Sunday, 13 April 2025
  1. Home/
  2. Irfan Siddiqui/
  3. Awamiat Ki Mauj e Bala Khez Aur Jamhuriat

Awamiat Ki Mauj e Bala Khez Aur Jamhuriat

امریکی اور یوکرینی صدور، ڈونلڈ ٹرمپ اور والدیمیر زیلنسکی کے درمیان حالیہ مکالمہ چند منٹوں پر مشتمل تھا لیکن اِس مکالمے سے شروع ہونے والا "مکالمہ" ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ شرکائے نشست کی گفتگو، الفاظ اور لب ولہجہ ہی نہیں، "بدن بولی" (Language Body) بھی دیدنی تھی۔ یہ اُس عوامیت (Populism)کا عُریاں مظاہرہ تھا جس کی کرشمہ سازیاں اَب یورپ، امریکا اور لاطینی امریکا تک ہی محدود نہیں رہیں، ایشیا تک آن پہنچی ہیں۔ کوئی آٹھ دہائیاں قبل ہٹلر کے مشیر گوئبلز کے پاس صرف ریڈیو تھا جس کے ذریعے اُس نے ہٹلر کا ایک مسیحا صفت بت تراشا اور خلقِ خدا کو اُس کے سحر میں مبتلا کردیا۔ آج بھی سامری کے بچھڑے، تخلیق کرنے کا فن، تشہیر کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی کوکھ سے پھوٹتا ہے جس نے گوئبلز کے ریڈیو کو، صدیوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔

یوکرین کے زیلنسکی اور امریکا کے ٹرمپ کی زندگی میں سب سے بڑی مماثلت یہ ہے کہ دونوں کا تعلق شوبز سے رہا۔ دونوں مختلف ٹی وی شوز، ڈراموں اور فلموں کے ذریعے، عوام کو تفریح فراہم کرتے رہے۔ ٹرمپ برسوں ایک مقبول ٹی وی ریلیٹی شو، کے میزبان اور ایگزیکٹو پروڈیوسر رہے۔ کئی فلموں اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں اداکاری کی۔ سیاست میں بڑا نام پانے سے بہت پہلے وہ امریکیوں کی جانی پہچانی، مانوس شخصیت بن چکے تھے۔

2017ء اور اَب، 2025ء میں اُنھیں ووٹ دینے والوں کی اچھی خاصی تعداد کو ٹرمپ کے کسی فلسفے، ویژن، نظریے یا منشورِ سیاست سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا۔ یہ ایک اندھا گونگا بہرہ، قبیل عشاق تھا جسے "فین کلب" (Club Fan) کہا جاتا ہے۔ زیلنسکی کا پس منظر بھی یہی تھا۔ وہ برسوں شوبز میں ایک قہقہہ بار مسخرے کے طورپر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔ کم وبیش ایک چوتھائی صدی تک ٹی وی، ڈراموں، فلموں اور شوبز میں لوگوں کو ہنستے ہنساتے رہے۔ دس بڑی اور کامیاب کامیڈی فلموں میں اداکاری کی۔ زیلنسکی نے اپنے ایک انتہائی مقبول ٹی وی سیریل "عوام کا خادم" (Servant of thepeople) میں ایسے سکول ٹیچر کا کردار ادا کیا جس کے دِل میں ملک کا صدر بننے کی آرزو کا کنول کھلا اور پھر وہ سکول ٹیچر اپنی کرتب کاریوں کے بل پر ایک دن واقعی ملک کا صدر بن گیا۔ شاید یہ سیریل کرتے ہوئے زیلنسکی کو اپنی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ ہوا اور اُس نے یوکرین کا صدر بننے کی ٹھان لی۔

2019ء میں جب اُس نے یکایک اعلان کیا کہ وہ صدارتی الیکشن لڑنے جارہا ہے تو بہت سے لوگوں نے اُسے معروف "جگت باز" کی ایک جگت جانا۔ اُس نے اپنے مقبول ڈراما سیریل کے نام پر اپنی سیاسی پارٹی کا نام بھی خادمِ عوام، (Servant of thepeople) رکھا۔ یوکرین میں خواندگی کی شرح سو فیصد بتائی جاتی ہے۔ ساڑھے تین کروڑ افراد میں سے ایک بھی ناخواندہ نہیں۔ لیکن جب اُن کے ہونٹوں پرمسکراہٹیں بکھیرنے، اُن کے دلوں کو گرمانے اور اُن کی شامیں دھنک رنگ بنانے والا مقبول اداکار، سیاست کے میدان میں اُترا تو پڑھے لکھے لوگوں میں سے بہت کم نے سوچا کہ کیا ایک عمرنگارخانوں کی نذر کردینے والا اداکار سیاست وقیادت کے معیار پر بھی پورا اُترے گا یا نہیں؟ بس ایک لہر سی اٹھی اور یوکرین اِس موجِ تُند خو میں بہتا چلاگیا۔

زیلنسکی نے "عظیم تر یوکرین" کا نعرہ لگایا۔ کرپشن کے خلاف جہاد کا پیغام دیا۔ روس کی بالا دستی کے تناظر میں "غلامی نامنظور" اور "حقیقی آزادی" کا بیانیہ تراشا۔ سوشل میڈیا کا رنگ جمایا اور 73 فی صدسے زائد ووٹ لے کر یوکرین کا صدر منتخب ہوگیا۔ یہ دنیا میں، عوامیت، (Populism) کی ایک اور بڑی فتح تھی۔ مقبول مزاحیہ اداکار نے یوکرین کو کچھ دیا یا نہیں، اپنی بے ڈھب پالیسیوں اور غیرسنجیدہ اقدامات سے روس کے ساتھ تنائو کو ہوا دی جس کا نتیجہ فروری 2022ء میں روسی حملے کی صورت میں نکلا۔

تین برس سے یہ جنگ جاری ہے۔ ایک لاکھ کے لگ بھگ افراد اِس کا لقمہ تر بن چکے ہیں۔ لاکھوں نقل مکانی کرگئے ہیں۔ لاتعداد بے گھر ہوگئے ہیں۔ اَن گنت معاشی، سماجی اور سیاسی مشکلات کا جنگل گھنا ہوتا جارہا ہے۔ امداد کا امریکی سر چشمہ خشک ہوگیا ہے اور عوامیت کے بجرے پر سوار اداکار، اپنے سے بڑے اور طاقتور، شاہسوارِ عوامیت، کے حضور بیٹھا تحقیر و تذلیل کے تازیانے کھا رہا ہے۔ ٹرمپ کا مطالبہ ہے کہ ہم نے تمھیں اربوں ڈالر دیے، اب تم بدلے میں ہمیں اپنی قیمتی معدنیات کی کانوں تک رسائی دو تاکہ ہم اپنی رقم مع سود مرکب وصول کرسکیں۔ زیلنسکی ہزار پیچ وتاب کھائے، اُسے اپنے سے بڑے "پاپولسٹ" کے سامنے جھکنا ہوگا۔

تین برس قبل جنگ چھڑی تو زیلنسکی نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی۔ وڈیو خطابات کی برکھا برسنے لگی۔ رنگا رنگ بیانیے تراشے جانے لگے۔ بیوی بچوں کو کسی نامعلوم مقام پر پہنچا کر خود فوجی وردی پہن لی اور "ٹک ٹاک" کا نمونہ بن گیا۔ اُس کی شہرت 90 فیصد سے آگے نکل گئی لیکن برسرِ زمین حقیقت یہ ہے کہ آج یوکرین جغرافیائی، سیاسی اور معاشی حوالے سے وہ نہیں رہا، جو چھ برس پہلے تھا۔

2019ء سے اب تک انتخابات نہیں ہوئے۔ مارشل لا نافذ ہے اور گھر گھر بے یقینی بال بکھیرے ماتم کر رہی ہے۔ اگلے چند دِنوں میں چھوٹا شعبدہ باز، اپنے ملک کی بیش قیمت معدنیات کا خزانہ، طشتری میں رَکھ کر بڑے شعبدہ باز، کو پیش کرنے جا رہا ہے۔ بڑا شعبدہ باز، امریکا کو کس حال میں چھوڑ جائے گا؟ اس کے لئے چار سال انتظار کرنا ہوگا۔

امریکا اور یوکرین میں عوامیت (Populism) کے مظاہروں نے، جہاں تاریخ عالم کے بہت بڑے عوامی پرستار، ہٹلر کی یاد تازہ کردی ہے وہاں یہ نہایت ہی سنجیدہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ اگر "عوامیت" کی لہر پھیلتی چلی گئی اور سیاسی قیادت جمی جمائی، پختہ کار اور سنجیدہ جماعتوں کے بجائے ٹیلی ویڑن کی سکرینوں، فلمی نگار خانوں، کھیل کود کے میدانوں اور تماشا گر سرکسوں سے جنم لیتی رہی تو حقیقی جمہوریت پر کیا گزرے گی؟ اور ہتھ چھُٹ مسخرے دنیا کو کن خطرات سے دوچار کردیں گے؟

سیاست پر نگاہ رکھنے اور انسانوں کے نظم اجتماعی کے خدوخال تراشنے والے مفکرین کو سوچنا ہوگا کہ کیا ایسی غارت گر "عوامیت" کو لگام ڈالنے کا کوئی طریقہ ہے یا نہیں جو حقیقت سے بعید، جھوٹ پر مبنی اور جذبات انگیز نعروں سے تلاطم اُٹھاتی اور ہر شعبہ زندگی کو زوال، انحطاط اور تباہی سے ہم کنار کرکے، ایک دن، ہٹلر کی طرح، کسی تہہ خانے میں خود کشی کر لیتی ہے۔ خود کشی تو کر لیتی ہے لیکن ساری دنیا میں جنگ کا الائو بھڑکا کر انسانیت کو سیلِ خوں کی نذر کردیتی اور خود اپنے ملک کو کھنڈر بنا جاتی ہے۔

"عوامیت" کا زہر تہذیبی اقدار، سماجی رویوں، مسلمہ اخلاقیات اور معاشرتی آداب و روایات کی رگوں میں بھی سرطان بو رہا ہے۔ عوامیت، کے موضوع پر گرفت رکھنے والے آسٹریلوی پروفیسر، بنجمن موفٹ (Moffitt Benjamin) کا کہنا ہے کہ

There are other traits associated with the typical populist leader. One is "Bad Manners" or behaving in a way that is not typical of a politician

"معروف معنوں میں عوامیت، زدہ لیڈر سے کچھ اور خصوصیات بھی جڑی ہوتی ہیں، ان میں سے ایک ہے "بُرے آداب و اطوار" (Bad Manners) یا پھر ایسا طرز عمل اختیار کرنا جو ایک سیاستدان کے طرزِ عمل کے منافی ہو"۔

"بُرے آداب و اطوار" کھوکھلے نعروں اور بے سروپا بیانیوں میں گُندھی "عوامیت" کا ایک تلخ تجربہ ہمارے ہاں بھی ہوا ہے جس کے اثرات و نتائج، جانے کب تک ہماری سیاست، معیشت، اخلاقیات، تہذیبی رویوں اور جمہوری اقدار کو متاعِ کوچہ و بازار بنائے رکھیں گے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran