رواں برس بجلی کے ہوشربا بلوں نے حکومت پر عوامی دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ سیاسی قیادت کے بغیر ہی مہنگی بجلی کے خلاف عوامی حلقے متحرک ہوئے جس پر نجی بجلی گھروں سے خطے کے تمام ممالک سے زیادہ مہنگی بجلی حاصل کرنے کے معاہدوں پر حکومت کو نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کیونکہ ایسا نہ کرنے سے یہ خطرہ تھا کہ کہیں ملک دوباہ سیاسی عدمِ استحکام کے دہانے پرنہ پہنچ جائے۔
یہ انکشاف باعثِ اطمنان ہے کہ حکومت اور آئی پی پیز(انڈیپنڈنٹ پاورپروڈیوسرز) میں ٹیرف ٹیکس کے حوالے سے جاری بات چیت میں ایسی پیش رفت ہوئی ہے جس سے عوام کو ریلیف دینے کے لیے طریقہ کار بننے کے قریب ہے۔ زرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے اپنے سرکاری آئی پی پیز کو رضاکارانہ طور پرٹیرف ٹیکس میں کمی کرنے پر آمادہ بھی کر لیا ہے۔ ایسا ہونے سے اگلے ماہ بجلی کے بلوں پر ریلیف کا فیصلہ سامنے آسکتا ہے۔ یہ امرنہایت حوصلہ افزا ہوگا کیونکہ ایسا ہونے سے مہنگائی کے ستائے کروڑوں صارفین نہ صرف سکھ کا سانس لیں گے بلکہ فیصلے کے مثبت اثرات صنعت وزراعت پر بھی مرتب ہو ں گے اور بند ہوتی صنعت وحرفت کو دوبارہ رواں کرنے کی کاوشیں کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہیں۔
بدقسمتی سے اسی کی دہائی کے دوران سیاست میں سرگرم ہونے والوں کی اکثریت نے قومی مفاد کو ترجیح دینے کی بجائے بدعنوانی کو فروغ دیا جس سے نہ صرف اہلِ سیاست بدنام ہوئے بلکہ عوامی مفاد کے منافی ایسے فیصلے سامنے آئے جو ملک میں روزگار کے مواقع میں کمی لانے کے ساتھ عوامی مشکلات میں اضافے کا سبب بنے جس کی وجہ سے عوام کے لیے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا دشوار ہوتا گیا۔
ملک میں روپے پیسے کی سیاست عام ہونے سے ممبرانِ پارلیمنٹ کے ضمیر خریدنے کے لیے بولیاں لگنے کا آغاز ہوا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے سیاستدان لاکھ اصولی اور قومی سیاست کے دعوے کریں مگر اِس میں شائبہ نہیں کہ دولت کے بل بوتے پر سیاست کرنے والے طاقتور جبکہ عوام کمزور ہوئے۔ ایسے زہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لیے جن کے پاس دولت کی فراوانی نہیں کے لیے سیاسی کامیابی حاصل کرنا ممکن ہی نہیں رہا تنگ آکر ملکی امور سے ہی لاتعلق ہو تے گئے کیونکہ عوام کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے ایوانوں میں کوئی نہ رہا جس کے نتیجے میں عوام مخالف فیصلوں کی راہ ہموار ہوئی اور آج یہ صورتحال ہے کہ عوام کا ملکی امور میں عام آدمی کا کوئی کردار نہیں رہا۔ اُن کا کام صرف ووٹ دینے تک محدود ہے سچ تو یہ ہے کہ عوام کو بے توقیر کرنے کا نتیجہ معاشی طور پر بھی تباہ کُن ثابت ہوا ہے اسی کا شاخسانہ آئی پی پیز معاہدے ہیں۔
ملکی معیشت میں تباہی کے حوالے سے آئی پی پیز کے کردار پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو کئی ایسے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں جو ملک کو معاشی مسائل کے گرداب میں پھنسانے کی بنیاد بنے جس کے نتیجے میں امورِ مملکت کے لیے قرضوں کے حصول کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ کچھ آئی پی پیز سے ایسے معاہدے کیے گئے جن کی بدولت انھوں نے بجلی پیدا کیے بغیر ہی پاکستان سے اربوں روپے وصول کرلیے ایسے آئی پی پیز یہاں تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اُنھوں نے ہر حوالے سے لوٹ مارکے ریکارڈ قائم کیے۔
بنگلہ دیش اور ویتنام کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے توانائی کی قلت پر قابو پانے کے لیے مہنگے معاہدے کیے مگر پاکستان تو مذکورہ دونوں ممالک کو بھی مات دے چکا۔ پاکستان میں کپیسٹی ونڈز پلانٹس مہنگے ظاہر کرکے اوورانوئسنگ کی گئی علاوہ ازیں آئی پی پیز نے جتنا امپورٹڈ فیول درآمد کیا اتنی بجلی پیدا نہیں کی بلکہ ایک طرف حکومت سے اربوں کی سبسڈی حاصل کرلی اور پلانٹس کی دیکھ بھال کی مد میں خطیررقوم وصول کیں جن کا چوتھائی حصہ بھی اِس مد میں خرچ نہ ہوا۔
مزید ستم یہ کہ سبسڈی لیکر درآمد کیا جانے والا فیول نجی مارکیٹ میں بیچ کر بھی مال بنایا گیا یہی وجہ ہے کہ حکومت کے بے پناہ اصرار کے باوجود آئی پی پیز فرانزک آڈٹ سے گریزاں ہیں تاکہ لوٹ مار کی ہوشرباک داستانوں کہیں آشکارنہ ہوجائیں کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں عوامی لاواپھٹ سکتا ہے۔
پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں افرادی قوت کے حوالے سے بھی پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے مگر وسائل اور افرادی قوت سے فائدہ اُٹھانے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کو معاشی طورپر کمزور کیا گیا۔ حاکمانِ وقت نے عوامی اور ملکی مفاد کے منافی آئی پی پیز سے معاہدے کیے ابتدا میں آئی پی پیز لگانے کے اخراجات نہ صرف حکومت نے برداشت کیے بلکہ ابھی تک آئی پی پیز کی انشورنس بھی حکومتی ذمہ داری ہے۔
ٹیکس ڈیوٹی اور انشورنس کی مد میں آئی پی پیز کو اتنی سہولتیں دی گئیں کہ بجلی معاہدوں سے ملکی خزانے کو فائدہ ہونے کا امکان تک نہ رہا البتہ خزانے سے مال نکلوانے کے کئی روزن معرضِ وجود میں آگئے۔ 1990 کی دہائی کے وسط سے 2024تک آئی پی پیز کو 1217ارب کی چھوٹ دی گئی۔ معاہدے کی ایک عجیب شق یہ ہے کہ تمام اخراجات برداشت کرنے کے باوجود معاہدہ ختم ہونے پر پلانٹس حکومت پاکستان کی ملکیت نہیں ہوں گے۔
مزید حیران کن پہلو یہ ہے کہ آئی پی پیز کے بیشتر مالکان پاکستانی شہری ہیں مگر دانستہ طور پر کچھ معاہدوں میں مالکان کے طور پر غیر ملکی شہری ظاہر کیے گئے جسے ملک دشمنی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ 2020 کی محمد علی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ معاہدوں میں عوامی یا ملکی مفاد نظر انداز کرتے ہوئے صرف نجی بجلی گھروں کے مفادات کا تحفظ کرنے پر توجہ دی گئی مگر کسی حکومت نے اِس رپورٹ کو مدِ نظر رکھ کر کام نہیں کیا جس سے لوٹ مار کا سلسلہ بلا تعطل جاری رہا۔
توانائی کے شعبے کے ماہرین برملا کہتے ہیں کہ آئی پی پیز کو بھاری ادائیگیوں نے حکومت کے لیے دیگر اہم شعبوں کے لیے سرمایہ کاری ازحد مشکل بنادی ہے اب جبکہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ آئی پی پیز اپنی لاگت سے سینکڑوں گنا زیادہ منافع بٹور چکے ہیں تو بہتر ہے کہ اب ہی مہنگے ترین معاہدوں پر نظرثانی کرلی جائے اور معاہدوں میں شفافیت لاکر بدعنوانی کے راستے بند کرنے کے ساتھ انھیں ملکی اور عوامی مفاد سے ہم آہنگ کیا جائے۔ اب جبکہ ملکی خزانے میں اتنی بھی سکت نہیں رہی کہ مزید چند برس بدعنوانی کے سلسلے کو جاری رکھ سکے اسی لیے تمام بوجھ صارفین کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے۔
اِس سے سیاسی بے چینی کو تقویت مل رہی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ بیشتر آئی پی پیز مالکان کا تعلق ملک کے بااثر خاندانوں سے ہے جو موجودہ پارلیمنٹ اور حکومت کا حصہ ہیں جن سے عوامی مفاد کے تحفظ کی بات کرنا مشکل نہیں اگر وہ تاخیری حربوں سے کام لیتے ہیں تو آئی پی پیز پر جن چند بااثر خاندانوں کی اجارہ داری ہے اُن کے نام افشا کیے جائیں تاکہ وہ دوبارہ منتخب نہ ہو سکیں اور عوامی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کااحتمال نہ رہے۔