ہر ملک کو دفاع کا حق ہے مگر کسی دوسرے ملک کی آزادی و خودمختاری پامال کرنے کاکوئی حق نہیں، لیکن مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل دفاع کے نام پر نسل کشی میں مصروف ہے۔ اِس خطے میں جاری نسل کشی روکنے میں اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی اِدارے ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ ایسا بدقسمت خطہ ہے جہاں کئی دہائیوں سے وحشت و سفاکیت کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں مگر عالمی بے حسی میں کمی نہیں آئی۔
اسرائیل جب چاہتا ہے ہمسایہ ممالک کو جارحیت کا نشانہ بناتا اور اپنی پسند کے مطابق سرحدوں کاتعین کرلیتا ہے اُسے کوئی روکنے والا نہیں وہ آئے روز اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی نفی کرتا اور انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑاتا ہے مگر اقوامِ متحدہ سمیت کوئی عالمی طاقت جواب طلبی نہیں کرتی بلکہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک تو جارحانہ کاروائیوں کواُس کا دفاع کا حق کہتے ہیں۔ انسانی حقوق اور عالمی امن کا دعویدار امریکہ شب و روز اسلحہ و گولہ بارود پہنچا رہا ہے تاکہ سفاکانہ حملے جاری رکھنے میں دشواری نہ ہو۔
یہ طرزِ عمل عالمی امن کو تباہ کر سکتا ہے۔ اسرائیل جیسے مذہبی تعصب کا مظاہرہ کسی مسلم ملک کی طرف سے ہوتا تو اقوامِ متحدہ نہ صرف ہر قسم کی کارروائی کی اجازت دے چکی ہوتی بلکہ امریکہ جیسا ملک اپنے حواریوں کی ہمرکابی میں لائو لشکر سمیت چڑھائی کر تے ہوئے ایسے ملک کو تاراج کرچکا ہوتا، مگر کیونکہ جارح اسرائیل ہے اورنسل کشی مسلمانوں کی ہورہی ہے اسی لیے قتلِ عام پرخاموشی ہے اور دفاعی امداد دے کر نسل کشی کی استعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے۔
جدید دنیا اتنی سنگ دل اور سفاک ہے کہ طاقتورکو تمام قوانین و ضوابط سے بالاتر قراردے دیاگیاہے بظاہر تو عالمی اِدارے وعالمی طاقتیں شاید نفی کریں مگر مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی کارروائیوں سے ظاہر ہے کہ جدید دنیا سفاکی، سنگدلی اور بے رحمی میں زمانہ قدیم کو مات دے چکی ہے لیکن اگرامن کے لیے جلد اقدامات نہیں کیے جاتے تو خطے کے کئی ممالک کی جغرافیائی حدودمیں تبدیلی نوشتہ دیوارہے جس سے ایک طویل اور تباہ کُن لڑائی چھڑنے کا اندیشہ ہے۔
دنیا میں جانوروں سے بہتر سلوک کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں جس میں مغربی ممالک پیش پیش ہیں کتے، بلیوں اور دیگر جانوروں کی فلاح و بہبود کے نام پر عطیات اکٹھے کیے جاتے ہیں تاکہ کوئی شخص بے زبان مخلوق سے بے رحمانہ سلوک نہ کرسکے مگر گزشتہ برس سات اکتوبر سے اسرائیل مسلسل فلسطینی علاقے غزہ پر بمباری کررہا ہے۔ یہاں تمام رہائشی عمارات تباہ ہو چکیں غزہ کے مکینوں سمیت اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام فلاحی اِداروں کے کارکنان اور صحافی تک بے رحمانہ فضائی حملوں میں ماردیے گئے لیکن عالمی طاقتیں کہتی ہیں کہ یہ اسرائیل کی دفاعی کاروائیاں ہیں۔
ارے بھائی دفاع کا حق تسلیم مگر نسل کشی کا کیا جواز؟ فضائی حملوں کے آغاز میں تو چندماہ تک مرنے والوں کی تعداد سے دنیا آگاہ ہوتی رہی اب تو غزہ کی اصل صورتحال بارے کسی کو کچھ معلوم نہیں اسی بناپر آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ غزہ مکینوں کی اکثریت موت کی نیند سُلائی جا چکی اور جو زخموں سے چور قلیل تعداد ابھی حیات ہے وہ بھی قحط کا شکار اور مرنے کے قریب ہے لیکن اسرائیل کی محافظ مہذب کہلوانے والی طاقتیں صیہونی ریاست کی پشت پناہی پر متفق ہیں مظلوم، معصوم اور نہتے فلسطینیوں کا مقدمہ لڑنے والا کوئی نہیں۔
کیا یہ غلط ہے کہ فلسطین کے متعلق اقوامِ متحدہ کی پا س کی گئی قراردادوں سے انحراف کرنے کی بجائے عملدرآمد ہوتا تو حماس معرضِ وجود میں نہ آتی۔ 1982 میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ہی حزب اللہ تشکیل پائی حماس اور حزب اللہ بنانے میں ظلم وجبر اور وحشت کا کلیدی کردار ہے جنھیں امریکہ اور مغربی ممالک دہشت گردکہتے ہیں لیکن ابھرتی طاقت چین اِن تنظیموں کودہشت گرد تصور نہیں کرتی اِس معاملے میں روس، شام، ایران اور شمالی کوریا بھی چین کے ہم خیال ہیں۔
اسرائیل کو محفوظ بنانے میں امریکہ ہمیشہ پیش پیش رہتا ہے 2020 میں اُس نے ایرانی القدس فورس کے جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد ائرپورٹ سے نکلتے ہوئے ڈرون حملے میں شہید کر دیا، غزہ پر حملوں کے دوران اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارتی مشن کو نشانہ بنا کر تباہ کر دیا نو منتخب ایرانی صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی غرض سے تہران آئے۔ حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کو31 جولائی 2024 میں شہید کر دیا۔
غزہ اور شام کے ساتھ اب اسرائیل کی جنونی قیادت نے لبنان کو نشانے پر رکھ لیا ہے فضائی اور میزائل حملوں میں بے دریغ شہری آبادی کو موت کے گھاٹ اُتارا جارہا ہے۔ ایسی بے رحمی کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی جس کا مظاہرہ مشرقِ وسطیٰ میں کیاجارہا ہے موبائل اور پیجر دھماکوں سے خوف و ہراس پھیلانے کے بعد براہ راست حملوں سے لبنان کو نشانہ بنانا مسلم نسل کشی کاحصہ ہے۔
گزشتہ ماہ اٹھائیس ستمبر کو بیروت میں حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصراللہ کو شہید کرنے پر وزیرِ اعظم نیتن یاہو کا خیال ہے کہ بدلہ لینے کے ساتھ اُس نے اپنے ملک کا ایک بڑا دشمن ختم کر دیا ہے لیکن اِس طرح مزاحمتی تحریکیں ختم نہیں ہوتیں۔ 1992 میں اسرائیل نے ایک فضائی حملے میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل عباس الموسوی کوشہیدکیا تو بھی اسرائیلی وزیرِ اعظم اسحاق میر نے یہی کہاتھا کہ اُس نے اسرائیل کو محفوظ کردیا ہے، مگر حسن نصراللہ کے جانشین بننے سے محفوظ ہونے کا خیال غلط ثابت ہوگیا۔ اب حسن نصراللہ کی جانشینی سخت گیر نعیم قاسم کو مل گئی ہے جس سے مزاحمتی تحریک کو نئی وسعت مل سکتی ہے۔
امریکہ جسے امن اور انسانی حقوق کا علمبردار کہلوانے کا شدید عارضہ لاحق ہے نے مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی بے رحمانہ و سنگدلانہ کاروائیاں روکنے کا طریقہ کار بنانے کی بجائے خطے میں اپنی افواج بھیج دی ہیں تاکہ کوئی ملک اسرائیل جیسی ظالم، جابر اور جارح ریاست کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل کو اہداف حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں اسی بنا پر تو بلا خوف و خطر اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے عالمی قوانین روند رہا ہے کیونکہ اُسے بڑی عالمی طاقتوں کی معاونت حاصل ہے مگر کیا ہمیشہ حالات ایسے ہی رہیں گے؟
وثوق سے ایسے کسی خیال کی تائید نہیں کی جا سکتی یہ درست ہے کہ اسرائیل کے ہمسایہ ممالک فی الوقت اُس کی جارحیت روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اسی لیے وہ جسے چاہتا ہے دبوچ کر ملبے کا ڈھیر بنا دیتا ہے اور اگر کوئی ملک مقابلے کی جرات کرتے ہوئے دفاعی حکمتِ عملی اپنائے تو امریکہ جھٹ دہشت گردی کا الزام لگا کر پابندیاں لگا دیتا ہے، لیکن اب حالات بدل رہے ہیں نہ صرف طاقت کا توازن چین کی طرف ہو رہا ہے بلکہ روس بھی کھویا وقار بحال کرنے کی جدوجہد میں ہے جس کی وجہ سے یہ کہنا خلافِ حقیقت نہیں کہ زیادہ دیر تک ناانصافی کا برقرار رہنا مشکل ہے نیز دفاع کے نام پر نسل کشی سے اسرائیل اپنے لیے ہی خطرات میں اضافہ کررہا ہے اِس طرح خطہ تو بدامنی کا شکار ہوگا ہی، اسرائیل بھی غیر محفوظ ہو سکتاہے۔