پیروکے شہر لیما میں ہونے والے ای پیک کے 31ویں اقتصادی سربراہ اجلاس کی بات کی جائے تو سب سے اہم واقعہ دنیا کی دوبڑی حریف طاقتوں کے سربراہوں کا مل بیٹھنا اور اعتماد سازی کی بات کرنا ہے۔ چینی اور امریکی صدورکے درمیان ہونے والی ملاقات بظاہر خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ چین کے صدرشی جن پنگ اور امریکی صدر جوبائیڈن ایک برس قبل سان فرانسسکو میں بھی ملے تھے اور مختلف شعبوں میں تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے چند رہنما اصول بنائے جن میں فوج، انسدادِ منشیات، قانون نافذ کرنے والے اِداروں، مصنوعی زہانت، موسمیاتی تبدیلی ور عوامی آمدورفت کو فروغ دینا تھا۔
یہ اصول طے کرتے وقت دونوں نے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ سرد جنگ کی طرف لیجانے والی کشیدگی اور محاز آرائی میں کمی لانے کے لیے ایسا لائحہ عمل بنایا ہے جس سے دوریوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی مگر سفارتی حلقے اور عالمی امور پر دسترس رکھنے والے تجزیہ کار متفق تھے کہ جیسا خیال ظاہر کیا جارہا ہے ایسا ہونا بعید از قیاس ہے اور وقت کے ساتھ دوریوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تعلقات بہتر بنانے کے امکانات کا جائزہ لینے اور لچھے دار گفتگوکے باوجود وقت نے ثابت کر دیا کہ ملاقات کے دوران طے پانے والے رہنما اصولوں سے ٹھوس نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ اب بھی واقفانِ کا کہنا ہے کہ ایک برس بعد دونوں صدور میں ہونے والی موجودہ ملاقات اور ایک دوسرے بارے نیک خواہشات کے اظہار سے مستقبل میں بھی بریک تھرو کا امکان نہ ہونے کے برابرہے۔
چین اِس وقت دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے اور امریکہ سب سے بڑی دفاعی قوت، دونوں کو ایک سے زائد چیلنج درپیش ہیں۔ امریکہ دنیا پر اپنا غلبہ برقرار رکھنے سمیت اپنی معیشت کو زوال سے بچانے کی تگ ودو میں ہے جبکہ چین کے لیے معاشی ترقی کی رفتار بحال رکھنا اور ایک چین کی پالیسی اہم ہے۔ تائیوان کو الگ ملک تسلیم کرنے کی بجائے چین اُسے اپنا حصہ کہتا ہے لیکن چینی موقف سے امریکہ کو اختلاف ہے اور وہ تائیوان کو ایک الگ اور خودمختار ملک جیسی عالمی حثیت دلانے کے لیے کوشاں ہے۔ اِس کے لیے نہ صرف گزشتہ چند برس سے امریکی حکام نے تائیوان سے میل ملاقاتیں بڑھادی ہیں بلکہ اُسے اپنی خود مختاری کا تحفظ کرنے کے قابل بنانے کے لیے جدید ترین سلحے اور لڑاکا طیاروں کی فراہمی میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے اور بھارت کو چین سے بھڑ جانے کی تھپکی دینا شروع کر رکھی ہے جس پر امریکہ اور چین کے تعلقات غیر ہموار ہوچکے ہیں۔
چین جس نے ہمیشہ فوجی کی بجائے معاشی طاقت بننے کو ترجیح دی ہے نے امریکی پالیسی کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے خطے میں متحرک ہونے کے ساتھ ہم خیال عالمی صف بندی شروع کردی جس سے نئی سرد جنگ کا امکان قوی تر ہوگیا۔ اسی بنا پر جب بھی چینی اور امریکی صدورکی ملاقات ہوتی ہے تو دنیا اصل اندر کی خبر جاننے کی جستجو میں لگ جاتی ہے۔ اب بھی لیما ملاقات میں دونوں معاشی اور فوجی قوتوں کے درمیان کیا طے پایا ہے؟ یہ جاننے کے لیے سبھی بے چین ہیں۔
کوئی جو بھی کہے اِس میں شائبہ نہیں کہ اب بھی امریکہ ایک ناقابلِ تسخیر ایسی فوجی طاقت ہے جو زوال پذیر معیشت کے باوجود عالمی معاملات کو اپنی پسند کے مطابق حل کرنے پر قادر ہے۔ غزہ، بیروت پر جاری حملوں نیز روس و یوکرین جنگ ختم نہ ہونے میں امریکی کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی یہ فوجی طاقت چینی معیشت سے سخت خوفزدہ ہے اور اُس کی ترقی میں رخنہ ڈالنے کی کوشش میں ہے لیکن باوجود کوشش کے اُسے کسی نوعیت کی کامیابی نہیں مل رہی۔ تنگ آکر تائیوان کی سرپرستی شروع کردی تاکہ چین معیشت سے زیادہ دفاعی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور ہوجائے مگر تائیوان کو اپنا حصہ قرار دینے اور امریکی کردار پر تحفظات کے باوجود چین کی اب بھی معیشت ہی اولین ترجیح ہے۔
اتوار کے روز چینی ہم منصب سے ملاقات کے دوران جو بائیڈن کا بیجنگ سے تصادم نہ کرنے کی بات دراصل اعترافِ شکست ہے۔ چین نے بڑھکانے کی تمام تر کوششوں کو نظر انداز کرتے ہوئے معاشی سرگرمیوں کو کبھی ثانوی درجہ نہیں دیا یہاں تک کہ اپنے مال کی بڑی منڈی ذہن میں رکھتے ہوئے بھارت سے سرحدی معاملات حل کرنے جیسا کڑوا گھونٹ تک پی لیا، مبادا برآمدات پر بُرے اثرات مرتب ہوں۔ اب بھی صدرشی جن پنگ کی امریکی ہم منصب سے ملاقات کو معیشت کے تناظر میں دیکھنا زیادہ بہتر ہوگا جس کی تائید ملاقات اور بعد از ملاقات اُن کے خیالات سے بھی ہوتی ہے۔
صدر شی نے ملاقات کے بعد گزرے چار برس کے دوران اگرچہ دونوں ممالک کے تعلقات میں آنے والے نشیب و فراز کا تذکرہ کرنا نہ بھولے لیکن یہ بھی تسلیم کیا کہ نتیجہ خیز مزاکرت سے تعاون کے کچھ مقاصد حاصل ہوئے ہیں۔ سفارتکاری، سلامتی، معیشت وتجارت، مالیات، فوج، انسدادِ منشیات، زراعت، آب و ہوا کی تبدیلی اور عوامی تعلقات کے بیس سے زائد شعبوں میں رابطہ نظام یا تو بحال یا ازسرے نوقائم کیا گیا جسے مجموعی طور پر استحکام کی طرف پیش رفت کہاجا سکتا ہے، مگر مثبت نتائج کے زکرکے ساتھ یہ بھی یاد دہانی کرادی کہ درست اسٹریٹجک تفہیم یہ ہے کہ نئی سرد جنگ لڑنا اب ناممکن ہے اور چینی ترقی روکنے کی کوششوں کو غیر دانشمندانہ اور ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے ہم منصب سے مطالبہ کیا کہ جو کہا جائے اُس پر قائم بھی رہیں کیونکہ ایسا نہ کرنے سے امریکہ کی ساکھ متاثر ہوگی اور باہمی اعتماد کو نقصان ہوگا۔
برابری کے برتاؤ کا مطالبہ کرتے ہوئے دوٹوک اندازمیں واضح کر دیا کہ امورِ تائیوان، جمہوریت، انسانی حقوق، قومی نظام اور ترقی کا حق چین کی سرخ لکیریں ہیں جنھیں کوئی کراس کرے اِس کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مزید بات چیت اور تعاون پر آمادگی کا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچائے البتہ شورش زدہ دنیا میں یقین اور مثبت توانائی پیدا کرنے کی بات بھی کردی۔
اب جبکہ جو بائیڈن کے رخصت ہونے میں محض دو ماہ رہ گئے ہیں اور نئے منتخب صدر ٹرمپ بیس جنوری سے اپنے عہدے کی ذمہ داریوں کا آغاز کرنے والے ہیں ان حالات میں اِس ملاقات سے کسی بریک تھرو کا بھلے امکان نہیں کیونکہ نومنتخب صدر ٹرمپ چینی اشیا پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کے لیے پُرعزم ہیں تاکہ چینی برآمدات کو محدود کرنے کے مقاصد حاصل کیے جا سکیں لیکن یہ تصور کرلینا کہ ملاقات بلکل ہی بے نتیجہ ثابت ہوگی بھی غلط ہوگا۔
سچ یہ ہے کہ لیما ملاقات سے دونوں طاقتوں کی ترجیحات اور کمزوریاں اُجاگر ہوئی ہیں۔ چین کے لیے آج بھی اپنی معاشی ترقی سب سے زیادہ اہم ہے اسی لیے حتی الامکان امریکی فوجی قوت سے براہ راست ٹکراؤ سے گریزاں ہے۔ علاوہ ازیں امریکی حکام کو بھی کامل ادارک ہے کہ جب چینی معیشت کو ڈی ریل کرنا اُس کے بس میں ہی نہیں تو کیوں نہ ایسے شعبوں میں تعاون بڑھایا جائے جس سے اُس کی ناہموار ہوتی معیشت کو فروغ ملے۔ اِس تناظر میں بھلے لیما ملاقات کسی بریک تھروکی بنیاد نہ بنے البتہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ مسئلہ تائیوان پر امریکی حکام لچک کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ ہیں بشرطیکہ چین عالمی صف بندی میں امریکہ مخالف ممالک کو منظم کرنے کی کوششیں روک دے۔