یا د نہیں پڑتا کہ آئی۔ ایس۔ آئی کے کسی سربراہ کو براہ راست میڈیا کے سامنے آ کر اپنا موقف پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہو۔ 1980ء کی دہائی میں افغانستان پر روسی حملے کے خلاف مزاحمتی تنظیموں کا دست و بازو بنتے ہوئے آئی۔ ایس۔ آئی پیشہ ورانہ مہارت کی نئی بلندیوں تک پہنچی اور اس کا شمار دنیاکی صفِ اول کی ایجنسیوں میں ہونے لگا۔
یہ سب کچھ سانحہ بہاولپور میں شہید ہونے والے جنرل اختر عبد الرحمن کی قیادت میں ہوا۔ داخلی، سیاسی اور خارجی عوامل کے شدید دباؤ کے باوجود جنرل اختر آخر ی لمحے تک میڈیا سے دور رہے۔ جہادِ افغانستان میں ان کے اور آئی۔ ایس۔ آئی کے کردار کی تمام تفصیلات سانحہ بہاولپور کے بعد منظرِ عا م پر آئیں۔
جنرل ندیم انجم نے بھی اپنے پیش رو سے قطع نظر، میڈیا سے گریز کی اسی روایت کو پسند کیا۔ سو 27اکتوبرکو، یکایک ان کی"رونمائی" اچنبھے کی بات تھی۔ انہیں خود بھی اس کا اندازہ تھا۔ لہذا ابتدا میں ہی کہہ دیا کہ"ذاتی تصاویر اور تشہیر پر میری پالیسی واضح ہے۔ آج میں اپنی ذات کے لئے نہیں، اپنے ادارے کے لئے آیا ہوں"۔ جنرل کی دلیل بجا تھا۔ بلاشبہ جھوٹ کے طوما ر اور بہتان کے انبار کے بعد روایت کی کھوہ سے نکلنا ناگزیر ہو گیا تھا۔
فوج، عمران خان کی طرف سے برہنہ، کرخت، بے ڈھب اور زہر ناک تنقید کی زد میں تھی۔ یہ تنقید نہیں، کھلی توہین، تضحیک اور دُشنام طرازی تھی۔ نام لے لے کر اور نام دے دے کر زہر میں بجھے ایسے تیر برسائے گئے کہ ساری حدیں پامال ہو گئیں۔ یہاں تک کہ آرمی چیف کی تقرری کے نہایت حساس موضوع کو بھی متاعِ کوچہ و بازار بنا دیا۔ گزشتہ پون صدی کے دوران فوج کے سیاسی کردار پر ہمیشہ تنقید ہوتی رہی۔ کبھی دھیمے، کبھی اونچے سُروں میں۔
اس مرض کا ذکر بڑی صراحت کے ساتھ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں بھی کیا گیا تھا۔ لمحہِ فکریہ یہ ہے کہ عمران خان نے فوج کو تختہِ مشق اُس وقت بنایا جب وہ، سیاست سے دستکش ہو کر، سختی سے اپنی آئینی ذمہ داریوں تک محدود رہنے کا ادارہ جاتی فیصلہ کر چکی تھی۔ خان صاحب صرف اس لئے انگاروں پہ لوٹ رہے ہیں کہ فوج، ان کی پدرانہ و مادرانہ سرپرستی سے دستبردار ہو کر اپنے دستوری وظیفے کی طرف کیوں پلٹ گئی ہے؟
عمران خان کے اس اضطراب کا تجزیہ مشکل نہیں۔ تحریکِ انصاف نے 1996ء میں آنکھ کھولی۔ اگلے برس، 1997ء کے انتخابات میں کوئی نشست اس کے حصے میں نہ آئی۔ خود عمران خان آٹھوں نشستوں سے ہار گئے۔ انتخابی راستہ انہیں مشکل لگا۔ جلد ہی، اکتوبر1999ء میں مارشل لاء کا ناقوس بجا۔ بلند بانگ دعووں کے ساتھ وجود میں آنے والی ایک نوزائیدہ جماعت کے پرعزم قائد کی حیثیت سے عمران خان کے سامنے دو راستے تھے۔
پہلا یہ کہ وہ ماضی کی متعفنّ روایات سے ہٹ کر آئین اورجمہوریت کی پاسبانی کے لئے سرِ مقتل آئیں اور پوری توانائی کے ساتھ وہ کچھ کہیں جو آج تئیس برس بعد وہ(ناروا طور پر) کہہ رہے ہیں۔ دوسرا راستہ یہ کہ وہ آئین، جمہوریت، عوامی حاکمیت اور تبدیلی کے نعروں کو غیر مستعمل بّلے کی طرح کباڑ خانے میں پھینک کر آئین شکن ڈکٹیٹر کی انگلی تھامے اپنی منزلِ مراد کی طرف سفر آغاز کریں۔ تب خان صاحب نے آئین شکن کو جانور کہا نہ میر جعفر نہ میر صادق نہ کچھ اور۔ انہوں نے آمرّیت کی زنجیریں توڑ کر "حقیقی آزادی"کا نعرہ بھی نہ لگایا۔
رضا کارانہ خود سپردگی کے والہانہ پن کے ساتھ ڈکٹیٹر کے عزائم کے طوق و رسن کو زیبِ دست و گلو کیا اور ساری امیدیں ایک جرنیل کی خوشنودی و دلداری سے جوڑ لیں۔ تن من دھن سے مشرف کے رسوائے زمانہ ریفرنڈم کا ہر اول دستہ بن گئے۔ معاوضے کے طور پر ڈکٹیٹر کے سامنے قومی اسمبلی کی ایک سو نشستوں کا بھاری بھر کم بِل پیش کر دیا۔
مشرف نے کہا انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق آپ کی اوقات زیادہ سے زیادہ چار یاپانچ سیٹیں ہیں۔ میں آپ کو آٹھ سے دس سیٹیں دے سکتا ہوں"۔ خان صاحب کے شیشۂِ دل پر بال آگیا۔ الیکشن لڑا۔ صرف اپنی نشست جیت پائے۔ لیکن یہ بات ان کی کتاب سیاست کا سنہری درس بن گئی کہ بارگاہِ اقتدار تک پہنچنے کے لئے صرف آمروں یا طاقت کے حقیقی سرچشموں کی آشیر باد ہی ثمر آور ثابت ہو سکتی ہے۔
وہ دن اور آج کا دن، خان صاحب اس درس کو نہیں بھولے۔ بس اپنی کشتِ ویراں کی منڈیر پر بیٹھے، آسماں پہ نظریں جمائے، ابرِ بہار کی دعا مانگتے رہے۔ لگ بھگ ایک عشرے کے بعد مارگلہ کی پہاڑیوں سے سُرمئی گھٹا اٹھی تو خان صاحب کو لگا کہ تخمِ آرزو پھوٹنے کا لمحہ آن پہنچا ہے۔ پی۔ ٹی۔ آئی کی بلائیں لیتی ہواؤں کا پہلا بڑا اور موثر مظاہرہ 2011ء کا لاہوری جلسہ تھا۔ ستم یہ ہو ا کہ رخصت کے لئے کمر بستہ آرمی چیف، جنرل کیانی نے کُھل کھیلتی خود معاملہ ہواؤں کو اپنی حدوں میں رہنے کا سخت حکم جاری کیا۔
مارگلہ سے اٹھنے والی گھنگھور گھٹا، بن برسے اپنے ٹھکانوں کو پلٹ گئیں۔ جنرل کیانی کے رخصت ہوتے ہی"انصاف پرور"ہواؤں اور گھٹاؤں نے ایک بار پھر قیامت خیز انگڑائی لی۔ یہ تو بہ شکن انگڑائی نواز شریف کی نا اہلی، آرٹی، ایس کی ناگہانی موت اور اس وقت کے ڈی جی۔ آئی۔ ایس۔ پی۔ آر جنرل آصف غفور کے اس ٹویٹ پہ ٹوٹی۔ "وَ تُعِزُّومَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ ومَنْ تَشَاءُ" عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ ہواؤں اور گھٹاؤں کی سرشاری، جاری رہی۔ وہ خان صاحب کی کشتِ ویراں کو آبِ زر سے سینچتی، اپنے لہو میں گندھی کھاد ڈالتی اور اپوزیشن کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر مسلسل"کِرم کُش" ادویات چھڑکتی رہیں۔
پونے چار برس بعد پتہ چلاکہ اس کشتِ ویراں سے صرف خنجرنُما کانٹے ہی اُگ سکتے ہیں۔ شکستہ دل ہواؤں اور گھٹاؤں نے بستر سمیٹا اور اپنی گھپاؤں میں بُکل مار کر بیٹھ گئیں۔ مسلح افواج نے عہد کیا کہ آئندہ وہ اپنی مقدس وردی کو سیاسی آلائشوں سے پاک رکھیں گی۔ یکایک خان صاحب لق و دق دشتِ بے اماں کی جلتی بلتی دھوپ میں تنہا رہ گئے۔ اب وہ فوج کے خلاف صرف اس لئے آگ اگل رہے ہیں کہ اس نے ان کے سر پر تنا سائبانِ عافیت کیوں اٹھا لیا ہے؟
آئی۔ ایس۔ آئی چیف نے تنگ آمد بجنگ آمد، کے طور پر، کھری کھری سنا دیں۔ کہہ دیا کہ"دن کو جانور، میر جعفر اور میر صادق کہتے ہو تو راتوں کو چھپ چھپ کر ملتے کیوں ہو؟" جنرل صاحب کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ عاشق و معشوق کے، مابین دل کے معاملات کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مصطفے خان شیفتہ نے کہا تھا؛
تم لوگ بھی غضب ہو کہ دل پر یہ اختیار
شب موم کر لیا، سحر آہن بنا لیا
جنرل افتخار بابر تو اب فنِ ابلاغیات پر اُستادانہ دسترس حاصل کر چکے ہیں لیکن جنرل ندیم انجم کی اردو کی تحسین بھی لازم ٹھہرتی ہے۔ کیا کمال کا جملہ ہے۔ "جب جھوٹ اتنی آسانی، روانی اور فروانی سے بولا جانے لگے تو سچ کی لمبی خاموشی بھی ٹھیک نہیں ہوتی"۔ جنرل ندیم کی اردو دانی ان کی "چہرہ نمائی"کی طرح حیران کر گئی۔