Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Iqtidar Javed/
  3. Aqwal e Ustad

Aqwal e Ustad

قول کا جمع صیغہ قوال ہے یا اقوال مجھے معلوم نہیں ہے۔ مگر سچ مانیے قوّال کا قول ہی اقوال کہلاتا ہے۔ اقوالِ زرّیں، زرّیں رقم کے اقوال ہوتے ہوں گے۔ استاد معمار مستقبل کا ہے، باتیں ماضی کی کرتا ہے۔ تعلیم و تربیت کبھی استاد کی بھی ذمہ داری ہوتی تھی۔ احمد ندیم قاسمی استاد شاعر تھے اور منصورہ احمد بہت بڑی استاد۔ کبھی استاد زمزہ توپ ہوتا تھا۔ آج کل طوطا توپ ہے۔

عدم کے بارے میں کہا جاتا تھا اتنا بڑا عدم۔ استاد مستقبل کی باتیں بتا سکتا ہے کیونکہ اسے علم ہوتا ہے اس کی آدھی کلاس فیل ہونے والی ہے۔ استاد سگنل مین ہے سگنل نہیں۔ استاد کبھی نہیں کہتا ہاتھ لا استاد کیوں کیسی کہی؟ استاد استاد ہی ہوتا ہے چاہے وہ سکول کا ہو یا ورکشاپ کا۔ شیر شکار سے عاجز آ جاتا ہے استاد استادی سے نہیں۔ استاد شکار نہیں کرتا، شکار کرنے کے گْر سکھاتا ہے۔ استاد کی استادی سے بچنا چاہیے۔ شاگرد ناکام ہو جاتا ہے استاد کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ استاد خواب دیکھتا نہیں خواب دکھاتا ہے۔ استاد کو زندگی میں استادی ہی بچتی ہے۔ اصل استاد تو شاعروں کا ہوتا ہے جو متشاعر کو شاعر بنا دیتا ہے۔ اساتذہ میں غالب بھی شامل ہیں اور ذوق بھی، یہی اصل استادی ہے۔ استاد کا نام ہی کافی نہیں آج کل اس کے دام بھی کافی ہیں۔ آج کل استاد دنیا کے مختلف ممالک میں لیکچر دیتے پھرتے ہیں اور خوش ہو کر کہتے ہیں کہ قبال نے ان کے لیے ہی کہا تھا

گھر میرا نہ دلّی نہ صفاہاں نہ سمر قند

اور دل میں لڈو پھوٹتے ہیں۔ استاد دنیا کی واحد مخلوق ہے جو سوال کرنے والے کے جذبات کا خیال کیے بغیر جواب دے دیتا ہے۔ استاد فعل حال کو فیل حال سمجھتا ہے۔ شاگرد کی جوانی اور استاد کا بڑھاپا اس کا اصل حسن ہوتا ہے۔ اردو پڑھانے والے استاد طیب کو شاگرد طیب اردوان کہتے ہیں۔

سائنس کی کئی شاخیں ہیں ایک پولیٹکل سائنس بھی اسی کی شاخ ہے۔ پھر میتھیمیٹیکل سائنس ہوتی ہو گی۔ عروض کا استاد بھی استاد ہی کہلاتا ہے۔ عالم کی جمع علما اور استاد کی جمع اساتذہ کیسے ہو سکتی ہے۔ استاد کا احترام کرو کیونکہ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔ خاوند کی گھر میں شاعر کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ شاعر استاد ہو سکتا ہے استاد شاعر نہیں ہو سکتا۔

شاعر بَلا نوش ہو سکتا ہے بِلا نوش نہیں۔ سر منڈاتے ہی اولے پڑے محاورے کو مجھ جیسے پنجابی سر منڈاتے ہی پولے پڑے سمجھتے آئے ہیں۔

فیض نے کہا تھا پولے کھاندیاں وار نہ آوندی اے۔ اہلِ اردو اسے اولے کھاتے ہی سمجھتے ہیں۔ فیض کے رنگ میں کوئی شاعری نہ کر سکا البتہ فیض سب سے زیادہ شعیب ہاشمی نے اٹھایا۔ شعیب ہاشمی کی مونچھیں اور ٹیگور کی داڑھی۔ ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ منیزہ ہاشمی کے بیٹے فیض کی بجائے راشد کے کلام پر فریفتہ ہیں۔

ریاضی پڑھانے بلکہ سمجھانے والے بھی استاد ہی کہلاتے ہیں۔ نالج اور کالج جڑواں بھائی ہیں۔ تعلیم کے فروغ کے لیے نسیم فروغ بہتر ثابت ہو سکتے ہیں۔ عمران خان وزیر اعظم کم استاد زیادہ ہیں لیکچر ہی دیتے رہتے ہیں کام وام کچھ کرتے نہیں۔ سیاست میں ہمیشہ ایک رجل الرشید ہوتا ہے ایک شیخ رشید ہوتے ہیں۔ رانا ثنااللہ کبھی رعنا ثنااللہ نہیں رہے۔ رانا ثنااللہ کی مونچھیں پیدائشی مونچھیں ہیں۔

زرداری کا اصل میں زر سے تعلق شادی کے بعد قائم ہوا۔ بے نظیر اپنے نام کے ساتھ تو بھٹو لکھتی رہیں مگر وہ بھی زرداری ہو گئیں تھیں۔ کچھ سیاستدانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ شرافت کے علمبردار ہیں۔ شرافت شر اور آفت سے نکلا ہو گا۔ اللہ بخشے عوامی نیشنل پارٹی کا نام اب دوامی ریشنل پارٹی ہونا چاہییے۔ ایک پارٹی باپ ہے جو ہر جماعت کے لیے طعنہ ہی بن جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کی مثال کی کوئی دوسری جماعت نہیں۔ تیسری اور چوتھی جماعت ہو تو سراج الحق اس کے ذمہ دار نہیں۔

ہمیشہ ایک پارٹی کی پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے، آج کل سر اس نے خود کڑاہے میں دیا ہوا ہے۔ فیصل آباد اور گوجرانوالہ کوئی لیڈر پیدا نہیں ہوا البتہ دھڑے بڑے پیدا ہوئے ہیں۔ دھڑے کے پکے فیصل آباد اور دوستی کے پکے گھڑے گجرات والے ہوتے ہیں۔ سائنسدان اور سیاستدان فرق صرف تجربہ گاہ کا ہوتا ہے۔ چھوڑتے دونوں لمبی لمبی ہیں۔ فیض احمد فیض استاد کم شاعر زیادہ تھے۔ استاد استاد ہوتا ہے جو چاہے کرے۔

صوفی تبسم کا بس چلتا تو ٹوٹ بٹوٹ کو فارسی کے کورس میں شامل کروا دیتے۔ شکر ہے علامہ استاد نہیں بنے ورنہ اساتذہ کا ان کے مقابلے میں وہی مقام ہوتا جو ان کے مقابلے میں ہماری شاعری کا ہے۔ شاعر بے دانت کا شیر ہوتا ہے ہر ایک کو کچا کھا جانا چاہتا ہے۔ کاش کوئی شاعر استاد نہ ہو میر اور غالب سے اپنا سلسلہ ملانا شروع کر دیتا ہے۔ استاد شاعر تو ہوتا ہی استاد ہے۔ حساب کتاب کرتے ہوئے لکھ پڑھت کی جاتی ہے کہ سند رہے۔ اسی لیے ایف بی اے اور ایم اے کی سند دی جاتی ہے کہ تصدیق ہو جائے کہ حامل سند ہذا کا لکھت پڑھت سے کبھی تعلق تھا۔ گورنر محمد سرور تعلیم کے نہیں تنظیم کے بندے ہیں۔ اس تنظیم کا تعلق نظم سے ہے کسی کالعدم تنظیم سے نہیں۔ جن کے کلام میں تاثیر نہیں ہوتی وہ اچھے استاد ضرور ہوتے ہیں۔

ایک استاد العلما ہوتے ہیں ان کا تعلیم سے زیادہ تربیت سے تعلق ہوتا ہے۔ اب استاد انکم ٹیکس گوشوارے میں ذریعہ آمدن بھی ذریعہ تعلیم لکھ دیتے ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran