کبھی کوئی یاددلاتا ہے "آدمی کے لیے وہی کچھ ہے، جس کی اس نے سعی کی۔" پھر کس رسا ن سے ہم بھول جاتے ہیں۔ ملّا اور جاگیردار کے زیرِ اثر صدیوں سے بگڑی عادات، خوئے غلامی اور خود ترسی۔
اے کشتہء سلطانی و ملّائی و پیری
پاکستان میں پانی اب کم ہے لیکن کیا یہ واحد ملک ہے، جو اس امتحان میں مبتلا ہے۔ آسٹریلیا اور اسرائیل میں فقدان اور بھی زیادہ ہے۔ آسٹریلیا کا بڑا حصہ ایک بے آب و گیاہ صحرا ہے اور کم و بیش اسرائیل بھی۔ مسائل کی آنکھوں میں جو آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتے ہیں، حل بھی ڈھونڈلیتے ہیں۔ بتدریج وہ فواروں سے آبپاشی اور پھر Drip Irrigationکی طرف چلے گئے۔ خود اس ناچیز نے ایک تجربہ کیا۔ کاشتکاری کا جو کوئی پسِ منظر نہ رکھتا تھا۔ 25میں سے چھ ایکڑ زمین پر فوارے نصب کیے گئے۔ پیداوار میں چالیس فیصد اضافہ اور پانی کا استعمال صرف دس فیصد۔ مطلب یہ کہ 6ایکڑ زمین عملاً 8.40ایکڑ ہو گئی۔ ٹیوب ویل پر صرف ہونے والی بجلی کی بچت اس کے سوا۔ بقیہ زمین کے لیے کھالے پختہ کر دیے گئے۔
ڈاکٹر ظفر الطاف پورے وثوق سے ایک حل تجویز کیا کرتے۔ ان کے بقول اگر تمام زیر کاشت اراضی کے لیے فوارے نصب کرنے کا قومی منصوبہ تشکیل دیا جائے تو 70اور 80ہزار کی بجائے صرف پانچ ہزار روپے ایکڑ اٹھیں گے۔ فرض کیجیے، افراطِ زر سے خام مال بہت مہنگا ہو چکا ہو تو زیادہ سے زیادہ بیس پچیس ہزار روپے۔ نوے فیصد پانی بھی تو بچ رہے گا۔ باقی ماندہ دو کروڑ ایکڑ سب کے سب سیراب ہو سکیں گے۔ صرف اس ایک اقدام سے پیداوار دوگنا سے زیادہ ہو جائے گی۔ زراعت کے جدید طریقے برتے جائیں تو ایک عظیم زرعی انقلاب برپاہو۔
چین نے سالانہ بیس ارب ڈالر کاگوشت خریدنے کی پیشکش کی ہے۔ کاشتکاری سے زیادہ آمدن گلہ بانی میں ہوتی ہے۔ تقریبا تمام زیرِ کاشت اراضی کے لیے قدرتی کھاد بھی مہیا ہو سکے گی۔
امسال صرف کپاس کی درآمد پہ تین ارب ڈالر اٹھ گئے۔ بہتر بیجوں کی فراہمی سے پنجاب اور سندھ کے میدان اس قدر غلہ پیدا کر سکیں گے کہ افغانستان سمیت پورے وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے صحرانشینوں کا پیٹ بھر سکیں۔ وہ بھی نامیاتی گیہوں سے، عالمی منڈی میں، جس کی قیمت کم از کم دو گنا ہوگی۔ ماہرینِ زراعت میں سے ایک، جھنگ کے حفیظ وصی محمد خان کہتے ہیں کہ قدرتی کھاد کے موزوں استعمال سے کہیں زیادہ پیداوار ممکن ہے جو زہر آلود مصنوعی کھادوں سے حاصل ہوتی ہے۔ افسوس کہ علم نہیں، تعلیم نہیں، سلیقہ نہیں، تربیت نہیں۔
ہم سوچتے کیوں نہیں؟ غو رو فکر اور منصوبہ بندی کیوں نہیں کرتے۔ اس لیے کہ لیڈروں کی بیشترتوانائی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کھپ جاتی ہے۔ رہی سول سروس تو اب وہ سول سروس کہاں ہے، چند با رسوخ درباری۔ انتہا یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنروں کا تقرر بھی نقدی کے عوض ہونے لگا۔ جدوجہد ہی نہیں، جستجو ہی نہیں، تب و تاب ہی نہیں۔
جون 634ء کے اوائل میں سیف اللہؓ نے نو ہزار مجاہدین کو حیرہ سے کوچ کا حکم دیا۔ سفر کا آغاز ہونے والا تھا کہ رافع ایک بار پھر ان کے پاس آئے۔ بولے: اتنی بڑی فوج کے ساتھ آپ صحرا عبور نہیں کر سکتے۔ ایک تنہا آدمی کو بھی جان کی بازی لگانا پڑے۔ برہمی سے دیکھا اور کہا "رافع! تیرا برا ہو۔ حکم کی تعمیل کرو۔ کسی دوسرے کمتر راستے کا مجھے علم نہیں اور جلد از جلد شام پہنچنا ہے۔
دھوپ کی شدت سے صحرا تپ رہاتھا۔ پانچ دن کا پانی تین دن میں تمام ہوا۔ ایک پوری رات سپاہ نے جاگ کر کاٹی۔ گلے خشک ا اور زبانیں سوج گئی تھیں۔
فوج کا پیش دستہ جب اس مقام پر پہنچا، جہاں چشمے کی توقع تھی تو رہبری کرنے والا رافع بینائی کھو چکا تھا۔ اپنا عمامہ اس نے آنکھوں پر باندھا اور اونٹ کو روک لیا۔ اپنی بیٹھی ہوئی آواز کو بلند کرتے ہوئے اس نے کہا: عورت کے اوپری جسم سے ملتے جلتے دو ٹیلوں کو تلاش کرو۔ ٹیلے ڈھونڈ لیے گئے تو دوسروں کی طرح پریشان حال رافع نے یہ کہا"اس خاردار درخت کو تلاش کرو، جو بیٹھے ہوئے مرد کی طرح لگتاہے۔ وہ ناکام رہے۔ کسی درخت کا نام و نشان تک نہ تھا۔
"انا للہ ونا الیہ راجعون" رافع نے کہا۔"پھر ہم سب مارے گئے لیکن ایک بارپھر کوشش کرو۔" اب ایک خاردار تنا تلاش کر لیا گیا۔"اس کی جڑوں کے نیچے کھدائی کرو"رافع نے بے تابی سے کہا۔ کھدائی کرنے والے اس سے کہیں زیادہ بے تاب تھے۔ مورخ واقدی نے لکھا ہے "پانی اب ایک ندی کی طرح بہہ نکلا"سیر ہو کرسب نے پیا، جانوروں کو پلایا گیا۔ مشکیزے سب بھر لیے گئے۔ اس کے باوجود بچ رہا۔
یہ کٹھن مسافت بالاخر عبور کر لی گئی، جو پہلے کسی نے طے نہیں کی تھی اور نہ بعد میں کر سکا۔ اب سویٰ کی آبادی کا آغاز تھا۔ ایک ویران صحرا میں ہلاکت سے وہ بال بال بچے تھے۔ خطرہ کس قدر مہیب تھا، پورا اندازہ خالدؓ کو تب ہوا، رافع نے جب بتایا: امیر میں اس چشمہ پر صرف ایک بار اترا تھا۔ لڑکپن میں اپنے والد کے ساتھ۔۔ یہ تیس برس پہلے کا واقعہ ہے۔ انسانی صلاحیت کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی۔ خطرات جتنے شدید اور چیلنج جس قدر عظیم ہو، انسانی استعداد، اتنی ہی قوت سے بروئے کا رآتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ارادے پختہ اور حوصلے جوان ہوں۔
غلامی کی صدیوں، جاگیردارانہ نظام او رنظامِ عدل سے محرومی نے قویٰ مضمحل کر ڈالے ہیں۔ اس پر وہ سیاسی لشکر، جن کی باگ شعبدہ بازوں اور احمقوں کے ہاتھ میں ہے۔ ا س پر وہ مرعوب دماغ جو انہیں دیوتا سمجھتے ہیں۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
دنیا بدل گئی۔ مٹی کے بغیر فصلیں اگانے لگی۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ بھارت کی نگرانی کے لیے امریکہ، جاپان اور آسڑیلیا جس کے پشت پناہ ہیں چین نے 144سیارے فضا میں چھوڑے ہیں۔ جی ہاں! پورے 144۔ بھارت کے دفاعی ماہر نے کہا: میدانِ کارزار میں مقابلہ اب فوجی دستوں نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے درمیان ہو گا۔ خلائی رفعتوں سے چینی ماہرین، گلگت بلتستان، کشمیر کے دونوں حصوں، ارونچل پردیش اور تبت پہ نگراں رہیں گے۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ابھی تک اپنے کھیتوں کوہموار نہیں کر سکے۔ کہیں پانی کھڑا رہتا ہے، کہیں پہنچ نہیں پاتا۔ کاشتکاروں کی اکثریت مٹی کا تجزیہ تک نہیں کراتی۔ کس جنس کو موزوں ہے اور کن عوامل سے لبریز یا محروم ہے۔ کرم کش ادویا ت میں ملاوٹ اور کھاد گاہے نایاب۔ کسان کی گردن پہ آڑھتی سوا رہے۔ اس کی آمدن کا کم از کم ایک تہائی ہڑ پ کرجاتا ہے۔ بیج کمزور اور سرکار محوِ خواب!
ماضی میں ہم زندہ ہیں اور ماضی میں کوئی زندہ نہیں رہ سکتا۔ افتاد پڑتی ہے توہوش وخرد کی بجائے جنگل کے درختوں سے لپٹ کر روتے ہیں۔ طعنہ زنی کے لیے لیڈران کرام صف بندی فرماتے ہیں۔ کبھی کوئی یاددلاتا ہے "آدمی کے لیے وہی کچھ ہے، جس کی اس نے سعی کی۔" پھر کس رسا ن سے ہم بھول جاتے ہیں۔ ملّا اور جاگیردار کے زیرِ اثر صدیوں سے بگڑی عادات، خوئے غلامی اور خود ترسی۔
اے کشتہء سلطانی و ملّائی و پیری