشکش ہوئی کہ بیس ارب روپے ادا کر دیں تو ٹی ٹی پی کو پاکستانی سرحد سے دور بسا دیں گے مگر پیشکش نہ ماننے پر اب ٹی ٹی پی کے مددگار بن چکے ہیں جس سے بھارت خوش ہے۔ پاک افغان بڑھتی کشیدگی ختم کرنے طالبان کی نظر بلیک میلنگ ہے حالانکہ اِس طرح خطے میں بڑی طاقتوں کو مداخلت کا جواز مل سکتا ہے۔ طالبان ایسے دوراہے پر ہیں جہاں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انھیں بلیک میلنگ سے نظامِ مملکت چلانا ہے یا معیشت کو بہتر کرنا ہے۔ طورخم سرحد کی مسلسل بندش سے بظاہر تو یہی نظرآتا ہے کہ طالبان کو ملکی معیشت سے کوئی دلچسپی نہیں۔

    طالبان طرزِ عمل سے پاکستان ہی نہیں اکثر ہمسایہ ممالک شاکی ہیں۔ پاکستان اور ایران جو کئی عشروں سے لاکھوں افغانوں کی میزبانی کررہے ہیں اور اِس پاداش میں بدامنی کا شکار ہیں۔ منشیات، ناجائز اسلحہ و دیگر جرائم کاسامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ چاہتے ہیں کہ جب بیرونی افواج کا انخلا ہوچکا تو مہاجرین اب واپس چلے جائیں لیکن طالبان قیادت ایسا نہیں چاہتی۔ مخدوش ملکی صورتحال کی وجہ سے مہاجرین بھی واپس نہیں جانا چاہتے۔ اِس بنا پر طالبان عبوری انتظامیہ کے پاکستان اور ایران سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ آٹھ لاکھ افغانوں کو ملک سے بے دخل کرنے کے بعد ایرانی وزیرِ داخلہ سکندر مومنی کہتے ہیں کہ مزید افغان مہاجرین کو ملک میں جگہ دینے سے قاصر ہیں۔

    ایسے حالات میں جب افغانستان میں روزگار اور کاروباری مواقع محدود ہیں یہ آٹھ لاکھ آنے والے شہری ایک نیا دردِ سر بن سکتے ہیں۔ پاکستان ایسا ملک ہے جس نے ہمیشہ افغانوں کا ساتھ دیا وہ بھی بقیہ افغان مہاجرین جن کی تعداد چالیس لاکھ کے قریب ہے کو واپس وطن بھیجنا چاہتا ہے کیونکہ اِن میں سے اکثر دہشت گردانہ کاروائیوں کے ساتھ منشیات اور اسلحہ فروخت میں ملوث ہیں۔ اب تو یہ ملکی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بننے لگے ہیں۔ اسی بنا پر پاکستان نے تمام افغان مہاجرین کو اکتیس مارچ تک ملک چھوڑنے کی ہدایت کر دی ہے۔ عدم تعمیل کی صورت میں گرفتاری و زبردستی ملک بدری کا لائحہ عمل بنالیا ہے۔ یہ صورتحال ہرگز جنم نہ لیتی اگر مہاجرین قوانین کی پاسداری کرتے، پُرامن رہتے۔ مزید یہ کہ طالبان حکومت غیر سنجیدگی اور لاپرواہی کی روش چھوڑ دیتی۔

    پاک فوج ایک پیشہ ور فوج ہے یہ تربیت اور تکنیک میں بہت عمدہ ہے جس نے قلیل وسائل کے ساتھ بھی اَن گنت جانی و مالی قربانیوں کی تاریخ رقم کی۔ یہ کئی عشروں سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں مصروف ہے داعش اور ٹی ٹی پی جیسے جنگجوؤں کے آگے ناقابل تسخیر دیوار ہے اسی بنا پر مذکورہ تنظیمیں جدید ترین اسلحہ اور وسائل کے باوجود ہنوز ناکام ہیں اور پاکستان کو عراق اور شام جیسے انجام سے دوچار نہیں کر سکیں۔

    پاک فوج نے دہشت گرد اور شدت پسند گروہوں کو پیش قدمی سے روک رکھا ہے لیکن طالبان کی حماقتیں اور عالمی شازشیں خطے کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے کے قریب ہیں۔ امریکہ نے پاکستان سے داعش کمانڈر محمد شریف اللہ عرف جعفر کی گرفتاری کے لیے مدد طلب کی اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اپنی پہلی ہی تقریر میں شکریہ ادا کرنے سے پاکستان کو داعش اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کی طرف سے بڑے پیمانے پر کاروائیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ یہ تنظیمیں طالبان کے تعاون سے مزید فعال ہو کر پاکستان اور ایران پر حملے کرسکتی ہیں کیونکہ دونوں اسلامی ممالک ہیں اور عسکری لحاظ سے طاقتور بھی، اسی لیے امریکہ اور مغرب کا خاص طور پر نشانہ ہیں۔ حالات کے خدوخال کا تقاضا ہے کہ نہ صرف پاک ایران قیادت محتاط رہے اور مشترکہ کاروائیوں کا طریقہ کار بنائے بلکہ طالبان کو بھی چاہیے کہ ایسی کسی سرگرمی کاحصہ نہ بنیں جس سے مسلم امہ کے اثاثے متاثر ہوں۔

    ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ دنیا سے جنگوں کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن دنیا سے جنگوں کے خاتمے پر یقین رکھنے والا امریکہ ایشیا میں امن نہیں چاہتا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ چین کو کسی ایسی بڑی جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے جس سے نہ صرف اُس کے وسائل کا زیاں ہو بلکہ معیشت و تجارت سے بھی توجہ ہٹ جائے۔ بھارت کی سرپرستی اور تعاون اسی سلسلے کی کڑی ہے کیونکہ گزرے 75 برسوں کے دوران چین نے کسی ملک سے کوئی بڑی اور طویل جنگ نہیں لڑی وسائل کا بڑا حصہ شہریوں کو غربت سے نکالنے اور صنعت و زراعت پر صرف کرنے کی وجہ سے ہی آج ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی کے اُس دہانے پر ہے کہ اگر آئندہ دوعشروں میں سپر پاور ہونے کا اعلان کرتا ہے تو کسی ملک میں اتنی سکت نظر نہیں آتی کہ اُسے روک سکے۔

    دنیا بھر میں فوجی اِڈے بنانے اور ہر تنازع کا حصہ بننے سے امریکہ کی خلائی ودفاعی تحقیقات اورمعاشی ترقی کی رفتار متاثر ہوچکی ہے اب جنگوں کے خاتمے کی باتوں سے عیاں ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے وسائل صرف چین کے مقابلے پر صرف کرنا چاہتا ہے جس کا ادراک کرتے ہوئے چین کی ذمہ داری ہے کہ پاک ایران قیادت سے مل کر ایسا متفقہ لائحہ عمل بنائے جس سے نہ صرف خطے کا امن و امان تباہ کرنے کی عالمی سازشیں ناکام ہوں بلکہ ترقی و خوشحالی کا جاری سفر مزید تیز ہو۔

    طالبان قیاد ت کا تعاون داعش اور ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کے جلد خاتمے میں مددگار ہوسکتا ہے اِس طرح نہ صرف خطہ عدمِ استحکام کا شکار ہونے سے بچ جائے گا بلکہ طالبان کو ملک میں اپنی رٹ مستحکم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان امن کی بحالی کے راستے پرچلتے ہیں یا مال بٹورنے کو ہی مقصدِ حیات رکھتے ہیں مستقبل قریب میں اِس کا درست جواب مل جائے گا۔

    Check Also

    Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

    By Qasim Imran