Friday, 29 November 2024
  1. Home/
  2. Haroon Ur Rasheed/
  3. Shahbaz Sharif Ka Muaqqaf

Shahbaz Sharif Ka Muaqqaf

ایک آدھ نہیں، یہ ساری سیاسی پارٹیاں اور سارے لیڈر اقتدار کے بھوکے ہیں، ہر قیمت پر اقتدار۔ حیف اس قوم پر جو انہیں گوارا کرتی ہے۔ گوارا ہی نہیں کرتی، ہیرو سمجھتی، ان کے گیت گاتی اور قصیدے پڑھتی ہے۔

اپنے دل کی بات آخر کار شہباز شریف نے کہہ دی۔ ایک قابلِ اعتماد اخبارنویس کو انٹرویو دیتے ہوئے، آزاد کشمیر کے باب میں، مریم نواز کے موقف کو انہوں نے مسترد کر دیا۔ کہا کہ"اپنی کارکردگی بتانے کے لیے ہمارے پاس بہت کچھ تھا، وہ بتائی جاتی۔ ایسے میں جب ہندوستان نے آرٹیکل 370کے تحت مقبوضہ کشمیر پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی، ضرورت ایک ایسے پیغام کی تھی کہ جہاں سے کشمیریوں کو حوصلہ ملتا اور ہندوستان دباؤمیں آتا۔ اسے پتہ چلتا کہ پاکستانی عوام کشمیریوں کی پشت پہ کھڑے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے قومی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ ہمارا دشمن منہ کھولے کھڑا ہے۔ اس کے عزائم ڈھکے چھپے نہیں۔ ہمارے فوجی جوان پاک سرزمین کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں لیکن ہمیں آپس کا حساب برابر کرنے سے فرصت نہیں۔ قومی دفاع کسی ایک ادارے کی ذمہ داری نہیں، ہم سب کا فرض ہے۔ ہم کشمیر میں ایسی کسی صورتِ حال کو طاری کرنے کے حق میں نہیں، جس کے اثرات کنٹرول لائن کے دوسری طرف جائیں، جہاں بھارت جیسا غاصب معصوم اور نہتے کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے۔ ان کے گھر بار جلائے جا رہے ہیں، نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ کشمیر ہمارے لیے کور ایشو تھا اور رہے گا۔ کسی طور بھی بھارت جیسے دشمن سے ہمیں غافل نہیں رہنا چاہئیے۔ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ قومی دفاع اور پاک سرزمین کے تحفظ کے حوالے سے ہمارے دفاعی اداروں کی ایک روشن تاریخ ہے۔ اس پر ہمیں ناز ہے۔"

عمران خاں پہ شہباز شریف نے اسی بھرپور لہجے میں تنقید کی، جیسی کہ دوسرے اپوزیشن لیڈر کرتے ہیں۔ عام آدمی کی زبوں حالی، مہنگائی اور جرائم کے فروغ پرملال کا اظہار کیا۔ سوال کیا کہ آٹا اور چینی مافیا پہ ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا۔ پی ٹی آئی کی حکومت پہ شہباز شریف کے اعتراضات قابلِ فہم ہیں۔ میڈیا پر ہاؤ ہو کی بات دوسری ہے، واقعہ مگر عام آدمی کی بے بسی اور بے چارگی ہے۔ سابق وزیرِ اعلیٰ کا ہدف مگر عمران خاں نہیں، خود ان کی لائق و فائق بھتیجی ہے۔ وہ سب کچھ انہوں نے کہہ دیا، جو آزاد مبصر اور نون لیگ کے مخالفین کہتے آئے ہیں۔

شہباز شریف کے موقف کا مرکزی نکتہ بہرحال یہی ہے کہ آزاد کشمیر میں مریم نواز کی مہم یکسر غلط خطوط پر تھی۔ یہ سوال بھی انہوں نے دہرایا کہ چھ کے مقابلے میں پانچ لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی مسلم لیگ کو پچیس کے مقابلے میں صرف چھ سیٹیں ہی کیوں ملیں۔ اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے۔ مہاجرین کی بارہ سیٹوں پر فاتح امیدوار کواوسطاً چار پانچ ہزار ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو نتائج تہہ و بالا کر دیتا ہے۔

اہم ترین سوال یہی ہے کہ سفاک نریندر مودی اور بھارتی فوج کے خلاف مریم نواز نے زبان کیوں نہ کھولی۔ وہ کشمیر جہاں کم از کم 80ہزار افراد شہید کیے جا چکے، ہزاروں ٹارچر سیلوں میں پڑے ہیں، بارہ بار ہ، چودہ چودہ برس کے ہزاروں بچے اٹھا لیے گئے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی۔ دو برس ہونے کو آئے، وادی میں کرفیو کی سی کیفیت ہے۔ ایڑیاں رگڑ تے ہوئے مریض گھروں میں مرتے ہیں۔ کہیں کہیں تو یہ بھی ہوا کہ بھوک سے بے چین لوگ فریاد کرتے رہے اورکوئی ان کی مدد کو نہ آیا۔ اسرائیل کی پیلٹ گنوں سے چہروں پر زخم لگائے گئے۔ سینکڑوں، بچوں، عورتوں اور مردوں کی بینائی چھین لی گئی۔ زندگی کے سب دروازے ان پر بند کر دیے گئے۔ محترمہ مریم نواز اور ان کے والد کو اس کا احساس کیوں نہیں۔ وہ کلبھوشن کا نام کیوں نہیں لیتے؟ ان کا دل اس پر دکھتا کیوں نہیں؟ وہ قتلِ عام کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبد الباسط کہتے ہیں: نریندر مودی سے نواز شریف کو ایک جذباتی وابستگی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سلیمان شہباز بھارتی شہریوں کو ویزے جاری کرنے کے لیے ٹیلی فون پر سفارش کیا کرتے۔ ہائی کمشنر بار بار توجہ دلاتے کہ ویزے کی درخواستیں معمول کے مطابق دائر ہونی چاہئییں۔ معمول کے مطابق ان پر عمل ہونا چاہئیے۔ سلیمان شہباز مگر مصر رہتے۔

یہ کوئی راز نہیں کہ ان بھارتیوں کی ضرورت کہاں تھی۔ ان میں سے بعض جاتی امرا میں قیام فرماتے، اپنی پسند کے کھانے کھاتے اور آزادانہ تبادلہء خیال کرتے۔ انہی میں سے کچھ شریف خاندان کی شوگر ملوں کا رخ کرتے۔ قانون کے مطابق معمول کی نگرانی سے مستثنیٰ۔ کون جانتاہے کہ ان میں سے کتنے "را" کے ایجنٹ تھے۔ یہ عمل جاری رہا، حتیٰ کہ میڈیا میں واویلا ہوا اور بڑھتا چلا گیا۔

کہا جاتاہے کہ دشمن کا دشمن اپنا دوست ہوتاہے۔ پاکستانی فوج پر نواز شریف کے اعتراضات بجا مگر کیا وہ اسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں؟ اس سے نفرت کرتے ہیں؟ اس فوج سے، دہشت گردی کے خلاف جس نے ایک بے مثال جنگ لڑی ہے اور ملک کو برباد ہونے سے بچا لیا ورنہ اس کا حال افغانستان، لیبیا، عراق، شام اور یمن سے مختلف نہ ہوتا۔ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ پاک فوج اور اپنے سیاسی حریفوں سے نواز شریف کی بے پایاں نفرت اب ریاستِ پاکستان سے کراہت میں بدل گئی ہے۔ اسی لیے وہ پاکستان کو گناہ کا بازار قرار دینے والے حمد اللہ محب سے ملاقات کا اہتمام فرماتے ہیں اور رتّی برابر اس پر شرمندہ نہیں ہوتے۔ اسی لیے ان کی پارٹی کے اسمٰعیل گجر انتخابی دھاندلی کے شبہ پر بھارت کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ ایک دلچسپ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ بھارت میں کشمیریوں کی حالت پاکستان سے بہتر ہے۔

بڑھتے بڑھتے نفرت کی آگ بالاخر ہوش و خرد کا ایک ایک ذرہ خاکستر کر دیتی ہے۔ رونا صرف نون لیگ کا نہیں، اخلاقی حالت سب پارٹیوں کی وہی ایک جیسی ہے۔ آصف علی زرداری کے دور میں ویزوں کے بغیر امریکی کارندے پاکستان میں اترتے اور فساد پھیلاتے رہے۔ ریمنڈ ڈیوس ایسے قاتلِ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے فرار ہوئے۔

کپتان کا حال یہ ہے کہ کشمیر کی انتخابی مہم علی امین گنڈاپور کو سونپ دی، بدزبانی کے جو خوگر ہیں۔ اعلانیہ وہ ووٹ خریدتے اور روپیہ بانٹتے رہے۔ ان کے محافظ کو فائرنگ کرتے دیکھا گیا۔ نون لیگ اور زرداری کی طرح تحریکِ انصاف نے سرِ عام وفاداریاں خریدیں اور ظفر مندی پہ فخر کیا۔ احساس اور شعور ہوتا تو شرمندہ ہوتے مگر احساس اور شعور کہا ں۔

ایک آدھ نہیں، یہ ساری سیاسی پارٹیاں اور سارے لیڈر اقتدار کے بھوکے ہیں، ہر قیمت پر اقتدار۔ حیف اس قوم پر جو انہیں گوارا کرتی ہے۔ گوارا ہی نہیں کرتی، ہیرو سمجھتی، ان کے گیت گاتی اور قصیدے پڑھتی ہے۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran