بے وقت کی راگنی محض وقت کا ضیاع ہوتی ہے کام وہی بہتر نتائج دیتا ہے جومناسب وقت پر کیا جائے۔ سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ قلیل تعداد نے ملکی منظرنامے کو یکسر بدل کر رکھ دیا اور بڑی تعداد نے مناسب حالات کا انتظار کیے بغیر جارحانہ انداز میں احتجاجی تحریک شروع کی تو نہ صرف قیادت کے لیے مشکلات بڑھیں بلکہ کارکنوں کو بھی بھگا بھگا کر تھکا دیاگیا۔ جب ملکی سیاسی منظر نامے پر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کا عروج تھا تودونوں نے ایک دوسرے کے خلاف زوردار تحریکیں چلائیں۔
ایک وقت تھا کہ پیپلز پارٹی کے محض سترہ ارکینِ قومی اسمبلی تھے اِس کے باوجود ایک طرف احتجاجی تحریک کا آغاز کیا گیا تو ساتھ ہی دیگر آپشنز پر بھی کام ہوتا رہا حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ ن نے کہنا شروع کردیا کہ بے نظیر بھٹو کی سیاست کا خاتمہ ہوگیا ہے اور وہ اب کبھی برسرِ اقتدار نہیں آسکتیں۔ مگر شوہر آصف زرداری کی گرفتاری کے باوجود بے نظیر بھٹو مایوس نہ ہوئیں اور سترہ اراکین کے بل بوتے پر صدرِ مملکت کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئیں کہ ملک کی مقبول ترین سیاسی رہنما وہی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کرادیے اور محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آگئیں۔ یہ مثال بروقت فیصلوں کی اہمیت سمجھانے کے لیے کافی ہے۔
پیپلز پارٹی کے عین عروج و اقتدار میں نواز شریف نے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جس کا نام تحریکِ نجات رکھا گیا۔ جب تک وقت اور حالات کی نزاکت کا ادارک کیے بغیر جلسے جلوس، ٹرین مارچ اور لانگ مارچ ہوتے رہے تب تک حسبِ توقع نتائج نہ ملے محض کارکنوں کو بھگانے، مقدمات میں الجھانے اور تھکانے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ جلد ہی نواز شریف کو احساس ہوگیا کہ وہ لاحاصل بھاگ دوڑ کر رہے ہیں اسی لیے جارحانہ انداز کے علاوہ حالات کو موافق بنانے پر کام شروع کر دیا اور ایک وقت آیا کہ بے نظیر اور فاروق لغاری میں دوریاں بڑھنے لگیں جسے بھانپتے ہوئے سیاسی چالیں چلیں گئیں۔ آخرکار اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کرائے گئے تو نوازشریف بڑے آرام سے وزیرِ اعظم منتخب ہو گئے پس ثابت ہوا حالات اور وقت کے مطابق بروقت فیصلے کرنے سے حسبِ منشا نتائج ملتے ہیں حالات و وقت کے منافی فیصلے کرنے سے حسبِ منشا نتائج ملناتو ایک طرف، جارحانہ انداز سے اپنی ہی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔
انقلاب لانے کے لیے عوام کا ساتھ ناگزیر ہے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عوام کی قلیل تعداد کے ساتھ انقلاب کی منزل حاصل ہو۔ یہ درست ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو مقبولیت حاصل ہے جس کا رواں برس آٹھ فروری کے انتخابات میں عوام نے اظہار بھی کیا، مگر عوام کی اکثریت اب بھی خاموش ہے اِس لیے یہ تصور کرلینا کہ انقلاب کے لیے حالات سازگار ہیں اور عوام جارحانہ انداز میں کٹ مرنے کو تیار ہیں درست نہیں۔ نیز کئی فیصلوں سے تو اب ایسا تاثر بن رہا ہے کہ ملک یا عوام کے مفاد کی بجائے پی ٹی آئی کو صرف اقتدار حاصل کرنے سے غرض ہے۔
ایک سیاسی جماعت کے لیے ایسا احساس پیدا ہونا بہت خطرناک ہے کیونکہ ایسا احساس کسی بھی جماعت کی مقبولیت کو متاثر کرنے کے لیے کافی ہے۔ 2014 میں چینی صدر شی جن پنگ کے دورے سے قبل اسلام آباد پر چڑھائی کی گئی اور 126 دن پر محیط ایک طویل ترین دھرنے کا آغاز کیا گیا۔ ریاستی اِداروں پر حملے کیے گئے لیکن حالات ناموافق ہونے کی بنا پر جارحانہ اندازکے باوجود پی ٹی آئی کو اقتدار کی منزل نہ مل سکا۔ اسی دھرنے کی سختیوں اور تھکاوٹ سے طاہر القادری اِتنے مایوس ہوئے کہ سیاست سے ہی کنارہ کش ہو گئے یہ دھرنا نتائج کے حوالہ سے بہت سبق آموز ہے مگر سیکھتا وہی ہے جو سیکھنے پر آمادہ ہو نرگسیت کے مارے سیکھ نہیں سکتے۔
سیاسی جماعتوں کے لیے کارکنوں کو مطمئن رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے لیکن ٹامک توئیاں مارنا بھی دانشمندی نہیں ایسے حالات میں جب پہلے جلسے کے اثرات و مقدمات ختم نہیں ہوئے پی ٹی آئی کا دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنا ناقابلِ فہم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلے جلسے میں امین گنڈاپور اور دیگر مقررین کی زبان و بیان سے کچھ حاصل نہیں ہو سکا بلکہ رہنماؤں اور کارکنوں کی مشکلات بڑھیں۔ اسی بنا پر اسلام آباد پر چڑھائی کے فیصلے کو کسی صورت صائب فیصلہ نہیں کہہ سکتے مگر دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی سے ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے سوا کسی کو اقتدار کے لائق تصور ہی نہیں کرتی۔ اسی لیے حالات کا ادراک کیے بغیر جارحانہ انداز میں سرگرداں ہے جسے فہمیدہ حلقے ملکی مفاد کے منافی سمجھتے ہیں مگر پی ٹی آئی کی قیادت احتجاج کے لیے سنجیدہ اور یکسو نظر آتی ہے۔ شاید قیادت کا خیال ہے کہ احتجاج کے سوا کوئی اور آپشن ہی نہیں اسی لیے اُن کے طرزِ عمل اور اعلانات احتجاج کو وسیع اور زوردار بنانے کی طرف اِشارہ کرتے ہیں یہ طرزِ عمل اور اعلانات وقت کا ضیائع ہیں اِس طرح تو کارکنوں کے لیے مشکلات میں ہی اضافہ ہوگا لہذا نظرثانی کی ضرورت ہے۔
ایسے حالات میں جب غیر ملکی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے پہلے ایس سی او کے وزرائے تجارت کی بیٹھک ہوئی پھر ملائشیا کے وزیرِ اعظم پاکستان تشریف لائے اب سعودی عرب کاایک ایسا وفد دورے پر ہے جو نہ صرف سرمایہ کاری کا جائزہ لے گا بلکہ دو ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کے معاہدے کرے گا۔ نیز ایس سی او کے سربراہی اجلاس کے شرکا کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہونے ولا ہے۔ اِس تناظر میں پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک بے وقت کی راگنی محسوس ہوتی ہے جس سے فہمیدہ حلقوں کے ساتھ مقدرہ بھی مزید بے زار ہو سکتی ہے۔
پی ٹی آئی کا بیانیہ ہے کہ اُس کے بانی رہنما کو حکومت سے امریکہ نے محروم کیا مگر احتجاجی تحریک سے ایسے کسی بیانیے کی نفی ہوتی ہے اور اب تو لوگ دریافت کرنے لگے ہیں کہ جب بھی چینی مہمان پاکستان کی سرزمین پر آتے ہیں تو پی ٹی آئی اچانک جارحانہ انداز میں سڑکوں پر کیوں آجاتی ہے؟ ایسا پہلی بار نہیں ہورہا بلکہ بار بار ایسا ہورہا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ چین کو پاکستان سے دورکرنے کے لیے پی ٹی آئی آلہ کار ہے؟
اگر یہ سوال یا الزام غلط ہے تو جارحانہ انداز کی بجائے حالات و وقت کا ادراک کرتے ہوئے فیصلے کیے جائیں عین غیر ملکی مہمانوں کی آمدکے دوران یا قبل ہی جارحانہ احتجاج تحریک شروع کرنا ملک و قوم کے لیے سود مند نہیں۔ پی ٹی آئی کو سمجھنا چاہیے عدمِ استحکام کے شکار میزبان ملک میں کوئی ملک سرمایہ کاری پر آمادہ نہیں ہوسکتا چاہے کتنا ہی گہرادوست ہو لہذا جارحانہ انداز کے لیے جب حالات سازگار نہیں تو کیا بہتر نہیں کہ ملکی مفاد کے لیے احتجاجی سیاست ترک کردی جائے تاکہ ملک معاشی استحکام کی منزل حاصل کر سکے۔