عمومی قیاس یہی ہے کہ دانش و حکمت کا خزانہ صرف بزرگوں کے پاس ہوتا ہے لیکن زمانہ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ دانش و حکمت کے اوزان اور ترازو بھی بدل گئے ہیں۔ رائج الوقت نظریہ یہ ہے کہ جس طرح عمرِ گریزاں کے ساتھ ساتھ چہرے پر جھرّیاں پڑنے لگتی ہیں، ابرُؤں کے بال موٹے، سفید، گھنے اور بھاری ہو کر، ڈھیلے ڈھالے لٹکے ہوئے پپوٹوں سے گلے ملنے لگتے ہیں، دانت اپنی جڑیں چھوڑ دیتے ہیں، ہاتھوں میں رعشہ آ جاتا ہے اور گفتگو کا بہاؤ تھکے ہارے انجن کی طرح جھٹکے کھانے لگتا ہے، اسی طرح مردِ بزرگ کی دانش بھی سنولا سی جاتی ہے۔ وہ عصرِ حاضر کے مَرض کی تشخیص نہیں کر سکتا۔ کر بھی لے تو اپنی اُدھڑی ہوئی میل خوردہ زنبیل سے پُرانے صَدری نسخے نکال کر مسیحائی کی کوشش کرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ مَرض اور مریض دونوں ہنس کر منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔
اقبال نے کہا تھا، "جوانوں کو پیروں کا اُستاد کر"، اس لیے میں خود کو وقت سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے جوانوں کی تحریریں بڑی توجہ سے پڑھتا اور اُن کی فکرِ تازہ کا مصفّیٰ پانی اپنی دانشِ پژمُردہ پر چھڑکتا رہتا ہوں جس طرح گُل فروش مرجھائے پھولوں پر مسلسل پانی کا چھڑکاؤ کرتے رہتے ہیں۔
کچھ دِن قبل میں نے عزیزی یاسر پیرزادہ کا کالم پڑھا۔ اُس نے آج کے مقبول موضوع "صلح صفائی" کو ذرا مختلف اور منفرد زاویے سے دیکھا ہے۔ موجودہ ملکی صورت حال کے تناظر میں بزرگانِ دانش و حکمت دُہائی دے رہے ہیں کہ "سب ایک ہو جائیں، بھلا دیں ماضی کو، صاف کر لیں اپنے دل اور دماغ، دھو ڈالیں سب کدورتیں، معاف کر دیں ایک دوسرے کو، گلے لگ جائیں، یک دل، یک جان، یک زبان ہو جائیں، "تقاضا یہ ہے کہ عمران خان سادہ و معصوم شخص ہے۔ بھولپن میں کچھ ناگفتنی باتیں بھی کہہ جاتا ہے۔ 9 مئی کو جو کچھ ہوا، بہت بُرا ہو۔ ہم اُس کی شدید مذمت کرتے ہیں لیکن اب ہوگیا جو ہونا تھا۔ مٹی ڈالیں اس پر۔ دل بڑا کریں اور معاف کر دیں"۔
یاسر کے کالم کا مفہوم یہ تھا کہ دانشورانِ عصرِ حاضر غلط آدمی (نواز شریف) سے مخاطب ہیں۔ حالات کو اعتدال پر لانے، متعفن روایات پر مٹی ڈالنے اور ایک نئے عہد کا عہد نامہ رقم کرنے کی ذمہ داری نواز شریف نہیں، عمران خان کے کندھوں پر ہے۔ اگر وہ آج بھی 9 مئی کو اپنی ٹوپی میں سُرخاب کا پَر سمجھتے ہیں اور اُسی نظریے کا پرچم تھامے سیاست میں واپس آنا چاہتے ہیں تو صلح صفائی کیسے ہو؟ کس سے ہو؟
عمران خان کا متحرک سیاسی سفر 1999 کی فوجی بغاوت کے بعد جنرل پرویز مشرف کے دستِ آمریت پر بیعت سے شروع ہوا۔
2011 میں جنرل شجاع پاشا کی برکھا، تحریکِ انصاف کے سوکھے دھانوں پہ برسی اور فصل چھاؤنیوں کی چھاؤں تلے پروان چڑھنے لگی۔ 2018 کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے ذریعے دیرینہ خواب، تعبیر کو پہنچا۔ کامل چار برس عمران خان نے سیاسی فراست، کشادہ ظرفی اور افہام و تفہیم کا ادنیٰ سا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔ اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ تک نہ ملایا۔ قومی سلامتی کے انتہائی حساس اجلاس ہوئے۔ پوری فوجی قیادت نے شرکت کی۔ وزیر اعظم کسی اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔ دلیل یہ کہ میں"چوروں" سے ہاتھ نہیں ملا سکتا۔ سو وہ اپوزیشن کو بازاری گالیاں دینے، زندانوں میں ڈالنے، اُن کے پنکھے اتروانے اور الزامات تھوپنے ہی کو کمال فن سمجھتے رہے۔
اب سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ عمران خان نے عدم اعتماد کی تحریک کے بعد سیاسی ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی۔ غیرآئینی طور پر قومی اسمبلی توڑنے کا مشورہ دیا۔ صدر علوی نے غیر آئینی طور پر اسمبلی توڑی جو غداری کے مترادف ہے۔ عمران خان اور صدر علوی کے اسی ہیجانی، جذباتی اور غیر آئینی ردّعمل سے عدم استحکام، پیچ در پیچ بحرانوں اور انتخابات میں تاخیر کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کا ارتعاشِ مابعد (After Shocks) آج تک محسوس کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ بھاری بھرکم اپوزیشن کی قیادت کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں موجود رہتے تو اپنی مخصوص شعلہ بیانی سے صرف تین ارکان کی اکثریت رکھنے والی پندرہ جماعتی مخلوط حکومت کو تگنی کا ناچ نچا سکتے تھے۔ انتخابات مقررّہ وقت، نومبر 2023 میں ہوتے اور عمران خان اڈیالہ جیل میں ہونے کے بجائے بہ اندازِ دگر انتخابی مہم کی قیادت کر رہے ہوتے۔
ایک اور موقع اُنہیں محرومیئِ اقتدار کے صرف ایک ماہ بعد، مئی 2022 میں ملا۔ پی ڈی ایم نے حکومت سنبھالتے ہی جب معیشت کی غارت گری اور بڑی حد تک ناقابلِ اصلاح صورتِ حال دیکھی تو فیصلہ کر لیا کہ اپنی سیاسی جمع پونجی داؤ پر لگانے کے بجائے فوری طور پر انتخابات میں چلے جانا چاہیے۔ صدر عارف علوی اور جنرل باجوہ کے ذریعے عمران خان کو باضابطہ طور پر اس فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا۔ وہ نہ مانے۔ کہا کہ "میں 25 مئی کو لاکھوں عوام کے ساتھ اسلام آباد جا رہا ہوں۔ حکومت بھی الٹوں گا اور الیکشن کی تاریخ بھی لے کر اٹھوں گا"۔ یہ کہانی پرویز خٹک بھی سنا چکے ہیں۔ عمران خان لانگ مارچ سے نہ ٹلے تو سب سے پہلے نواز شریف نے وزیر اعظم شہباز شریف کو پیغام دیا کہ اب کسی کی دھونس میں آنے کی ضرورت نہیں۔ حالات کا سامنا کریں۔
ملک کو ابتری سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اسمبلی کو اپنی معیاد پوری کرنے دیں۔ تمام جماعتوں نے اس کی تائید کی۔ بے لچک ضد نے خان صاحب کو پیچھے دھکیل دیا۔ ذرا اِس شیش ناگی انا اور طفلانہ ہٹ دھرمی کے کرشموں پر نظر ڈالئے۔ قومی اسمبلی سے استعفے دئیے کہ الیکشن مل جائیں گے۔ نہ ملے۔ آرمی چیف کی تعیناتی سے دو دِن پہلے راولپنڈی پر چڑھائی کی کہ سید عاصم منیر کی تقرری روکی جائے۔ ناکام رہے۔ افتادِ طبع کو چین نہ ملا تو پنجاب اسمبلی توڑ دی کہ اب تو الیکشن ناگزیر ہیں۔ ایسا نہ ہوا۔ جھنجھلا کر خیبرپختون خوا اسمبلی توڑ ڈالی۔ انتخابات پھر بھی نہ ملے۔ زِچ ہو کر فوج میں بغاوت اور عاصم منیر کا تختہ الٹنے کی سازش کی۔ سازش کے فتیلے کو آگ دکھانے کے لیے 9 مئی کو ملک گیر غارت گری کا منصوبہ بنایا اور خان صاحب وہاں پہنچ گئے جہاں ہر شعلہ مزاج، انا پرست اور بے حکمت شخص کو جلد یا بدیر پہنچنا ہی ہوتا ہے۔
"مٹی ڈالو" کے مبلّغین پر ایک بنیادی سوال کا جواب لازم ہے۔ کیا 9 مئی کی نشانہ بند تباہ کاری، فوج کے اندر بغاوت اور آرمی چیف کا تختہ الٹنے کی سازش کو معصومانہ بھول چُوک اور جمہوری احتجاج کا بنیادی حق قرار دے کر "عفو و درگذر" کی ریشمی قبا پہنا دی جائے؟ کیا خان صاحب نے کوئی ایک بھی مثبت اشارا دیا ہے کہ وہ ماضی پر لکیر پھیر کر ایک نئے آغاز کی خاطر "چوروں اور ڈاکوؤں" سے ہاتھ ملانے اور مل بیٹھنے کو تیار ہیں؟ خان صاحب کی طرف سے کسی باضابطہ "وکالت نامے" کے بغیر بزرگانِ دانش و حکمت کی طرف سے "سب گلے مل جائیں" کی رومانوی صدائیں، صدا بہ صحرا نہیں تو کیا ہیں؟ آج بھی عمران خان روزن زنداں سے آنکھ لگائے بیٹھے ہیں کہ جنرل پاشا، جنرل ظہیر الاسلام، جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ جیسا کوئی کرشماتی جنّاتی کردار، کوہ قاف کی بلندیوں سے اترے اور انہیں آغوش میں لے کر وزیراعظم ہاؤس کے پنگھوڑے میں ڈال دے۔ اب یہ ممکن نہیں رہا۔ بے حکمتی کے باعث انہوں نے اپنے جمہوری انتخابی راستے میں خود ہی گہری کھائیاں کھود دی ہیں اور اہلِ کوہ قاف زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھ چکے ہیں۔
اور آخری بات، ! کیا 9 مئی کی کھلی بغاوت کے بعد عمران خان کے پاس یہ گنجائش موجود ہے کہ ایک رسمی سے "حرف معذرت" یا "گلے لگ جانے" کی آرزو کے بعد وہ معمول کی جمہوری سیاست کی طرف پلٹ آئیں؟