فلسطینیوں کی نسل کشی ہوتی دیکھ کر بھی مسلم ممالک نے غیر جانبداری ختم نہیں کی تاکہ امریکہ راضی رہے لیکن نہ تو امریکہ اُن سے مکمل طورپر خوش ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک کے لیے اسرائیل مہلک خطرہ بنتا جا رہا ہے جس سے ماہرین تیسری عالمی جنگ کا خطرہ محسوس کرنے لگے ہیں۔ دراصل اسرائیل نے فلسطین، لبنان اور شام پر حملوں کے ساتھ دیگر ممالک میں بھی ایسے افراد کو نشانہ بناناشروع کردیا ہے جنھیں وہ اپنا دشمن خیال کرتا ہے کیونکہ اُسے امریکہ کی غیرمتزلل حمایت حاصل ہے اِس لیے وہ کسی ملک کی آزادی وخود مختاری کو خاطر میں نہیں لاتا اور پامال کر گزرتا ہے۔ یہ طرزِعمل اُسے نہ صرف خطے میں یک وتنہا کرنے کا باعث ہے بلکہ تمام ہمسایہ ممالک کو خفا کرنے کا موجب ہے۔
اِس ضمن میں ایران و اسرائیل بڑھتی کشیدگی سے ماہرین تیسری عالمی جنگ کا خطرہ محسوس کرنے لگے ہیں امریکہ میں جاری صدارتی الیکشن مُہم کے دوران بھی تیسری عالمی جنگ کی باتیں زیرِ گردش ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر تیسری عالمی جنگ شروع ہوتی ہے تو اُسے ختم کرنے اور عالمی امن بحال کرنے کے لیے کیا اقوامِ متحدہ یا کوئی اور ملک فعال کردار ادا کر سکے گا؟ بظاہر حالات اِس بارے کچھ موافق نہیں لگتے۔
ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر میزائل برسائے جن سے کتنا جانی یا مالی نقصان ہوا نیز اسرائیلی دفاعی تنصیبات کوتباہ کرنے کے ایرانی دعوے میں کتنی صداقت ہے؟ وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اسرائیلی زرائع ابلاغ پر حکومت کی گرفت ہے۔ اِس لیے وہ بس وہی شائع کرتے ہیں جس کی حکومت اجازت دیتی ہے۔ آزاد زرائع ابلاغ کی اسرائیل میں موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے اسی بنا پر حقائق سے دنیا لاعلم رہتی ہے۔ اگر ایرانی دعووؤں کے درست ہونے کا یقین کر بھی لیا جائے تو بھی یہ نقصان غزہ کی تباہی کے عشر عشیر بھی نہیں لیکن ایرانی میزائل حملے سے قبل ہی امریکہ میں تیسری عالمی جنگ کی باتیں کرنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایرانی تیاریوں کی بابت امریکہ کو آگاہی تھی اسی لیے تیسری جنگ کی باتوں کو اُچھالا گیا مگر ایران نے جب ہر قسم کے خطرے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میزائل حملہ کر دیا تو اب جواب دینے کے لیے اسرائیل کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
حالانکہ آزاد و خود مختار ملک کی آزادی و خودمختاری پامال کرنے پر ایرانی جواب باعث حیرانگی نہیں مگر اِس جواب پر اسرائیلی قیادت مشتعل ہے جو اِس بنا پر غلط ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں آئے روز ہونے والی اکثر لڑائیوں کا وہ مرکزی کردار ہوتا ہے نہ صرف اُس کا وجود مسلط کردہ ہے بلکہ کئی ہمسایہ ممالک کے علاقوں پر زبردستی قابض ہے اور اب جنونی صیہونی قیادت گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر کام شروع کر چکی ہے جو امن کے لیے نہایت خطرناک ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو کئی وجوہات کی بنا پر تیسری عالمی جنگ کے خطرے کی مکمل طورپر نفی کرنا ممکن نہیں رہے گا۔
دنیا میں اِس وقت کئی ممالک بیرونی جارحیت کا سامنا کر رہے ہیں جن میں فلسطین کا علاقہ غزہ، لبنان، شام اور یوکرین سرِ فہرست ہیں مگر جب عالمی ردِ عمل دیکھتے ہیں تو جانبداری نمایاں محسوس ہوتی ہے۔ امریکہ سمیت یورپی ممالک روسی حملے کو جارحیت قرار دیتے ہیں اور اِس جارحیت کو ختم کرانے پر سب کا کامل اِتفاق ہے کیونکہ اگر یہ جنگ روس جیت جاتا ہے تو نہ صرف ڈالر کی اجارہ داری ختم ہونے کا امکان ہے بلکہ امریکی غلبہ متاثر ہونے کا عمل بھی تیز ہو سکتا ہے۔ اسی لیے یوکرین کو دھڑا دھڑ دفاعی امداد دے رہے ہیں۔ مگر یہی ممالک مشرقِ وسطیٰ میں جاری اسرائیلی حملوں کو ختم کرانے میں کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیل چاہے جس ملک کی آزادی وخود مختاری پامال کرے یا نسل کشی جیسے انتہائی اقدامات، امریکہ اور یورپی ممالک اُس کا دفاعی حق قرار دیتے ہیں۔ یہ ناانصافی پر مبنی رویہ ہی مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے شعلے تیز کررہا ہے اگر ظلم وناانصافی پر مبنی رویہ جلد ترک نہیں کیا جاتا تو یہ تیسری عالمی جنگ پر منتج ہو سکتا ہے۔ ضرروت اِس امرکی ہے کہ ناانصافی کی حمایت کرنے کی بجائے انصاف سے کام لیا جائے تاکہ جنگ وجدل کا ماحول نہ بنے اور دنیا کو پُرامن بنانے کا مقصدحاصل ہو سکے۔
اسرائیل سائنس وٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے علاوہ ازیں اُس کی کاروائیوں کا دفاع کرنے کے لیے امریکہ اور یورپی ممالک ہمیشہ پیش پیش ہوتے ہیں اسی بنا پر اِتنا خود سر ہو چکا ہے کہ اب کسی کو خاطر میں نہیں لاتا لیکن کیا ایران کی پُشت پناہی کے لیے کوئی ملک موجود نہیں؟ ایسا خیال کرنا غلط ہے اگر اسرائیل کو امریکی اور یورپی ممالک کی حمایت حاصل ہے تو ایران بھی یک و تنہا نہیں بلکہ اُسے بھی روس اور چین کی حمایت حاصل ہے۔
اگر جنگ وسیع ہوتی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ عالمی طاقتیں متحرک نہ ہوں امریکہ نے تو علاقے میں ابھی سے ہی افواج تعینات کردی ہیں تاکہ اسرائیل کے لیے مزید ممالک کو خطرہ بننے سے روکا جا سکے مگر موجودہ ماحول میں روس اور چین جیسی دفاعی اور معاشی طاقتوں کے لیے زیادہ دیر لاتعلق رہنا ممکن نہیں جس کی وجہ سے لڑائی محدود نہیں رہے گی بلکہ بے شمار ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک جارحیت کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے امن اقدامات کی طرف آئیں تاکہ انسانی بقا کو لاحق خطرات ختم ہوں۔
جنگیں ختم کرانا اقوامِ متحدہ کی ذمہ داری ہے مگر جب بات طاقتور ممالک کی آتی ہے تو یہ اِدارہ اکثر ناکارہ ثابت ہوتا ہے اسی لیے عالمی تنازعات حل نہیں ہو رہے اور اِس اِدارے کا بھی کردار محدود ہوتا جارہا ہے اِن حالات میں امریکہ اور یورپی ممالک کا مشرقِ وسطیٰ میں جاری لڑائی کا حصہ بننے پر روس اور چین بھی مداخلت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ اِس طرح مزید محاز کھلتے جائیں گے اور تیسری دفعہ نسل انسانی خطرات کے گھیراؤ میں آ جائے گی لہذا ضروری ہے کہ ناانصافی کی سرپرستی سے گریز کیا جائے۔
اسرائیل نے یروشلم پر 1967 میں قبضہ کیا تو اقوامِ متحدہ نے اِس مقدس شہر کو عالمی شہرقرار دیکر اپنی ذمہ داری میں لے لیا مگر پاس ہونے والی قراردادوں سے انحراف کرتے ہوئے 1980 سے پروشلم کو اسرائیل نے اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا ہوا ہے لیکن یہ عالمی اِدارہ اپنی قرارداد پر عمل کرانے کی بھی ہمت نہیں کر سکا اب تو صورتحال یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اسرائیلی وزیر بین گوین کہتا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ کو گرا کر یہودی عبادت گاہ بنائی جائے۔
دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بنائی جانے والی یہودی بستیوں کو عالمی عدالتِ انصاف نے غیر قانونی قرار دیا لیکن اِن فیصلوں پر بھی ابھی تک عمل درآمد نہیں کرایا جا سکا جس سے خطے میں ایک اور بڑی ایسی جنگ کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں جس کی لپیٹ میں دنیا کے کئی بڑے ممالک بھی آسکتے ہیں حالات کا تقاضا ہے کہ تیسری عالمگیر جنگ روکنے کے لیے ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کیا جائے وگرنہ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی میں لڑی جانے والی لڑائی سے سب کچھ بھسم ہو سکتا ہے۔