ادب اور لٹریچر وہ آئینے ہیں جن میں آپ کسی سماج کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کسی سماج کی بنت، اس کے اجتماعی رویے اور اس کی سوچ اور خیالات کو ادب کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کسی ملک اور اس ملک کے سماج کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا چاہیں تو آپ کو ادب سے بہتر کوئی ترجمان نہیں ملے گا۔ ادب سماج کی تہذیب کے ساتھ فکر و نظر میں وسعت اور رویوں کو معتدل بناتا ہے۔ یہ ہمیں سوچنے اور سوال اٹھانے کا خوگر بناتا ہے اور یہ سیاہ اور سفید کے درمیان دیگر رنگ دیکھنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر آپ پاکستان کے اردو ادب میں مسئلہ فلسطین کو دیکھیں آپ کو مسئلہ فلسطین ہر عہد میں فرنٹ فٹ پر نظر آئے گا۔
ہر عہد کے شاعر اور نثر نگار نے مسئلہ فلسطین کو محسوس کیا اور اسے اپنی شاعری اور نثر کا حصہ بنایا ہے۔ یہ واحد مسئلہ ہے جس میں نظریاتی تقسیم بھی آڑے نہیں آئی اور دائیں بازوں کے اہل ادب نے اسے اسلام اور امت مسلمہ جبکہ بائیں بازو کے اہل ادب نے اسے انسانیت کے تناظر میں دیکھا۔ سوائے چند مفاد پرست اور شکست خوردہ کالم نگاروں، اینکر پرسنز اور نام نہاد مذہبی مصلحین کے جنہوں نے پچھلے چند سال سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی مسئلہ فلسطین ہمیشہ پاکستانی ریاست اور سماج کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ میں تاریخ کے دریچوں سے کچھ گواہیاں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ شکست خوردہ ذہنوں کو مسئلہ فلسطین پر پاکستانی ریاست، ادب اور سماج کا مؤقف معلوم ہو سکے۔
اردو شاعری میں جن شعراء نے مسئلہ فلسطین کو اپنے دیوان کا حصہ بنایا ہے ان میں علامہ محمد اقبالؒ، فیض احمد فیض، نعیم صدیقی، احمد ندیم قاسمی، رئیس امروہوی، ن م راشد، ابن انشا، حبیب جالب، احمد فراز، ظہیر کاشمیری، صہبا اختر، ضمیر جعفری، یوسف ظفر، خاطر غزنوی، ادا جعفری، شہزاد احمد، اسلم فرخی، عشرت ظفر، صلاح الدین پرویز، خالد سہیل، سلطان رشک، محمد فیروز شاہ، ایزد عزیز، اعتبار ساجد، ذیشان ساحل، کشور ناہید، خالد علیم، عامر سہیل، تقی عابدی، مختار الدین احمد اور سلیم شہزاد جیسے شعرا شامل ہیں۔
شعرا کی اس فہرست میں اقبالؒ اور فیض نمایاں ہیں، اقبالؒ کے عہد میں اسرائیل کا قیام تو عمل میں نہیں آیا تھا البتہ حالات اس نہج پر آگے بڑھ رہے تھے اور اقبالؒ کی ان واقعات پر گہری نظر تھی۔ وہ فلسطینی عوام کی حمایت کیلئے جیل جانے تک تیار تھے۔ انہوں نے اس ظلم پر نہ صرف برطانیہ اور لیگ آف نیشنز کو ذمہ دار ٹھہرایا بلکہ عرب حکمرانوں کی پالیسیوں پر بھی کھل کر تنقید کی۔ فیض احمد فیض فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کے قریبی دوست تھے۔ ایفروایشیائی ادیبوں کے رسالے "لوٹس" کے انگریزی سیکشن کی ادارت کے دوران ان کے فلسطینی شاعروں محمود درویش، سمیح القاسم اور معین سے دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے تھے۔
ایک دفعہ فیض صاحب سے سوال کیا گیا "فلسطین آپ کے لیے کیا حیثیت رکھتا ہے" اس پر ان کا جواب تھا "ان تمام برسوں کے بعد جو میں نے فلسطینیوں کے ساتھ گزارے میں خود ان میں شامل ہوگیا ہوں"۔ فیض احمد فیض نے فلسطینی مجاہدین کے لیے ایک ترانہ لکھا تھا جو ان کی نظم "ہم دیکھیں گے" کی طرز پر ہے اور اس کے ابتدائی الفاظ کچھ اس طرح ہیں"حقّا ہم اک دن جیتیں گے"۔
فیض احمد فیض کے علاوہ ابن انشا، حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی، ادا جعفری، احمد فراز، زہرہ نگاہ، کشور ناہید، اسلم فرخی، فہمیدہ ریاض اور شاہدہ حسن سمیت بہت سے شعراء و شاعرات نے فلسطین پر نظمیں لکھیں۔ احمد ندیم قاسمی کا ایک بہت مشہور شعر ہے "ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ، راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا"۔ طبع زاد شاعری کے ساتھ پاکستان میں عرب شعرا کی فلسطین پر کی گئی شاعری کے تراجم کی روایت بھی مستحکم ہوئی۔ امجد اسلام امجد، کشور ناہید، زاہدہ حنا، محمد کاظم، انور زاہدی، اسما رشید، منو بھائی اور آصف فرخی نے تراجم نگار ی کا کام کیا ہے۔
امجد اسلام امجد نے چار دہائی قبل احمد ندیم قاسمی کی تحریک پر سید محمد کاظم کے ساتھ مل کر عرب دنیا کے شاعروں کی فلسطین پر کہی گئی نظموں کے منظوم تراجم کا سلسلہ شروع کیا جن میں محمود درویش، نزار قبانی، سمیع القاسم، فدویٰ توقان، عبدالوہاب البیاتی اور نازک الملائکہ کا کلام شامل تھا۔ غرض یہ کہ ہر عہد کے شعرا نے آزادی و حریت کی اس تحریک میں جہاد بالقلم کے ذریعے حصہ ڈالا اور یہ روایت آج بھی جاری ہے۔ حال ہی میں معروف شاعر اور ادیب سید فراست رضوی کی نظموں کے مجموعے "سلام فلسطین" شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں شامل تمام نظمیں فلسطین کے دکھوں کے ساتھ عالمی استعمار کی عیاریوں اور صہیونی طاقتوں کے مذموم ارادوں کو بے نقاب کرتی ہیں۔
اردو شاعری کی طرح اردو نثر میں بھی مسئلہ فلسطین ہر عہد میں فرنٹ فٹ پر رہا ہے۔ اردو کہانی میں الطاف فاطمہ، خالدہ حسن، انتظار حسین اور خالد سہیل نے اپنی کہانیوں میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا ہے۔ الطاف فاطمہ نے فلسطین کے غم کو اس طرح اپنا غم بنا لیا تھا جیسے وہ خود فلسطینی ہوں۔ وہ کہتی تھیں فلسطین کی تحریک آزادی میں لفظ اتنے ہی اہم ہیں جتنی تلواریں۔ اردو افسانے میں فلسطین کو موضوع بنانے والوں میں قرۃ العین حیدر، قدرت اللہ شہاب، مظہر الاسلام، سمیع آہوجہ، خالد سہیل، انور خواجہ اور جمیل احمد عدیل وغیرہ شامل ہیں۔ اردو سفرنامے میں قدرت اللہ شہاب اور مستنصر حسین تارڑ نے مسئلہ فلسطین پر اپنے سفرناموں میں اظہار خیال کیا ہے۔ تراجم نگاری میں جن مترجمین نے فلسطینی ادب سے فکشن کے تراجم کیے ان میں محمد حمید شاہد، آصف فرخی، امجد طفیل، مسعود اشعر اور کشور ناہید وغیرہ شامل ہیں۔
ادب اور لٹریچر کے اس آئینے میں مسئلہ فلسطین کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ فلسطین اور فلسطینی مسلمان ہمیشہ پاکستانی ریاست، ادب اور سماج کی ترجیح رہے ہیں اور کسی بھی عہد میں ریاست، اہل دانش اور ادب نے انہیں فراموش نہیں کیا۔ آج بھی جب سے مسئلہ فلسطین شروع ہوا ہے پاکستانی ریاست، اہل دانش اور سماج ان کے ساتھ ہراول دستہ بن کر کھڑے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ بعض ایسے اہل قلم جو سیکولر کہلاتے اور مغرب کو اپنا امام مانتے تھے انہوں نے اہل مغرب کی منافقت کو محسوس کیا اور کھل کر فلسطین کی حمایت میں لکھا ہے۔
پاکستانی ریاست نے پچھلے پچھتر سال میں بغیر کسی دھونس اور لالچ میں آئے ہمیشہ فلسطین کے متعلق اصولی مؤقف اپنایا اور دنیا کے ہر فورم پر اس کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے ایسے تمام بہی خواہان اسرائیل جنہیں لگتا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں تو ہمارے پیٹ میں کیا درد ہے ہمیں بھی اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے یا ہمیں مسجد اقصیٰ پر یہودی حق تسلیم کر لینا چاہئے، انہیں یہ حقائق ذہن میں رکھنے چاہئیں۔ آپ کو اپنے مفادات اور شکست خوردہ ذہنیت مبارک ہو مگر پاکستانی ریاست، دانش اور سماج فلسطین کے متعلق اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہیں گے اور اہل فلسطین کی جہد مسلسل کی بدولت عنقریب یہ اصولی مؤقف پوری دنیا تسلیم کرنے پر مجبور ہوگی۔ بقول اقبال:
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا