Sunday, 24 November 2024
  1. Home/
  2. Irfan Siddiqui/
  3. Baghawat Jo Nakaam Ho Gayi

Baghawat Jo Nakaam Ho Gayi

متعلقہ حلقے بھرپور چھان بین اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر جان چکے ہیں کہ 9 مئی کی غارت گری عمران خان کی گرفتاری کا بے ساختہ ردّعمل نہیں، ایک سوچی سمجھی سازش تھی جس کا براہِ راست نشانہ آرمی چیف سید عاصم منیر تھے۔ لمحوں کے اندر اندر کوئٹہ سے پشاور تک فوجی تنصیبات اور علامات کو نشانہ بنانا خان صاحب اور اُن کے دیدہ و نادیدہ سہولت کاروں کا بھیانک منصوبہ تھا۔ ورنہ کیسے ممکن ہے کہ کوئٹہ میں پی ٹی آئی کے جانباز براہ راست چھاؤنی کا رُخ کریں اور فوجی دستوں سے ٹکرائیں، لاہور کے بے مہار جتھوں کو کورکمانڈر ہاؤس، عسکری پلازا اور سی ایس ڈی کے سوا کوئی ہدف نہ ملے۔

فیصل آباد کے سپوت براہ راست آئی ایس آئی کے دفاتر پر حملہ آور ہوں، سرگودھا اور میانوالی کے غضب ناک ہجوم فضائیہ کے اڈوں پر چڑھ دوڑیں، پشاور کے سورما ایف سی کے ہیڈکوارٹرز، قلعہ بالا حصار پر حملہ آور ہوں، سنگ باری اور آتش زنی کے لیے صرف دفاعی علامات ہی دکھائی دیں۔

1965ء کی یادگار طیّارہ ہی شعلوں میں لپٹا نظرآئے، شہدا کی یادگاریں ہی توڑی پھوڑی جائیں اور وطن پر جانیں نچھاور کرنے والوں کے مجسمے ہی شکست و ریخت کا نشانہ بنیں؟ عمران خان کمال معصومیت سے سوال کرتے ہیں، "اگر یہ پی ٹی آئی کے لوگ تھے تو مجھ پر قاتلانہ حملے کے بعد ایسا کیوں نہ ہوا؟ سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ آپ نے اُس وقت ایسا منصوبہ تیار نہیں کیا تھا۔

2018 میں فوج کی آراستہ پیراستہ بگھی میں سوار ہو کر قِصرِ اقتدار میں جلوہ افروز ہونے اور پھر کم و بیش ساڑھے تین سال نوبیاہتا دُلہن جیسے ناز نخرے اٹھوانے کے بعد عمران خان یہ نتیجہ اخذ کر چکے تھے کہ اپوزیشن کو کچلنے، اس کے ہر وار سے بچنے، عدالتوں سے مطلوب فیصلے لینے، کارکردگی اور خوئے دلداری کے بغیر بھی اتحادیوں کو اقتدار کی مالا میں پروئے رکھنے اور کسی ناہمواری کے بغیر حکومت کیے جانے کا نسخہئِ کیمیا یہ ہے کہ فوج کا سپہ سالار، ایک جانثار پاسبان کی طرح پہلو بہ پہلو کھڑا رہے۔

کم لوگ جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پورے عہد حکمرانی میں، پارلیمنٹ ہاؤس کا ایک کمرہ، فوج کے زیر اثر ایک ہمہ مقتدر ایجنسی کے افسر کے لیے وقف تھا۔ دونوں ایوانوں میں پوچھے جانے والے سوالات سے قانون سازی تک، تمام امور اس ہمہ مقتدر اہلکار کے دستِ قدرت میں تھے۔ اس بندوبست کو عمران خان "وَن پیج" کا نام دیا کرتے تھے۔ جنرل باجوہ کو پہلی توسیع کے بعد اُن کی نگاہیں اگلے آرمی چیف پر مرکوز ہوگئیں جو آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر اُن کے دل میں جگہ بنا چکا تھا۔ نقشہئِ کار بڑا واضح تھا۔

نومبر 2022 میں وہ جنرل فیض حمید کو آرمی چیف تعینات کریں گے۔ یہ مشترکہ مفادات اور پُرامن بقائے باہمی کا ایک طویل المعیاد معاہدہ ہوگا جس کے بعد 2023 اور پھر 2028 کے انتخابات سے آر ٹی ایس، والے نتائج کشید کیے جائیں گے۔ خان صاحب کا اقتدار 2033 تک برقرار رہے گا۔ اس عشرہئِ مبارکہ میں وہ اپنے سیاسی حریفوں کا کچومر نکال کر اس اقتدار کُلّی کے ساتھ حکمرانی کریں گے جس کا نمونہ ہٹلر اور مسولینی چھوڑ گئے ہیں۔

اس منصوبے میں کھَنڈت پڑنے کے کئی اسباب تھے۔ پہلے جنرل باجوہ نے بتایا کہ کرپشن آپ کے گھر تک آن پہنچی ہے خبر لیں۔ پھر جنرل سید عاصم منیر نے دستاویزات اور شواہد دکھاتے ہوئے خبردار کیا۔ اسباب اور بھی تھے۔ یہاں تک کہ تحریک عدم اعتماد نے دستک دی اور عمران خان حواس باختہ ہو گئے۔ بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن سہارے کو ایک تنکا بھی نہ ملا۔

حکومت گنوا دینے کے بعد عمران خان اور اُن کے اہالیوں موالیوں کا نیا منصوبہ یہ تھا کہ کس طرح جنرل فیض حمید کو سپہ سالار کی مسند بلند تک پہنچایا جائے؟ اگر ایسا نہ ہو سکے تو دوسرا جرنیل کون ہونا چاہیے؟ یہ بھی نہ ہو تو کس طرح ساری توانائیاں عاصم منیر کا راستہ روکنے پر مرکوز کر دی جائیں۔ ان اہداف پر نگاہ رکھتے ہوئے عمران خان نے طرح طرح کے اَن گھڑ اور بے ڈَھب بیانات دے کر پہلی بار اس تقرری کو متنازع بنایا۔ اسے جلسوں، جلوسوں، چوکوں، بازاروں میں لے آئے۔ موثر جگہوں پہ بیٹھے سہولت کار اُن کی پُشت پر تھے۔ جھوٹ پر مبنی ایک بے سروپا کہانی، ایک برادر دوست ملک تک پہنچائی گئی۔

"نادرا" میں نقب لگا کر سید عاصم منیر کے لواحقین کے کوائف اور نجی معلومات حاصل کی گئیں۔ یہ سب اہلکار گرفت میں آئے اور انجام کو پہنچے۔ کچھ داستانیں اور بھی ہیں۔ شاید آپ حیران ہوں کہ لندن میں نوازشریف تک پہنچنے والی سفارشوں میں ایک توانا سفارش جنرل فیض حمید کے لیے بھی تھی۔ ضمانت دینے والے نے کیا پیشکش کی، اس کا تذکرہ میں پھر کبھی کروں گا۔ اتنی بات میں پورے وثوق اور ذاتی معلومات کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اگر نوازشریف اپنی روایتی استقامت نہ دکھاتے تو منظرنامہ مختلف بھی ہو سکتا تھا۔

عمران خان اور کھُلے چھپے سہولت کاروں نے سید عاصم منیر کی تقرری روکنے کے لیے راولپنڈی پر چڑھائی اور آتشیں دھرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے لیے 26 نومبر کی تاریخ طے پائی۔ منصوبہ بندی یہ تھی کہ کئی لاکھ افراد راولپنڈی میں جمع ہوں اور فیصلہ سازوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں۔ تب خان صاحب پر حملے سے لگنے والے زخم تازہ تھے۔ انہیں صرف تئیس دن گزرے تھے۔ لیکن خان صاحب نے اس یلغار کی قیادت ضروری سمجھی۔

آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس نے ایک ٹاک شو میں بتایا، "میں نے خان صاحب سے کہا کہ آزادکشمیر میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ آپ راولپنڈی دھرنا دو تین دن آگے کر دیں تو خان صاحب نے جواب دیا، "تب تک تو آرمی چیف کی تقرری ہو جائے گی۔ پھر کیا فائدہ دھرنے کا۔ " پنجاب، خیبر پختون خوا اور آزاد کشمیر میں اپنی حکومتیں ہوتے ہوئے بھی عمران خان قابلِ ذکر مجمع نہ لگا سکے۔ شکستہ دِل ہو کر دھرنا دیئے بغیر واپس چلے گئے۔ 29 نومبر کو انہونی ہوگئی۔

شکستِ خواب کے بعد، عمران خان نے پانچ چھ ماہ پر محیط شبِ غم کس طرح کاٹی، یہ صرف وہی بتا سکتے ہیں۔ اس عرصے میں وہ اور اُن کے سہولت کار اپنے ہدف، سے غافل نہ رہے۔ سوشل میڈیا پر آرمی چیف کو غلیظ حملوں کا نشانہ بناتے ہوئے فوج میں دراڑیں ڈالنے کی منظم کوششیں جاری رہیں۔ عمران خان کھُلے بندوں آرمی چیف کو تمام مسائل اور اپنے سارے مصائب کا سرچشمہ قرار دینے لگے۔ ان کی لابنگ فرمیں متحرک ہوگئیں۔ اسلام آباد کے سفارت خانوں سے رابطے بڑھ گئے۔ "سی پیک دشمنی" مشترکہ ایجنڈے کا اہم نکتہ بنی۔

چین، روس اور ایران سے بڑھتی قربت کا ڈراؤنا خواب تراشا گیا۔ پی ٹی آئی کے پرستاروں کی رگوں میں بارود بھرا گیا۔ عمران خان "ریڈ لائن" قرار پائے۔ داخلی اور خارجی سہولت کاروں نے منصوبے کے خدوخال سنوارے۔ اس کے لیے وہ دِن طے پایا جس دِن عمران خان کو گرفتار کیا جائے گا۔ اندرونی حلقوں نے عمران کو باور کرا دیا تھا کہ فوجی تنصیبات بالخصوص شہداء کی یادگاروں پر حملہ، آرمی چیف کی کمزوری اور ناقص پالیسیوں سے تعبیر کیا جائے گا، سو ایک زبردست ارتعاش پیدا ہوگا اور عاصم منیر اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔

ایسا کچھ نہ ہوا۔ قرآن مجید کہتا ہے، "اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر فرمائی۔ اور اللہ ہی بہترین خفیہ تدبیر کرنے والوں میں سے ہے۔ " فوج کے خلاف بغاوت ناکام ہوگئی۔ غیر روایتی اور مصدقہ شواہد کے اس دور میں سب کچھ ریکارڈ پر آ چکا ہے۔ مجرم شناخت کیے جا چکے ہیں۔ پردہ کب اٹھتا ہے، ایک بڑی پریس کانفرنس کا انتظار کیجئے۔

ادھر عمران خان کے بیرونی سہولت کار، جو اس سازش کا بھی حصہ تھے، انسانی حقوق کی دہائی دے رہے ہیں۔ یہ فریاد اُس برطانیہ سے بھی آ رہی ہے جس نے 2011 کے فسادات میں گیارہ سالہ بچی کو بھی معاف نہ کیا اور اُس امریکہ سے بھی جس نے 2021 میں اپنی پارلیمنٹ پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے سرغنہ کو اٹھارہ سال قید سنا دی اور اس شخص کو ساڑھے چار سال کے لیے جیل بھیج دیا جس نے سپیکر نینسی پلوسی کی کرسی پر پاؤں رکھ کر تصویر بنوائی تھی۔ اُن کی کرسیاں کیا ہمارے شہداء کی یادگاروں سے بھی زیادہ مقدس ہیں؟

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran