سینیٹر عرفان صدیقی کی سینیٹ میں پیش کردہ درد انگیز قرارداد کا متن جس میں عالم اسلام کی اسرائیل کے سامنے بے بسی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ قرارداد کے متن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ نیل کے ساحل سے کاشغر کی خاک تک ڈیڑھ دو ارب مسلمان نہیں علامہ اقبال کے الفاظ میں راکھ کا ایک ڈھیر ہے اور ہم بھی راکھ کے اس ڈھیر کا حصہ ہیں۔
آج سینٹ میں فلسطین کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ ساڑھے تین کروڑ مربع کلومیٹر پر پھیلے مسلمان اکیس بائیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے چھوٹے سے اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ رہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی تنظیمیں بھی کوئی کردار ادا نہیں کر پا رہیں۔ عرب لیگ نے ایسا بیان جاری کیا جس میں حماس اور اسرائیل کو ایک ہی پلڑے میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہی حال او۔ آئی۔ سی کا ہے جو کوئی متحرک کردار ادا نہیں کر رہی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تقریریں، طویل ہوں یا مختصر، لچھے دار لفظوں میں ہوں یا سادہ، کسی کام کی نہیں۔
سینیٹر صدیقی نے کہا کہ غزہ میں ہر دس منٹ میں ایک معصوم بچہ شہید ہو رہا ہے۔ ہر روز چار سو کے لگ بھگ بچے شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم بموں کا مقابلہ بموں سے، ٹینکوں کا مقابلہ ٹینکوں سے نہیں تو کم از کم سیاسی اور سفارسی سطح پر تو دنیا بھر کو ہلا سکتے ہیں لیکن امت مسلمہ کا کردار انتہائی افسوس ناک ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے بھرائی ہوئی آواز میں ایک قرارداد بھی ایوان میں پیش کی جس میں کہا گیا کہ
"میرے غزہ کے نہتے باسیو میرے غزہ کے پھول جیسے معصوم بچو!
اپنے سامنے اپنے بچوں کو موت کی اغوش میں جاتے دیکھتی ماؤ!
میری بہنو، میری بیٹیو! میرے بزرگو! میرے نوجوان بیٹو!
ہم پاکستان کے 25 کروڑ لوگ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔
]دیکھ رہے ہیں کہ تمہارے گھر کھنڈر ہو رہے ہیں
دیکھ رہے ہیں کہ تمہاری بستیاں ملبے تلے دبا قبرستان بن رہی ہیں
دیکھ رہے ہیں کہ تمہارے ہسپتال، تمہارے اسکول، تمہاری مسجدیں، تمہارے کیمپ، سب کچھ ظالمانہ بمباری کا نشانہ بن رہا ہے
دیکھ رہے ہیں کہ تمہارے لیے کسی پناہ گاہ تک پہنچنا بھی مشکل بنا دیا گیا ہے
دیکھ رہے ہیں کہ چاروں طرف خوف، تباہ کاری اور غارت گری کے بھوت رقص کر رہے ہیں
دیکھ رہے ہیں کہ بچ جانے والے زخمی بچے کس طرح ماں باپ کی لاشوں سے چمٹے ہیں
ہم یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ تمہارے دکھ درد میں شریک ہیں۔
لیکن میرے پھول جیسے بچو! میری ماؤ، بہنوں بیٹیو!
ہم تم سے بھی زیادہ مجبور اور بے کس ہیں۔ ہم بڑی بڑی طاقتوں کا نام بھی نہیں لے سکتے جو تم پر ظلم ڈھا رہی ہیں، ہمیں بھی زندہ رہنے کو روٹی چاہیے۔ ڈالر چاہییں۔
ہمیں معاف کر دو، آج نیل سے کاشغر کی خاک تک دو ارب مسلمان نہیں، راکھ کا ایک ڈھیر ہے۔ ہم بھی اس ڈھیر کا حصہ ہیں۔
ہمیں معاف کر دو! ہم تمہاری مدد کو نہیں آ سکتے۔ تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتے، بس اتنی التجا ہے کہ روز محشر اللہ کے حضور ہماری شکایت نہ کرنا۔ اور کرو بھی تو حضور انور کی آنکھ سے بچا کر کرنا۔ ہم کس طرح نبی رحمت کا سامنا کریں گے۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔ "